سوشل میڈیا نے یقیناً ہماری زندگی میں نقلاب سا برپاکردیا
ہے مگریہ بھی سچ ہے کہ انسا کی بنائی گئی ہرچیز جس کا فائدہ ہے اسی کا
نقصان بھی انسان کو اٹھانا پڑتا ہے کچھ لوگ دوپل کی مشہوری کیلئے اتنا کچھ
بول جاتے ہیں کہ انکو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ دائرہ اسلام سے کب خارج
ہوگئے جاہل لوگوں نے دین کا حلیہ بگاڑنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کوئی نواز
شریف کو کافرکہہ رہا ہوتا ہے تو کوئی عمران خانپراپنے فتوے جھاڑ رہا ہوتا
ہے فیسبکی دانشور بیک وقت عالم دین،سائنسدان،ماہرفلکیات،قاضی جج بن کرفیصلے
صادرکرتے ہیں میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں جنہو ں نے سوشل میڈیا پر دھوم
مچارکھی ہے وہ دین اسلام کے بارے میں کتنا جانتے ہیں،ماہرفلکیات کی کتنی
جان کاری ہے عقل کے اندھوں نے دین اسلام کا تماشا بنا رکھا ہے اور اپنی
مرضی کے ایسے جواز پیش کررہے ہیں جیسے یہود ونصاریٰ نے قرآن مجیدسے پہلے
والی آسمانوں کی تحریف کرکے اصل کلام کا حشرنشرکیا یہ کلام یہاں تک نہیں
رکا بلکہ اگرکوئی کسی سیاستدان کے ساتھ تصاویرشیئرکرے تو اسے اسی کا بیٹا
بنا دیتے ہیں یا پھر کوئی ایسی پوسٹ کرتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ اگراس
پرعمل نہ کیا تو اتنے سال جہنم میں رہو گے اگرکرلیاتو جنت کا ٹکٹ واجب ہے
ارے بھئی اگرسوشل میڈیا نے ہی جنت کا ٹکٹ دینا تھا تو رب پاک نے کم وبیش
ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اورکتابیں کیوں نازل کیں جن کو پارلیمنٹ میں بیٹھے
سیاستدانوں کی طرح سورۃ اخلاص بھی صحیح طرح سے پڑھنا نہیں آتی وہ بھی لوگوں
پر فتوے لگارہے ہوتے ہیں خدارابس کریں ابھی بھی وقت ہے توبہ کرلیں کیونکہ
اﷲ پاک کے ہاں توبہ کے دروازے ہروقت کھلے ہوئے ہیں اﷲ تعالیٗ تو چاہتا ہے
کہ میرا بندا آئے اور مجھ سے معافی مانگے تو میں اسے معاف کروں اور جنت کا
حق دار بنا دوں عام زندگی میں ہمیں جھوٹ اور ٹھٹھہ مذاق سے روک گیا ہے
مگرآج کے سوشل میڈیا کے مفتی لوگوں نے دین اسلام کومذاق بناکررکھ دیا ہے
مگرجس کا جتنا ظرف وہ اتنا ہی خاموش ہے علم رکھنے والا جانتا ہے کہہ جہنم
میں لے جانی والی یہی زبا ن ہے اور جو اﷲ کے زیادہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اتنا
ہی خاموش ہوتا جاتا ہے کم ظرف اور علم نہ رکھنے والے شورشرابازیادہ کرتے
ہیں کیونکہ وہ احسا س کمتری کا شکار ہوتے ہیں مگرسمجھتے خودکو مفکرہیں ۔زیادہ
علمی روب جھاڑنے کیلئے پھربے تکی ہی چھوڑتے ہیں ۔آج کل سیاسی جماعتیں ہوں
یا مذہبی جماعتیں سب کے سوشل میڈیا سیل بنے ہوئے ہیں سوشل میڈیاپرہروقت
نگاہ ہے تو پھرکیسے ممکن ہے کہ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپگینڈا سے مذہبی
جماعتیں لاعلم ہوں اپنے مفادات کی بات آئے تو ملا،قاضی اور سیاستدان سب
سڑکوں پرنکل آتے ہیں مگرجب اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی بات آتی ہے تو سب کو چپ
کیوں لگ جاتی ہے آج بچے بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور بچوں کا ذہن
بالکل کوراکاغذ ہوتا ہے اور وہ وہی کرتے ہیں جو بڑے کرتے ہیں جب وہ دیکھیں
