تحریر: عاطف رمضان، جتوئی
لوگوں کے خیالات ہیں کہ دوستی سے مراد وہ تعلق ہوتا ہے جو کسی دو اجنبی
لوگوں کے درمیان کوئی دوسرا رشتہ ہونے پر بنتا ہے۔ جیسا کہ آج کل کے حالات
میں اس دنیاکے خوبصورت ترین رشتے کو بد ترین رشتہ بنادیا گیا ہے۔ جیسے کہ
ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی دوستی کا رشتہ جس عرفِ عام میں گرل فرینڈ، بوائے
برینڈ کا نام دیا گیا ہے۔اس بے عزت اور بد ترین رشتے کے اتار چڑھاؤ کی
بدولت جو اپنے دوست کو اچھا پاتا ہے تو وہ دوستی کے لفظ کو سرخاب کے پر سے
لکھتا ہے، ہیروں میں تولتا ہے جب کہ اگر کسی کا دوست برا نکلے تو وہ شخص دو
ستی کے لفظ سے ہی نفرت کرتا ہے اور برائیوں کے انبار لگا دیتا ہے۔
میرے نکتہ نظرسے حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ اﷲ تعالی نے اس خوبصورت ترین رشتے
کو انسانوں کے ساتھ ساتھ باقی تمام کائنات کو آپس میں جوڑنے کے لیے یہ رشتہ
انعام کیا جب کہ انسانوں کے درمیان موجود اﷲ تعالی نے تمام رشتے وضاحت کے
ساتھ بتا دیے ہیں ۔اگر کوئی اجنبی کے رشتے کی بات کرتا ہے تو وہ بھی ہمارے
پاک پیغمبر ﷺنے میثاق مدینہ میں اجنبیوں کو ان کا اخوت کا رشتہ یعنی بھائی
بھائی کا رشتہ بنا یا اور بتادیا تھا۔یہی وجہ ہے جب دو اجنبی اپنے پیغمبر
اور رب کے عطا کردہ رشتوں کو دیگر رشتوں میں بدلنے لگتے ہیں تو نقصان اٹھا
تے ہیں اس لیے کیونکہ جو رشتہ وہ بنا لیتے ہیں اس میں رب اور رسول کی طرف
سے ہونے والی برکت ختم ہو جاتی ہے اور دوسری بات یہ کہ دونوں شعور رکھنے
والے فریق ہوتے ہیں اس لیے جس سے ہر کسی کو اپنا گھاٹا دکھتا ہے اور
بیگاڑپیدا ہوتاہے کیوں کہ ان رشتوں کی بنیاد فقط دنیاوی غرض، حرص اور لالچ
ہوتی ہے جب کہ اخوت جیسے اجنبی رشتے میں ہی ایک شخص دوسرے کی فکر کرتا ہے
جس سے تعلق اورمضبوط ہوتا ہے ۔
یہ انسانیت کے درمیان تعلق تھا جب کہ کائنات اور انسا ن کے درمیان کا تعلق
ہی اصل دوستی کا تعلق ہے جو کائنات کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔مثال کے طور پر
جب ہم پھولوں،پودوں ،پہاڑوں ،جھرنوں،وادیوں ،پرندوں اور جانورں کے علاوہ
کتابوں یا پھر جن چیزوں سے مانوس ہو جاتے ہیں ،ان کے درمیان دوستی جیسی
انمول نعمت کو پاکر پرسکون اور پر لطف زندگی گزارتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کی جو
لوگ انسانوں سے جلد مانوس نہیں ہوتے وہ ان قدرتی مناظر اور کتب سے جلد
دوستی کرلیتے ہیں۔ یہی چیزیں دوستی کا حق ادا کرتی ہیں کیوں کہ دوستی کا حق
اپنے دوست کی فکر کرنا ہے۔
دوستی سے ہی ہم خود کو پہچان پاتے ہیں جب کہ انسان جو دوستی کو نہیں جانتا
وہ حق کو کیا جان پائے گا۔ جو اپنی زندگی کا مقصد اور اصول نہیں جانتا، وہ
کیا جانے گا کہ دوستی کا اصول ،خود کو دوسروں پر ترجیح دینا ہے، مقصد دوسرں
کی خوشی اور بھلائی ہے ۔لیکن انسان دوستی کی اصلیت تب سمجھتا ہے جب وہ اس
دوستی کو سمجھ لیتا ہے ۔ اور ہم میں سے اکثرلوگ دوستی کے اصل موانی و مفہوم
سے ناآشنا ہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو تعلقات بھی مفاد کی بنیاد پر استوار
کرتے ہیں۔ جو انسان کے درمیان والے تعلق کو دوستی سمجھتا ہے جیساکہ آج مجھے
سمجھ آئی اصل دوستی کیکی دوست تو وہ ہوتا ہے جو ہر غم، پریشانی ، خوشی و
دکھ کے موقع پر ہمارا سایہ بن کر ہمارے ساتھ رہے۔
|