تحریک آزادی میں امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کا کردار (حصہ دوم )

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پرانگریزی سامراج اہل ہند کے بارے میں نوآبادیات جیسے اعلانات سے عملا ً انکاری ہوئی تو شدید عوامی ردعمل نے جدوجہد آزادی مذہبی و گروہی تفریق سے بالا تر ہوتے ہوئے نئے عزم سے شروع ہوئی ،نتیجتا ً امرتسر میں مارشل لاء اور جلیانوالہ باغ جیسے سفاکانہ واقعات رونما ہوئے ،جب کہ برطانیہ نے ترکی سے بھی عہد شکنی کی تھی ،جس پرمسلمانان ہند نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اسی مناسبت سے دسمبر 1919میں خلافت کانفرنس گول باغ امرتسر میں مولانا شوکت علی کی زیر صدارت منعقد ہوئی ،جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خطابت کے جوہر دیکھائے ،اور ہر عام و خاص کو اپنا گرویدہ بنالیا ۔اسی طرح 1920 میں تحریک ترک موالات شروع کی گئی تو 1921 کو کلکتہ کانگریس کے سیشن فروری کے اجلاس میں بھرپور انداز میں ترک موالات کی تائید کرکے اسے کامیاب بنانے میں شاہ جی رحمہ اللہ نے کلیدی کردار ادا کیا ،یہاں تک کہ بچوں نے سکول ،نوجوانوں نے کالج اور وکلاء نے عدالتوں میں حصہ لینا چھوڑ دیا ،ولائیتی مال کے بائیکاٹ کی تحریک زور پکڑنے لگ گئی۔یہی موقع تھا جب حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی شہرت امرتسر کے حدود اربعہ سے نکل کر پورے ہند میں پھیل گئی ،خلافت کمیٹی اور تحریک ترک موالات کو کامیاب بنانے اور آپ کی مقبولیت سے خائف ہوکر اور اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دباتے انگریز نے شاہ جی کو باغی قرار دے کر دن رات آپ کی نگرانی شروع کر دی ، بالآخر27 مارچ 1921 ء کو رات کے آخری پہر میں کوچہ موہر کنداں کرمو ں ڈیوڑھی امرتسر سے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد کو دفعہ 124ایف کے تحت گرفتار کرلیا گیا ،طلوع آفتاب کے ساتھ ہی یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی ،سارا شہر سراپا احتجاج تھا، جب کہ احتجاج کا یہ سلسلہ دوسرے شہروں تک پھیلتے ہوئے انگریز سرکار کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن رہا تھا ،حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی تحریکی زندگی میں یہ پہلی گرفتاری تھی ،آپ کو 2 اپریل مسٹر الف اے کانر ایڈیشنل ڈسٹرک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں آپ نے ان الفاظ میں اپنا موقف پیش کیا ،"میں ترک موالات کا حامی ہوں،قرآن میری صفائی ہے ،قرآن میرا گواہ ہے،قرآن ہی میرا مذہب ہے اور قرآن ہی میرا دین ہے ،اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں "۔چنانچہ 8 اپریل 1921 ءکو جج نے تین سال قید بامشقت جن میں تین ماہ قید تنہائی بھی شامل ہے کی سزا سنا کر آپ کو لاہور سنٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا،چنانچہ 11 اپریل کو انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے اپنے محبوب قائد ،برطانوی سامراج کے اہم مجرم ،آزادی ءوطن کے نڈر سپاہی ،قرآن کے داعی اور تحریک آزادی کے سرخیل کو ریلوے اسٹیشن پر الوداع کہا ۔