عائشہ مغل کا تعلق خواجہ سرا کمیونٹی سے ہے اور وہ
پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈرہیں جو ایک نجی یونیورسٹی میں بطور لیکچرار
اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں عائشہ مغل سے جب الیکشن 2018ء میں خواجہ سراؤں
کی الیکشن میں شمولیت کے بارے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان
کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خواجہ سراؤں کو بطور ووٹر اور بطور
امیدوار برائے اسمبلی آگے آنے کا موقع ملا ہے جو کہ قابل تحسین بات ہے لیکن
اگر سیاسی پارٹیوں کے منشور کا مطالعہ کیا جائے تو بہت ہی کم پارٹیوں کے
منشور میں تیسری جنس کے حقوق یا ان کی فلاح و بہبود کے بارے میں کچھ لکھا
نظر آتا ہے لیکن یہ اچھی بات ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ہمارے لئے بہتر
سوچا اور ہمیں بھی ملک و قوم خدمت کیلئے موقع دیا۔ان کا کہنا تھا کہ خیبر
پختونخواہ حکومت نے 20کروڑ روپے کا فنڈ خواجہ سراؤں کیلئے مختص کیا تھا مگر
اس کا آج تک علم نہیں ہو سکا کہ وہ فنڈ کہاں پر لگایا گیا ۔ان کا کہنا تھا
کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے تیسری جنس کیلئے جو کمیٹیاں بنائی جاتی
ہیں ان میں غیر متعلقہ افراد کو ممبر بنا دیا گیا ہے جو کہ قابل تشویش بات
ہے اگر تیسری جنس کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں میں خواجہ سراؤں کو ہی ممبر
بنایا جائے وہ سب سے بہتر بات ہوگی کیونکہ خواجہ سرا ہی تیسری جنس کی بہتر
طریقے سے نمائندگی کر سکتے ہیں ۔جب خواجہ سراؤں کو کمیٹیوں میں شامل نہیں
کیا جاتاتو پھر انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ جو تیسری جنس کیلئے
پالیسی بنائی گئی وہ کس نے بنائی اور کن باتوں کو مد نظر رکھ کر اسے تحریر
کیا گیا۔ عائشہ مغل نے نومنتخب حکومت کے حوالے سے کہا کہ تبدیلی کی جو لہر
ملک میں چلی ہے اس سے جس طرح سے پوری قوم کو امیدیں ہیں ہم بھی حکومت سے پر
امید ہیں کہ نئی حکومت نہ صرف ہمارے حقوق کو پورا کرنے کیلئے نئے بل منظور
کروائے گی بلکہ پہلے سے منظور شدہ بلوں /قوانین پر بھی مکمل عملدرآمد
کروائے گی جس سے خواجہ سرا کمیونٹی کا معیار زندگی بلند ہوگا ۔ عائشہ مغل
نے مزید کہا کہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ جب تک
عام افراد کی بات نہیں سنی جائے گی تب تک معاشرتی مسائل میں کمی لانا مشکل
ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے عائشہ مغل تیسری جنس کی نمائندگی کر رہی
ہیں اور حکومت سے اچھی امیدیں ہیں بالکل اسی طرح سے دیگر افراد کو بھی
خواجہ سراؤں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جبکہ حکومت کو ایسی پالیسیاں مرتب
کرنی چاہئیں جن سے آنے والے الیکشن میں تیسری جنس کو ان مشکلات کا سامنا نہ
کرنا پڑے جو کہ حالیہ الیکشن میں دیکھنے کو ملیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
ہمارے ملک کا آئین ،حکومت اور عدلیہ جو حقوق تیسری جنس کو فراہم کرتے ہیں
ان پر کوئی بھی فرد ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ریاست اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے آئین کے مطابق اگر کوئی باشندہ کسی دوسرے باشندے کے حقوق غصب
کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ملتی ہے مختلف مقامات پر
خواجہ سراؤں کی عزت نفس مجروح کرنے کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور جب
خواجہ سرا کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی
جائے اور اچھے مقاصد کیلئے نہ صرف خواجہ سرا کمیونٹی ساتھ دے بلکہ دیگر
افراد بھی ان کے مقاصد کو پورا کرنے میں ساتھ دیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس
طرح سے خواجہ سراؤں کی تعلیم و تربیت کیلئے ادارے قائم کئے جا رہے ہیں اس
کی ماضی میں مثال نہیں ملتی جبکہ خواجہ سرا حال ہی میں قائم کئے گئے سکول
سے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر شعور و آگاہی حاصل کر رہے ہیں اور اسی
شعور کا ہی نتیجہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں خواجہ سراؤں نے بھرپور حصہ لیا
اور نہ صرف اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائی بلکہ اپنی مہم چلا کر یہ بھی ثابت
کر دیا کہ جب وہ کسی کام کیلئے ڈٹ جائیں تو پھر اسے کر کے ہی دم لیتے ہیں
اور یہی وجہ ہے کہ اب خواجہ سرا شعور و آگاہی حاصل کر کے معاشرے میں اپنا
نام بنا رہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں بھی خواجہ سراؤں
کو بھرپورشمولیت کا حق ملنا چاہئے اور جو مشکلات خواجہ سراؤں کو اس الیکشن
میں دیکھنے کو ملیں ان کے خاتمے کیلئے مثبت اقدامات کئے جائیں تاکہ معاشرتی
ناہمواریوں کا بطریق احسن خاتمہ ہو سکے اور ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان
کے تمام باشندے اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ خوشگوار زندگی بسر کر سکیں۔
|