خبر ہے کہ دو دن قبل آنے والی تبدیلی اور انقلاب کے امین
ایک ایم پی اے نے بیچ چوراہے ایک شہری کو نئی تبدیلی اور انقلاب کا مطلب
سمجھایا،وجہ اس افتاد کی یہ تھی کہ ایم پی اے موصوف جن کا نام ڈاکٹر عمران
علی شاہ ہے اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ کہیں انقلاب برپا کرنے جا رہے تھے کہ
پیچھے سے ایک معمولی گاڑی پہ سوار معمولی آدمی نے نہ صرف ان کے سکواڈ کو
اور ٹیک کرنے کی کوشش کی بلکہ راستہ نہ ملنے پر ایک بار کی بجاے دو بار
ہارن بھی بجایا جس پر ایم پی اے صاحب کی طبیعت مکدر ہو گئی اور انہوں نے
نیچے اتر کر آؤ دیکھا نہ تاؤ اور بیچ چوراہے اپنے باپ کی عمر کے شہری کی
ٹھکائی کر کے اسے سمجھا دیا کہ ہم ریاست مدینہ بنانے کا آغاز کر رہے ہیں
اور آپ ہیں کہ ہمیں ابھی سے ڈسٹرب کیے جا رہے ہیں ،ڈاکٹر عمران علی شاہ نے
یکے بعد دیگرے کئی تھپڑ جڑنے کے بعد دوبارہ اپنی راہ لی میرے جیسے شہری
صاحب جنہیں اپنے شریف شہری ہونے کا بڑا زعم ہے ماں جیسی ریاست میں اپنی
معمولی حیثیت کی معمولی کلٹس گاڑی کے باہر کھڑے دیکھتے رہ گئے ،یہ سارا کچھ
عام افراد نے تو دیکھا ہی ساتھ میرے جیسے شریف شہری صاحب کے اہل خانہ نے
بھی اپنے ایک بزرگ کی اپنے نو منتخب حکمران سے درگت بنتے دیکھی مگر چونکہ
موصوف میری طرح ڈرپوک قسم کے انسان تھے چپ کر کے مار کھاتے رہے اور یہ ایک
طرح سے عقلمندی بھی تھی کیوں کہ تازہ تازہ اقتدار کا نشہ اس کے ساتھ ساتھ
پانچ چھ گارڈز پچاس ساٹھ لاکھ کی تین چار گاڑیاں دس بارہ مشٹنڈوں کے ہوتے
ہوئے بہتر یہی ہے کہ چپ کر کے مار کھا لی جائے ، یقین کریں ان کی جگہ میں
بھی ہوتا تو یہی کچھ کرتا حالانکہ مجھے اپنے شریف شہری ہونے کے علاوہ صحافی
اور آزاد و بے باک میڈیا کا حصہ ہونے کا بھی گھمنڈہے، یہ تو بھلا ہو پیچھے
آنے والے کسی راہ گیر کا جس نے ایم پی اے صاحب کو غضب ناک انداز میں اترتے
دیکھ کر ڈرتے ڈرتے ہی سہی واقعے کی وڈیوبنا لی ورنہ شریف شہری صاحب جتنا
مرضی زور لگا لیتے کبھی کوئی مان کے ہی نہ دیتا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا
ہے،وڈیو بنی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس کے بعد ایم پی اے صاحب کو
معافی کا خیال آیا اور فوراً شریف شہری صاحب کے گھر جا پہنچے اور اسے غالباً
حکم دیا کہ مجھے فی الفور معاف کرو ، کیو ں کہ ایم پی صاحب کے نکلتے ہی نہ
جانے کہاں سے چند رپورٹر آن وارد ہوئے اور شریف شہری کو گھیر لیا اور اس سے
پوچھا کہ کیا آپ واقعے کی ایف آئی آر درج کروائیں گے جس کے جواب میں
انتہائی کرب دکھ اور بے بسی سے ان صاحب نے جواب دیا کہ میں نے کیا ایف آئی
آر درج کروانی مجھے پتہ ہے کچھ نہیں ہونا یہاں، کوئی ان کا کیا بگا ڑ لے گا،
یہاں الٹامجھے مزید ذلیل ہونا پڑے گا، معاف نہ کروں تو اور کوئی چارہ نہیں،
اس سے پہلے کہ میں اس پر اپنی رائے دوں اس واقعے کے فوری بعد ایم پی اے
موصوف کی سٹیپ مادر سامنے آئیں اور ان کے مزید کارنامے بیان کیے کہ میں ان
کے والد ڈاکٹر علی محمد شاہ کی بیوہ ہوں اور خود بھی ڈاکٹر ہوں ابھی بھی
جناح ہسپتال کراچی میں تعینات ہوں میری شادی ایم پی اے عمران علی شاہ کے
والد سے ہوئی جس سے میرا ایک بیٹا ہے جو زیر تعلیم ہے ،ڈاکٹر علی محمد شاہ
کے بعد ڈاکٹر عمران علی شاہ مجھے مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کر رہا ہے اور
جو کلینک میں نے اور میرے میاں نے مل کر بنایا تھا ڈاکٹر عمران مجھ پر نہ
صرف دباؤڈال کر ہتھیانے کے چکر میں ہے بلکہ ایک بار تو باقاعدہ ساتھیوں کی
مدد سے حملہ کر کے مجھے زخمی اور زدو کوب بھی کر چکا ہے,حیرت ہے کہ کیسے
کیسے ہیرے لوگوں کو اس جماعت نے ٹکٹ جاری کیے جو دو نہیں ایک پاکستا ن کی
دعویدار ہے جس کاالیکشن سے قبل نعرہ اور دعویٰ تھا کہ ہم بنائیں گے نیا
پاکستان ،آہستہ آہستہ سامنے آ رہا ہے کہ کیسے کیسے نگینے لوگ اپنی تجوری