(حیات امیر شریعت )اسی اسیری کے دوران شاہ جی رحمہ اللہ کو میانوالی جیل میں منتقل کیا گیا جہاں مشاہیر تحریک آزادی کے ساتھ زندگی کے ناقابل فراموش لمحات گزارے،جب آپ 21 اکتوبر 1924کو میانوالی جیل سے رہا ہوئے تو برصغیر کا منظر نامہ تبدیل تھا ،طاغوتی سازشوں کی بدولت شدھی اور سنگنھ کی تحاریک نے ہندو مسلم فسادات کو جنم دے دیا تھا ،اور 5فروری 1923کو گاندھی جی نے تحریک ترک موالات کو ختم کرکے انگریزی تسلط کو قوت فراہم کی تھی جب کہ تحریک خلافت 21 نومبر 1922ء کو برطانیہ اور ترکیہ کے درمیان معاہدہ طے پانے کی وجہ سے ختم ہو چکی تھی۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ شدھی جیسی تحاریک نے غیر ملکی تسلط کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ،اوراس حقیقت سے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ بخوبی واقف تھے ،آپ نے کھلم کھلا ان فرقہ وارانہ فسادات کو انگریز ی اقتدار کی سازش قرار دیتے ہوئے اہل ہند میں شعور وآگہی کی بیداری کا سلسلہ شروع کیا اور آپ نے مسلم بیزار تحاریک کے مقابلے میں جرات مندانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کا بھی خوب دفاع کیا ،اس موقع پر مسلم اخبار "زمیندار " نے آپ کا بہت زیادہ ساتھ دیا تھا،اس کی پاداش میں جنوری 1925 کو حضرت امیر شریعت کو دفعہ 108 کے تحت گرفتار کرکے چھ ماہ قید یا پانچ سو روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ،اہل محلہ نے جرمانہ کی رقم ادا کرکے آپ کی رہائی ممکن بنائی ،جرمانہ ادا کرنے پر شاہ صاحب اہل محلہ سے ناراض ہوئے کہ آپ نے پاک کمائی فرنگی خزانہ میں کیوں دی۔اس میں دو رائے نہیں کہ اگر شاہ جی کی تقاریر اور مولانا ظفر علی خان کی تحاریر نہ ہوتیں تو من حیث القوم مسلمان خسارہ میں ہوتے ۔

شاہ جی تحریکی زندگی کا اہم باب شاردا ایکٹ کو ناکام بنانا ہے ،جس کی رو سے اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی اور اکیس سال سے کم عمر لڑکےکی شادی قانوناً جرم قرار دیا گیا تھا ،اس بل کو دہلی سنٹرل اسمبلی میں رکن اسمبلی ہربلاس شاردا نے 23 ستمبر 1929 ء کو پیش کیا ،اسمبلی نے 28 ستمبر کو پاس کرکے یکم اپریل 1930 سے نافذ العمل قرار دے دیا تھا ،اس کے ردعمل میں جمیعت علماء ہند نے ملک گیر تحریک شروع کی اور اسے دین میں مداخلت قرار دیا ،آپ کو پنجاب اور سرحد کے اضلاع کی طرف روانہ کیا ،آپ نے ہزاروں 18سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح پڑھاکر عوام کو ترغیب دی کہ وہ اس قانون کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیں ،اورآپ ہی کی شب وروز کی جدوجہد کے بعد بھرپور عوامی حمایت سے شارداایکٹ کو ناکام بنادیا گیا۔

دوسری جانب نہرو رپورٹ اورکانگریس کی مسلسل جانبداری اور مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے مسلم قائدین نے الگ تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا ،چنانچہ 1929 ء میں چودھری افضل حق کی زیر صدارت مسلم قائدین نے آل انڈیا کانگریس کے پنڈال میں مجلس احرار کی بنیاد رکھی ،اور آپ کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا،مجلس احرار نے آزادی ہند کے لیے کانگریس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ،13 مارچ 1930 کو گاندھی جی نے ضلع گجرات (کاٹھیاوار)سے سول نافرمانی کا اعلان کیا تو انگریز سرکار نے ان کو گرفتار کرلیا ،جس سے سارے ہند میں نمک سیتہ گر کی تحریک پھیل گئی ،شاہ جی نے پنجاب میں سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے امروہہ،الہ آباد ،آگرہ ،بمبئی