گے ہمارے بڑے سوشل میڈیا پر اس ماہ مقدس کا مذاق اڑا رہے ہیں تویقیناً وہ
بھی ویسا ہیں کریں گے اور آپ سوچئے ہماری آنے والی نسلیں کہاں کھڑی ہوں گی
سوشل میڈیا کی حدود وقیود مقرر کرنا بہت ضروی ہوچکی ہے آخرمیں میں ہاتھ جوڑ
کے سوشل میڈیاکے مفتیوں سے گزارش کروں گا کہ اپنے لیے نہ سہی آنے والی
نسلوں کی حفاظت کیلئے اچھے اچھے پیغام بھیجا کریں۔آج کل کی نوجوان نسل اسی
سوشل میڈیا کی وجہ سے ذہنی صحت کے بحران میں مبتلا ہے بین الااقوامی
INDEPENDENT جریدے کے مطابق موجودہ 25سالوں کے دوران نوجوانوں میں
پریشانیوں میں 70فیصداضافہ ہوا ہے سوشل سیکورٹی کمپنی MACAFEEکے مطابق سوشل
نیٹ ورکنگ کی ویب سائیٹ پر 80فیصد نوجوانوں کو ہراساں کیے جانے والے واقعات
کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ کچھ پیغام اور تصاویرآپ سینڈ کی جاتی ہیں
جنہیں آپ حذف بھی نہیں کرسکتے اور یہ بھی پتا نہیں لگا سکتے کہ کس نے بھیجی
ہیں اسی وجہ سے ہروقت آپ کواذیت ملتی رہتی ہے جس وجہ سے نوجوانوں میں ذہنی
دباؤ کا عمل بھی بڑھا ہے اس سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم اپنے دوستوں رشتہ
داروں سے بہت دور ہوگئے ہیں حالانکہ اب تو رواج بن چکا ہے اپنے ابوجان کو
سوشل میڈیا پر سالگرہ کی مبارک دینا بہن بھائیوں دوستوں کو سالگرہ اور شادی
کی سالگرہ کی مبارک بھی سوشل میڈیا پردیناUNIVERSTY OF PEAR BURGکی تحقیق
کے مطابق اگرکوئی شخص دن میں 2گھنٹے بھی سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے تو وہ
اس سے دوگنا خود سماجی حلقوں میں محسوس کرتا ہے سوشل میڈیا کی وجہ سے
نوجوان آج کل آپس میں کم ہی ملتے ہیں اس سے وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنا
تعلق زیادہ مضبوط سمجھتے ہیں آج ہم صبح اٹھنے سے پہلے جب تک سوشل میڈیا
استعمال نہ کرلیں تو RELEX محسوس نہیں کرتے اور سونے سے قبل بھی ہم سوشل
میڈیا پرGOOD NIGHTکا سٹیٹس لگانا نہیں بھولتے سوشل میڈیا اب ہماری ضرورت
کی چیز نہیں بلکہ نشہ بن گئی ہے ہم اکیلے بیٹھے ہیں یا محفل میں ہم نے سوشل
میڈیا استعمال کرنا ہے چاہے لوگوں کے دل میں جو آئے لوگ جوسوچیں ہمیں اس سے
کوئی پرواہ نہیں حالانکہ اس عادت کی وجہ سے ہم اپنے معاشرے میں اپنا مقام
کھورہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نامناسب مواد کی طرف جارہے ہیں جس
کی وجہ سے ہماری آنے والی نسلیں دوزخ کی طرف رخ کررہی ہیں آغا خان
یونیورسٹی کی ڈاکٹرعائشہ میاں کے مطابق پاکستان میں 50ملین افراد ذہنی
خرابی سے متاثرہوچکے ہیں پاکستان میں حکومت کی جانب سے سالانہ اخراجات کی
مد میں 2.4فیصدصحت کے شعبہ پرخرچ کیا جاتا ہے اوراس کا بھی 2فیصددماغی
امراض کے شعبے پرخرچ کیا جاتا ہے اسی لیے اگروالدین نے اپنے بچوں پرکنٹرول
نہ کیا تو بچے نہ اس دنیا کے رہیں گے اور نہ ہی آخرت کے۔میں سوشل میڈیا
انتظامیہ سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ خدارا آپ نے بھی مرنا ہے آپ کا بھی آخرت
میں حساب کتا ب ہوگا تو جو ایسا مواد آئے جو گناہ جاریہ ہواسے فوراًختم کیا
جائے تاکہ گناہ کوشروع ہونے سے پہلے روکا جائے۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصرہو
|