میں موجود ہیں ،امید کی جا سکتی ہے کہ جن لوگوں کا اخلاقی میعار و کردار یہ
ہے انہوں نے ٹکٹ کیسے حاصل کیے ہوں گے نئے پاکستان کے لیے نئے لوگ منتخب ہو
کر آئے اور آتے ہی پرانے پاکستان کے پرانے لوگوں کو تبدیلی کا مطلب سمجھانا
شروع کر دیا،اس سارے عمل کے بعد ریاست مدینہ بنانے کے دعویداروں کی ذمہ
داری کیا بنتی تھی ،کاش کہ انہوں نے ریاست مدینہ مدینہ کی رٹ لگانے کی
بجائے اس ریاست مدینہ کے چند اصول و ضوابط بھی پڑھ لیے ہوتے ،اس وقوعے کے
بعد ڈاکٹر عمران علی شاہ کو پارٹی نے نہ صرف شو کاز نوٹس جاری کر دیا بلکہ
ایک ماہ کے لیے ان کی رکنیت بھی معطل رک دی ،صدقے اور قربان جایئے غالبا ً
ریاست مدینہ سے مراد موجودہ ریاست مدینہ ہے پھر تو ہمیں گلہ نہیں کرنا
چاہیے تاہم اگر آپ مثال قرون اولیٰ کی ریاست کی دیتے ہیں تو یا تو آپ جھوٹ
بولتے ہیں یا جان بوجھ کر منافقت سے کام لے رہے ہیں کیوں کہ اس ریاست مدینہ
میں نہ کوئی شوکاز نوٹس ہوتا تھا نہ ہی چند دنوں کی معطلی ،وہا ں اصول یہ
تھا کہ خدانخواستہ اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرے تو ان کا بھی ہاتھ کاٹ
دیا جائے ،یہاں ایک واقعہ ہوا باقاعدہ وڈیوبنی سارے ملک بلکہ آدھی دنیا نے
دیکھی اور مجرم کو سزا یہ دی گئی کہ ایک شوکاز نوٹس اور مہینہ کے لیے معطلی
وہ بھی پارٹی رکنیت سے ،جناب اس سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں ہو سکتا کسی بھی
شہر ی کے ساتھ ، اس سے تو بہتر کام شہباز شریف نے کر دیا تھا کہ جب ایک
بیکری پر اس کے داماد اور اس کے گماشتوں نے ایک ملازم کو اسی طرح شہنشاہوں
سے بات کرنے کی تمیز سکھائی تھی وہ بھی ریکار ڈ ہو گیا اور اس پر فوری
عملدرآمد ہوا اور نہ صرف ایف آئی آر درج ہوئی بلکہ دو دن داماد شریف جیل
میں بھی رہے،یہاں پر بھی عوام کو اپنے نئے متوقع وزیر اعظم جو عموما ً ہر
بات میں ا سکاٹ لینڈ اور ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں سے بڑی توقع تھی کہ
کوئی ایسا فیصلہ کریں گے جو باقی دعوٰی داران انقلاب کے لیے نمونہ بنے اس
کے علاوہ انتہائی فعال اور متحرک چیف جسٹس صاحب نے بھی نہ جانے کیوں اب تک
اس پر سو موٹو نوٹس نہیں لیا،ہمیں نہ جانے کیوں ہر بار سبز باغ تو بڑے
دکھائے جاتے ہیں مگر اپوزیشن میں رہ کر۔ حکومت میں آکر جس طرح ہر حکمران کو
میڈیا بر الگنے لگتا ہے اسی طرح اپنے سابقہ قول اقرار بھی یاد نہیں
رہتے،ریاست ہو گی ماں کے جیسی ہم اب تک سنتے رہے ہیں اب قوم اس خواب کی
عملی تعبیر کے انتظار میں ہے کہ ماں جیسی نہ سہی سوتیلی ماں جیسی ہی بن
جائے تب بھی بڑی بات ہے اور ریاست مدینہ جیسی ریاست کے لیے فقط بازو لہرانے
اور گلہ پھار پھاڑ کر اعلان کرنیچیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہو گا کچھ ایسا
کرنا ہو گا جو نظر بھی آئے کیوں ریاست مدینہ میں ظلم اور ذیادتی پر شو کاز
نوٹس جاری نہیں ہو تے تھے ادھر آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان کا
فارمولہ چلتا تھا، ایم پی اے ڈاکٹر عمران صاحب چونکہ اب حکمران طبقے میں
شامل ہو چکے ہیں اس لیے اپنے نظام ان کا احتساب ذرا مشکل ہے تاہم اگر آپ
واقعی ریاست مدینہ کے وعدے پر ابھی تک قائم ہیں تو بسمہ اﷲ کیجیئے اس شہری
کو اسی پل کے نیچے جدھر اسے تھپڑ مارے گئے کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ
عوام کے سامنے اپنے نئے انقلابی حکمران سے بدلہ لے سکے، کیوں کہ ریاست
مدینہ نے ایک عام شخص کو ایک عام ایم پی اے نہیں گورنر سے بھی بھرے مجمعے
میں بدلہ لینے کا حق دیا تھا، ہو سکتا ہے آپ ایک ایم پی اے سے ہاتھ دھو
بیٹھیں مگر یقین رکھیں کہ اگر آپ نے اﷲ کے حکم کی پاسداری کی تو کوئی مشکل
کوئی پریشانی آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی دوسری صورت میں تاریخ کا
قبرستان ایک اور تاریخی قبر کے لیے تیار ہے،،،،اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ |