وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ دو ہفتوں میں ملکی سیاست اور
عوام کے لیئے چند اہم تبدیلیاں اور خوشیاں ساتھ ساتھ آئیں جن میں سے پہلی
تبدیلی جنرل الیکشن کے کامیاب انعقاد کے بعد نئی حکومت کے قائم ہونے سے ہے
الیکشنوں کے انعقاد کے بارے تقریباََ ایک سال سے مختلف قیاس آرائیاں جاری
تھیں الیکشن کے نتائج پر جیتنے والی جماعت کے علاوہ سب پارٹیوں کی جانب سے
تحفظات کا اظہاراور محدود حد تک احتجاج بھی جاری ہے الیکشن کی گہماگہمی اور
نتائج کے بعد یوم آزادی کے حوالہ سے تقریبات کا سلسلہ جاری رہا اَب کی بار
یوم آزادی کے موقع پر شجر کاری مہم بھی عروج پر رہی ضلع بھر میں راقم کو
بہت سی تقریبات میں بطور مہمان شرکت کا موقع ملا ایک تقریب کا ذکر سانچ کے
قارئین کے لیئے ضروری سمجھتا ہوں ،سر سبزو شاداب پاکستان کیلئے پاک فوج
اورضلعی انتظامیہ نے ملکرشجر کاری مہم کا آغاز کیا اس سلسلہ میں ملٹری
فارمز ہیڈکوارٹر زگو رنمنٹ ہائی سکول فار بوائز میں سر سبز و شاداب پاکستان
شجرکاری مہم کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی بریگیڈئیر رفعت
اﷲ کمانڈر 325 بر یگیڈ اورمہمان اعزاز ڈپٹی کمشنر رضوان نذیر تھے اس موقع
پر مہمانان گرامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت ماحولیاتی
آلودگی کا شکار ہے ،پانی کی کمی اور جنگلات کی قلت کی وجہ سے وطن عزیز میں
مستقبل میں شدید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جنگلات اور پانی کی کمی کو پورا
کرنے اور ماحول کو انسان دوست بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی اپنے
اپنے حصے کا پودالگائے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اُٹھائے سر سبز و
شاداب شجر کاری مہم میں طالب علموں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کا
کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے ہمارا فرض ہے کہ آنے والی نسل کو سرسبز
پاکستان دینے کے لیئے نا صرف خود پودے لگائیں بلکہ دوسرے طبقات کو بھی اس
مہم کا حصہ بنائیں بریگیڈئیر رفعت اﷲ کمانڈر 325 بر یگیڈ نے کہا کہ یہ
تقریب سر سبز و شاداب پاکستان شجرکاری مہم کی ان تقاریب کا تسلسل ہے جو پاک
آرمی اور سویلین اداروں کے باہمی اشتراک سے منعقد کی جا رہی ہے دین اسلام
میں درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے نبی کریم ْﷺ نے فتح مکہ کے
موقع پر دیگر احکامات کے ساتھ ساتھ سر سبز درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا
جن سے اِن کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے بریگیڈئیر رفعت اﷲ نے کہا کہ
سر سبز و شاداب شجر کاری مہم میں پاک فوج ایک کروڑ پودے لگائے گی جس میں سے
20لاکھ پودے رواں مون سون سیزن میں لگائے جائیں گے ،ڈپٹی کمشنر رضوان نذیر
نے کہا کہ ضلع بھر میں چار لاکھ پچیس ہزار پودے لگائے جارہے ہیں اس موقع پر
سی ای او ایجوکیشن رانا سہیل اظہر سینئر ہیڈماسٹر اندر یا س بھٹی،ڈپٹی
ڈائریکٹر انفارمیشن خورشید جیلانی ،سینئرکیمرہ مین طارق مجید مغل،نوجوان
صحافی چودھری عرفان اعجاز سمیت ضلعی انتظامیہ پاک فوج کے متعلقہ افسران
اساتذہ کرام اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی بعد ازاں بریگیڈئیر رفعت اﷲ
اور ڈپٹی کمشنر رضوان نذیر نے ایرو کیریا کے پودے لگا کر مہم کا آغاز کیا
اس موقع پر سر سبز و شاداب شجر کاری مہم کی کامیابی اور وطن عزیز کی ترقی و
خوشحالی کے لئے خصوصی دعا بھی کی گئی،اسلامی تہوار کے حوالہ سے ذکر کروں تو