اور بنگال کے بھرپور انداز میں دورے کئے ،اسی دوران آپ پر دوقاتلانہ حملے بھی کئے گئے تھے،بالآخر ایک بار پھر آپ کو 30 اگست 1930 کو دیناج پور (بنگال )سے انگریز سامراج نے آپ کو گرفتار کرکے چھ ماہ قید بامشقت سنا کر ڈم ڈم جیل بھیج دیا ، رستم زمان غلام حسین عرف گاما پہلوان نون والے کو آپ کی اسارت کی اطلاع ملی تو اس نے جیل میں آکر ملاقات کی تھی ،جنوری 1931 میں "گاندھی اردن پیکٹ "کے تحت نمک ستیہ گر تحریک ختم کردی گئی اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا جس میں آپ کو بھی رہائی ملی اور آپ نے نئے عزم کے ساتھ مجلس احرار کی تنظیم نو کرنی شروع کی۔(حیات امیرشریعت سے ماخوذ)

1936 ء کے عام انتخابات میں مجلس احرار نے بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ڈسکہ سے چودھری سرظفراللہ خان مرزائی کےبھائی چودھری اسداللہ جے مقابلہ میں چودھری غلام رسول ستراہ کو ٹکٹ دیا ،اورشاہ جی نے پوری قوت کے ساتھ مہم چلائی نتیجتاًمجلس احرار کے نمائندے اور ختم نبوت کے رکھوالے کو عظیم فتح حاصل ہوئی۔امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ اورمولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ نے انگریز ی فوج میں بھرتی کے خلاف عوام کو ابھارنے کے لیے ضلع میانوالی کاایسا دورہ کیا جس کی وجہ سے یونینسٹ حکومت اور وزیر اعلیٰ سرسکندر کو سخت مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ،بالآخر ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت 8 دسمبر 1939ءکو ضلع مظفر گڑھ سے زیردفعہ 121،302،124الف اور 153بحکم سیشن جج راولپنڈی گرفتار کرکے لالہ موسیٰ اور گجرات سمیت مزید کئی مقدمات درج کردیئے گے،جن کی تفصیلی سماعتیں مختلف لاہور اورراولپنڈی کی عدالتوں میں ہونے کے بعد 7 جون 1940 کو سیشن جج لاہور مسٹر ڈی فالشا نے باعزت طور پر بری کردیا ،اس خبر کو برلن ریڈیو نے الفاظ کے ساتھ نشر کیا کہ "ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے سب سے بڑے باغی مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو صوبے کی سب سے بڑی عدالت نے بری کردیا "۔نیز شعبہ نشرو اشاعت جرمنی نے امیر شریعت کی تصاویر کو ہوائی جہاز کے ذریعے ملک بھر میں تقسیم کیا۔رہائی کے بعد بھی امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نےانگریزی فوج میں بھرتی ہونے خلاف مہم کو جاری رکھا جب کہ یہ زمانہ جنگ عظیم دوم کا تھا ،آپ کی کوششوں اور تدبیروں سے سینکڑوں نوجوانوں نے انگریزی فوج کو خیر آباد کہا یا انہیں سرکار نے خود ہی نکال دیا ۔

مئی 1943 کو ال انڈیا مجلس احرار ورکنگ کمیٹی نے سہارن پور اجلاس میں حکومت الہیہ کی قرارداد منظور کی ،اور اس نعرہ کو اپنا شعار بنایا "خلقت خدا کی ،حکم بھی خدا کا " ان الحکم الا للہ۔اس قرارداد کے پاس ہونے کی وجہ سے حضرت امیرشریعت رحمہ اللہ کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کا باعث بنی ،آپ نے پورے ہند میں بھرپور انداز میں اپنے موقف کو پیش کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جدوجہد کی ،تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو مسلمانوں میں مقبولیت حاصل ہو چکی تھی ،شاہ جی کی نگاہ وبصیرت نے بخوبی جان لیا تھا کہ ہند کی آزادی اور تقسیم مقدر ہوچکی ہے ،آپ نے متعدد بار مسلم لیگی قیادت بالخصوص قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ سے تقسیم اور قیام پاکستان سے متعلق اپنے تحفظات و خدشات کے ازالہ اور افہام وتفہیم کے لیے وقت مانگا مگر اس کی کوئی صورت نہ بنائی گئی ۔