خاموشیاں آواز دیتی ہیں
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
خاموشیاں آواز دیتی ہیں --------------------------------------- انسانی سماج میں اظہار کی کئی صورتیں ہیں ۔ زبان، علامت، تحریر، یا صرف نگاہ۔ مگر ان سب کے درمیان ایک ایسی زبان بھی موجود ہے جو بظاہر غیر مرئی ہے، مگر معنوی سطح پر سب سے گہری ہے "خاموشی" یہ عدمِ کلام نہیں بلکہ وہ “غیر زبانی بیان” ہے جو کبھی احتجاج، کبھی خوف، کبھی محبت اور کبھی شعورِ ذات کی علامت بنتی ہے۔ سماجی علوم میں خاموشی کو “معنی خیز سکوت” کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ زبان سے زیادہ سماج کے اندرونی تناؤ، طاقت کے ڈھانچوں اور انسانی رشتوں کے تضادات کو ظاہر کرتی ہے۔ میشل فوکو (Michel Foucault) کے مطابق طاقت صرف بولنے یا حکم دینے میں نہیں بلکہ خاموش رکھنے کے نظام میں بھی کارفرما ہوتی ہے۔ سماج جب کسی طبقے یا فرد کو بولنے کا حق نہیں دیتا تو اس کی خاموشی دراصل جبر کی علامت بن جاتی ہے۔ مثلاً پاکستانی معاشروں میں خواتین یا اقلیتوں کی خاموشی اکثر اس خوف کی غماز ہوتی ہے جو انہیں سماجی یا مذہبی ردِعمل سے لاحق ہوتا ہے۔ یہ وہ “Discursive Silence” ہے جو زبان کے اندر موجود طاقت کے ڈھانچے کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح پیئر بوردیو (Pierre Bourdieu) کا نظریہ علامتی تشدد بتاتا ہے کہ سماجی ادارے (مثلاً اسکول، گھر، مذہب) کس طرح بظاہر اخلاقی اصولوں کے ذریعے لوگوں کو خاموش رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ خاموشی بظاہر تہذیبی نظم کا حصہ ہے، مگر دراصل یہ طاقت کے غیر مرئی جال کا استحکام ہے۔ فریڈرک نطشے(Friedrich Nietzsche) کے نزدیک خاموشی انسان کی “اندرونی قوتِ ارادہ” کی علامت بن سکتی ہے۔ نطشے کا کہنا ہے کہ بعض اوقات بولنے سے زیادہ طاقتور عمل چپ رہنا ہوتا ہے ،کیونکہ خاموشی وہ مقام ہے جہاں انسان خود سے مکالمہ کرتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب فرد سماج کے شور سے ہٹ کر اپنی انفرادیت کو دریافت کرتا ہے۔ لڈوِگ وٹگنسٹائن (Ludwig Wittgenstein) کا کہنا ہے “Whereof one cannot speak, thereof one must be silent.” یعنی "جس کے بارے میں زبان کچھ نہیں کہہ سکتی، وہاں خاموشی ہی فلسفہ ہے۔" یہ قول ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ خاموشی محض لاعلمی نہیں بلکہ “معرفت کا آخری درجہ” بھی ہے، جہاں الفاظ کی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔ کارل یونگ (Carl Jung) نے خاموشی کو لاشعور کی ایک علامتی زبان قرار دیا۔ ان کے مطابق “جب شعور خاموش ہوتا ہے تو لاشعور بولنے لگتا ہے۔” یہ وہ کیفیت ہے جہاں انسان کے دبے ہوئے جذبات، خوف یا تکلیف خاموش رویوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی نظریے کو ایرک فرام (Erich Fromm) نے “خاموش تنہائی” کا نام دیا — یعنی وہ حالت جب انسان اپنے سماجی تعلقات کے باوجود اندر سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ہربرٹ مارکوس (Herbert Marcuse) کے مطابق جدید سرمایہ دارانہ معاشرہ افراد کو اس قدر مصروف اور مطمئن بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے جبر کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ “رضاکارانہ خاموشی” سماج کو ظاہری امن تو دیتی ہے مگر اندر سے ذہنی غلامی پیدا کرتی ہے۔ یہی رویہ آج کی صارفیت زدہ دنیا میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں لوگ ناانصافی پر بولنے کے بجائے “سوشل میڈیا خاموشی” اختیار کرتے ہیں۔ لہذا صحت مند سماج وہ ہے جہاں مکالمہ ممکن ہو۔ جب مکالمہ رک جاتا ہے، تو خاموشی غیر جمہوری رویے کو جنم دیتی ہے۔ سماجی اداروں میں جب سوال اٹھانے پر قدغن لگتی ہے، تو وہی خاموشی جمود اور زوال کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ سیمون دی بوواغ (Simone de Beauvoir) نے خواتین کی خاموشی کو “Patriarchal Silence” کہا ہے — یعنی ایسا سکوت جو مردانہ سماج نے عورت پر مسلط کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق “عورت کی خاموشی دراصل ایک اجتماعی تربیت کا نتیجہ ہے جس نے اسے بولنے سے پہلے ہی سننے کا پابند بنا دیا۔” یہ نکتہ جنوبی ایشیائی معاشروں پر پوری طرح صادق آتا ہے جہاں عورت کی خاموشی کو وقار کہا جاتا ہے، مگر حقیقت میں وہ ایک سماجی دباؤ کی علامت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایڈورڈ سعید (Edward Said) نے نوآبادیاتی خاموشی پر روشنی ڈالی کہ کس طرح مغربی سامراج نے مشرقی اقوام کی آواز دبا کر انہیں “خاموش رعایا” بنا دیا۔ ان کی خاموشی دراصل ثقافتی مزاحمت تھی، جس نے بعد میں آزادی کی تحریکوں کو جنم دیا۔ اسلامی روایت میں بھی خاموشی کو حکمت اور وقار کا درجہ دیا گیا ہے۔مولا علیؓ کا قول ہے: “اگر کلام چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔” یہ خاموشی دانش اور حلم کی علامت ہے، مگر قرآن کے مطابق ظلم پر خاموشی ممنوع ہے۔ یوں اسلامی نقطۂ نظر میں خاموشی کا اخلاقی معیار اس کے محرک پر منحصر ہے ۔ اگر یہ علم، صبر یا حلم کے لیے ہو تو باعثِ فضیلت ہے، لیکن اگر یہ ظلم، جبر یا ناانصافی کے تحفظ کے لیے ہو تو گناہ بن جاتی ہے۔ خاموشی بظاہر سکون ہے مگر درحقیقت ایک پیچیدہ سماجی، نفسیاتی اور فکری مظہر ہے۔ یہ کہیں احتجاج بنتی ہے، کہیں وقار، کہیں کمزوری، اور کہیں طاقت۔ یہ زبان سے زیادہ سچی اور گہری ہوتی ہے کیونکہ یہ ان تجربات کو بیان کرتی ہے جنہیں الفاظ چھو نہیں سکتے۔ لہٰذا سماجی اصلاح کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم خاموشیوں کو سننا سیکھیں، کیونکہ اکثر وہی خاموشیاں معاشرتی بیداری کی بنیاد بنتیں ہیں۔ |
|