یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے نعمت کی ہمیت کا احساس اس وقت
ہوتا ہے جب وہ چہن باتی ہے ۔ وقت ایسی ہی نعمت ہے جس کو ہمارے معاشرے میں
بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ہے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادہیڑ عمر
لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بہی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ
اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رہی ہے ۔ مجہے دنیا کے کے
کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ہے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بہی
دیکہنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ہوئی ہے جن کی ساری
عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکہیں
بند ہونے کا وقت ہو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے
ممتازہو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور ہمیت
کو جانا اور مثبت استعمال کیا انہوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا
لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بہی ہماری
آنکہوں کے سامنے ہی بے قدری کی ٹہوکروں پر ہیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ہے کہ
روز اول سے ہی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رہے اور بے قدرے معدوم ہوئے ۔ اللہ
تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کہا کر اس کی ہمیت کو اجاگر کیا ہے لیکن
مسلمان ہی اس کی بے قدری کے مرتکب ہوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز
دکہائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ہوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں
کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ہم سنبہل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی
طرح عیاں ہے کہ اگرہم نے وقت سے کچہ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ہمیں
کامیابی ہی حاصل ہوئی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رہی ہے کہ
ہمیں احساس زیاں ہو رہا ہے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ہوگیا ہے ۔
اس وقت ہم یہ ادراک حاصل کر چکے ہیں کہ ہم انفرادی مثبت فیصلوں سے ہی
اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ہمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال
کا انفرادی فیصلہ کرنا ہے بلکہ یہ ذمہ داری بہی پورا کرنا ہے کہ وقت کے
مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بہی پیدا کریں جن کی بہتری
ہمیں خوشی عطا کرتی ہے ۔
|