عید الاضحی دس ذوالحج ،22اگست کو پاکستان بھر میں منائی جارہی ہے عید
الاضحی کو بڑی عید بھی کہا جاتا ہے یہ عید اﷲ تعالی کے بر گزیدہ پیغمبر
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی سے
منسلک ہے عید الاضحی کا بنیادی فلسفہ قربانی،ایثار، خلوص کے ساتھ اپنی عزیز
ترین چیزاﷲ کی راہ میں قربان کر دینا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت
اسماعیل علیہ السلام نے اطاعت خداوندی میں قربانی دی جسکے پس پشت ذاتی مفاد
یا خواہش شامل نہ تھی اور نہ ہی حضرت اسماعیل علیہ السلام کسی نمود و نمائش
کے لئے خود کو قربان کررہے تھے بلکہ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف اﷲ تعالی
کی خوشنودی کا حصول تھا ،قربانی کا اصل مقصد جانوروں کی قربانی ہی نہیں
بلکہ ساتھ ساتھ اپنے ذاتی مفادات خواہشات، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی
بھی ضروری ہے ہماراایمان ہے کہ اﷲ کے حضور جانور کا گوشت اور خون نہیں
پہنچتا بلکہ ہماری نیت ایثار اور جذبہ پہنچتا ہے دین اسلام میں قربانی کی
فضیلت و عظمت واضح طور پربیان کی گئی ہے اور قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب
ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص استطاعت رکھنے (صاحبِ نصاب ہونے) کے
باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ نہ آئے‘‘۔آپ ﷺنے فرمایا کہ
قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا
ہے لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو (ترمذی، ابن ماجہ)۔وطن عزیز
پاکستان میں اسلامی تہواروں پر مصنوعی مہنگائی کا پیدا ہونا معمولی بات
سمجھی جاتی ہے خاص طور پر عیدین کے مواقعوں پر اپنے مسلمان بھائیوں کو
قربانی جیسے اہم دینی فریضہ سے دور رکھنے میں چند ہزار کے جانور کو لاکھوں
میں فروخت کرنے کے لیے لایا جاتا ہے اور فروخت کنندہ یہ دلیل دیتا ہے کہ اﷲ
کی راہ میں قربان کرتے ہوئے مال کو نہیں دیکھا جاتا یہ بات بجا سہی لیکن
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھائیوں کو مصنوعی مہنگائی پیدا کر
کے لوٹنا کہا ں لکھا ہے اور دوسری طرف لاکھوں روپے خرچ کرنے والے بھی میدان
میں آجاتے ہیں جو عید قربان کے موقع پر لاکھوں کے جانور خرید کر میڈیا اور
اہل علاقہ کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں کیا یہ حکومت وقت کا فرض نہیں کہ
اسلامی جمہوری مملکت جو کہ نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی وہاں اسلامی
تہواروں پر مہنگائی خاص طور پر مصنوعی مہنگائی کو روکنے کے لیئے مناسب
اقدامات کرے گزشتہ اکہتر سالوں میں تو ایسا ممکن نہیں ہو سکا اور شاید
آئندہ بھی نہ ہوسکے کیونکہ حکومتوں خاص طور پر سرمایہ دار اور جاگیردار
منتخب عوامی نمائندوں کو اسلامی تہواروں پر مہنگائی کم کرنے کے قدامات سے
کم ہی لگاؤ رہا ہے دنیا کے دیگر ممالک میں اُنکے مذہبی تہواروں پر خصوصی
رعایت اور حکومت کی جانب سے اقدامات کیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں افسوس
اپنے ہی بھائیوں کو دینی فریضہ کی ادائیگی میں مصنوعی مہنگائی پیدا کر کے
مسائل پیدا کیے جاتے ہیں اور دولت مند طبقہ دیکھاوے اور نمائش کی تما م
حدیں پار کرتے ہوئے آج کل میڈیا پر قربانی کے جانوروں کی قیمتوں اور خرید
کو نمایاں طور پر بیان کرتے نظر آتے ہیں اور بعض جگہوں پر تو قربانی کے
جانوروں کی خواتین ماڈلز کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو بنائی جارہی ہیں ٭٭٭ |