نیز 27 مارچ 1946 کو مجلس احرار ورکنگ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس لاہور میں امیر شریعت رحمہ اللہ نے قرارداد پیش کی "مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان سے مجلس عاملہ کسی صورت اتفاق نہیں کرسکتی ہے،ہم تقسیم ہند کے نظریہ کا تجزیہ محض اقتصادی اور معاشرتی اصولوں پر نہیں کرتے، پاکستان قبول کرنے کا مطلب ملت اسلامیہ ہندیہ کو تین مختلف حصوں میں منتشر کرنا ہوگا،پنجاب (کا نامکمل صوبہ ،سرحد ،سندھ اور بلوچستان ہندوستان کے دوسرے پر اور بالکل دوسرے سرے پر مشرقی بنگال اور آسام کے کچھ اضلاع کو پاکستان بنایا جارہا ہے ،ملت اسلامیہ ان دوحصوں میں بٹ کر نہیں رہے گی ،بلکہ اس سے ایک بڑے حصے پر ہندوستان میں دوامی غلامی مسلط رہے گی،ان دو پاکستانی ریاستوں میں مؤثر غیرمسلم اقلیت رہے گی ،نیز پاکستان کی دونوں ریاستیں جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کی کسی بیرونی حملے کی صورت میں امداد نہیں کرسکیں گی،اور ان دو ریاستوں کے درمیان ہندوؤں کو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت سونپ دی جائے گی،جس میں مسلم اقلیت کی پوزیشن حددرجہ غیر موثر رہے گی۔(حیات امیرشریعت )

پنجاب کی تقسیم پر مجلس احرار نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 19 مارچ 1947 ء کولاہور بریڈ لے ہال میں پنجاب سوشلسٹ پارٹی اور مجلس احرار کےمشترکہ اجلاس میں مسلم لیگ پر زور دیا کہ وہ پنجاب کی تقسیم کو کسی صورت قبول نہ کرے ورنہ مشرقی پاکستان کا مسلمان تباہ ہو جائے گا۔لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ تھا کانگریس نے پنجاب کے فسادات کی آڑ لے کر اعلان کیا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم ناگزیر ہے۔22 مارچ 1947 کو لارڈماونٹ بیٹن کووائسرائے ہند بنایا گیا تھا ،جس کی ذمہ داری تقسیم کے عمل کو مکمل کروانا تھا ،چنانچہ 3 جون کو 1947 کو تاریخی خطاب کیا ،جس کی رو سے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور ساتھ ہی پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر مہر ثبت کردی ،نتیجتاًسکھوں اور ہندووں نے وہاں کی مسلم اقلیت کا قتل عام شروع کرکے ظلم و ستم کی المناک داستانیں رقم کیں ۔قیام پاکستان کے بعد رونما ہونے والے دالخراش واقعات پر امیرشریعت سیدعطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نہایت رنجیدہ رہتے تھے ،آپ نے 24 دسمبر 1947کوصدر مجلس احرار ماسٹر تاج الدین انصاری کے نام خط میں پاکستان کے بارے میں اپنے زریں الفاظ تحریر کیے"تقسیم پنجاب کو کانگریس نے پیش کرکے مسلمانوں سے پاکستان کی بہت بڑی قیمت ادا کروائی اور کروا رہی ہے ،ابھی نہ جانے کب تک مسلمانوں کو سوددر سود ادا کرنا پڑے گی۔ہر مسلمان کو پاکستان کی فلاح و بہبود کی راہیں سوچنی چاہیں ،اور اس کے لیے عملی اقدامات اٹھانا چاہیں ۔مجلس احرار کو ہر نیک کام میں حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چایئے ،خلاف شرع کام سے اجتناب ۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 250013 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More