ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکتا

کوئی کام کرنے کی ٹھان لینا اور پھر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جو دشواریاں اور مشکلات آئیں، انہیں برداشت کرکے ثابت قدم رہنے کا نام ’’ہمت‘‘ ہے۔ کسی بھی انسان کے زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ہمت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ہمت ہر مشکل کام کو آسان بنادیتی ہے۔ ہمت نہ ہو تو زندگی پتھر کی طرح جامد ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہمت ہو تو کامیابی قدم چومتی ہے۔ یہ ہمت ہی تو ہے جو انسان کو ترقی اور کامیابی کی منازل طے کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق و تجسس، سائنس کے کارنامے، انجن، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلیفون اور ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب ہمت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے اور اگر ہمت نہ کرے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرا بیٹھا رہے تو بھوکا بھی مرسکتا ہے۔ اگر انسان ہمت کرے تو تاریکیوں کا سفر ترک کرکے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے، اگر ہمت نہ کرے تو غربت اور گم نامی کی تاریکیوں میں زندگی گزارنا پڑسکتی ہے۔ ہمت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔

ہمت، محنت، استقلال اور بردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد و قلمکار اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انہیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے اس زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے کے لیے کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا، لیکن ہمت اور جہد مسلسل لازم ہے۔ آج کا انسان چاند تک پہنچ چکا ہے۔ زمین و آسمان، کوہسار و یگزار اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ صرف ہمت، محنت، لگن، استقلال اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ اگر انسان ہمت نہ کرتا تو نہ کبھی فضاؤں کی سیر کرسکتا تھا اور نہ زمین کے اندر کی اور سمندروں کی کھوج لگاسکتا تھا۔ انسان نے ہمت کی تو کامیابی حاصل کرلی۔ ہمت کے آگے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ ہمت میں لغزش پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی دشت و صحرا آج تک انسان کا راستہ روک سکے ہیں۔

آج ہم آپ کو کراچی کی ایک باہمت لڑکی کی کہانی بتاتے ہیں، جس نے نابینا ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے مقصد کی جانب سفر جاری رکھا، بلکہ اپنی منزل کو پاکر ہی دم لیا۔ ہمارے معاشرے میں ایک نابینا انسان کے لیے زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کا اندزاہ کوئی بینا انسان ہرگز نہیں لگا سکتا ہے، اور اگر نابینا مرد کی بجائے عورت ہو تو اس کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں اور اگر نابینا فی میل بچپن میں ہی والد کے سائے سے محروم ہوجائے تو اس کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ عموما ایسے ’’اسپیشل پرسن‘‘ ساری زندگی گھٹ گھٹ کر محتاجی کی زندگی گزارتے ہیں، کیونکہ ان کے ذہن میں یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے، بلکہ دوسروں کے سہارے جینا ہی ان کا مقدر ہے۔ معذوری قدم قدم پر ان کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور اکثریت کے پاؤں کی زنجیر بن کر انہیں ناکامی کے کھونٹے سے باندھ دیتی ہے، لیکن کچھ لوگ بالکل منفرد ہوتے ہیں، جن کو قدرت نے ایسی ہمت، جرات، استقامت اور حوصلہ عطا کیا ہوتا ہے کہ وہ معذوری کے باوجود انتہائی مشکل حالات میں بھی کبھی ’’شکست‘‘ کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اپنی ڈکشنری سے ’’شکست‘‘ کے لفظ کو مٹا کر ’’فتح‘‘ لکھ دیتے ہیں۔ شکست پر فتح حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک نارمل انسان سے کئی گنا زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ یہ باہمت لوگ ہمت اور محنت کا دامن تھامتے ہیں اور کامیابی ہونے تک تھام کر ہی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ صرف کامیابی کی خواہش نہیں کرتے، بلکہ اپنی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا بھی جانتے ہیں۔ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کی خواہش تو ہر انسان رکھتا ہے، لیکن اپنی خواہش پر عمل کرنا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا اصل کمال ہے۔ ان خواہشات کے حصول کے لیے اپنے سامنے موجود رکاوٹوں کو بڑے حوصلے اور استقامت سے پھلانگنا پڑتا ہے اور یہ باہمت لوگ ہمت کے ساتھ تمام رکاوٹوں کا پھلانگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمت و استقامت کو سلام پیش کیا جانا چاہیے۔

کراچی کی رہائشی جوہی مسعود انہیں باہمت لوگوں میں سے ایک ہے، جو پیدائشی نابینا ہے۔ بچپن میں ہی والد کے سائے سے محروم ہوگئی تھی۔ پڑھنے کا شوق تھا، لیکن مشکلات کا ادراک بھی تھا، مگر اس سب کچھ کے باوجوداپنے شوق کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ تعلیم حاصل کرنے کی ٹھانی اور ڈٹ گئی۔ والدہ نے جاب شروع کی، جوہی کا بھرپور ساتھ دیا اور اس کی تعلیم کے اخراجات اٹھاتی رہی۔ والدہ نے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے رکھا اور نابینا بیٹی نے تعلیم کا سلسلہ رکنے نہیں دیا اور اس طرح جوہی مسعود پڑھتے پڑھتے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش تک تعلیم مکمل کرچکی۔ ذرا تصور کیجیے! ایک سال میں 365دن ہوتے ہیں اور مسلسل 16سال نابینا ہونے کی حالت میں اپنے مشن کی جانب بڑھتے چلے جانا مشکل کام ہے، بلکہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لڑکی کی ہمت و استقامت کو داد دیجیے کہ دنیا کو دیکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود 16سال دنیا دیکھنے والوں سے بھی آگے بڑھتی ہی چلی گئی۔ ایسے معاشرے میں جہاں لڑکی کا تعلیم حاصل کرنا ایک لڑکے کے مقابلے میں قدرے مشکل ہوتا ہے ، ایک ایسے معاشرے میں جہاں کسی یتیم کو وہ عزت و احترام نہیں دیا جاتا جو اس کا حق ہوتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کسی معذور انسان کے لیے ایک عام انسان کی بنسبت کئی گنا زیادہ مشکلات ہوتی ہیں، ایسے معاشرے میں جوہی مسعود نے تعلیم حاصل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنے قدم رکنے نہیں دیے۔ اپنے مشن کو مکمل کر کے دم لیا۔ اور جوہی مسعود نے ابھی بھی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں کیا، بلکہ سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور سی ایس ایس کی تیاری بھی شروع کرچکی ہے۔ جوہی مسعودکو اﷲ تعالیٰ نے بہت ہی ہمت عطا کی ہے، وہ جس کام کا ارادہ کرتی ہے، وہ کرگزری ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود اپنی منزل پر پہنچنا ہی اس کا مشن ہوتا ہے اور اپنا مشن حاصل کرکے ہی دم لیتی ہے۔ جوہی مسعود نے سی ایس ایس کرنے کا ارادہ کیا ہے، امید ہے وہ ایم انگلش کی طرح یہ بھی کر گزرے گی اور نمایاں کامیابی حاصل کرے گی۔ جب سے مجھے اس باہمت لڑکی کی کہانی کا علم ہوا ہے، تب سے سوچ رہا ہوں کہ مجموعی طور پر ہم لوگ کتنے کم ہمت ہوتے ہیں۔ تھوڑی سی مشکل آجائے تو اچھے خاصے مرد بھی ہمت ہار جاتے ہیں، لیکن اس باہمت لڑکی نے تمام تر مشکلات کے باوجود یہ ثابت کردیا ہے کہ
وہ کونسا عقدہ ہے جو وا ہونہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکتا

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.