جلد بازی کا انجام

یہ کہانی کہیں پڑھی تو سبق کے عمدہ ہونے کی وجہ سے آپ سب کے لئے یہاں بیان کی جا رہی ہے،اگرچہ اس طرح کی کہانیوں سے کم ہی کچھ سیکھا جاتا ہے مگرکسی بہتری کے خیال سے اشاعت ضروری سمجھی گئی ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک چوہدری رہتا تھا۔ اس کے ساتھ حویلی میں ایک ملازم خاص (میراثی) بھی رہائش پذیر تھا۔ مالک اور نوکر ایک ایسی سست الوجود قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ٹھہرے ہوئے، پر سکون مزاج کی مالک تھی اور آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادی تھی۔

ایک دن چوہدری پکوڑے کھانے کے بعد اخبار سے بنے لفافے کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ اس نے خبر پڑھی کہ محکمہ زراعت نے جدید پیوند کاری کے ذریعے گندم کا ایسا بیج ایجاد کیا ہے جو دگنی فصل دیتا ہے۔ چوہدری نے ملازمین کو اکٹھا کر کے نئے بیج کے متعلق صلاح مشورہ شروع کیا۔ صلاح مشورے کی مختلف نشستیں جاری رہیں اورآخر ایک سال بعد گندم کا بیج مذکورہ بونے کا فیصلہ ہو گیا۔

فصل بونے کا موسم قریب آیا تو چوہدری نے ملازم خاص کو بیج لانے کے لیے شہر بھیجا۔ میراثی لاری پر طویل سفر طے کر کے شہر پہنچا تو تھکاوٹ سے چوُر تھا۔ وہ شہر میں اپنے ایک عزیز کے گھر گیا تاکہ چند دن آرام کر کے سفر کی تھکاوٹ دور کرے اور بیج خرید کر واپسی کا قصد کرے۔ میراثی کو شہر میں مختلف عزیزوں اور دوستوں کے ہاں آرام کرتے اور ’’بتیاں شتیاں‘‘ دیکھتے ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔

آخر جب دوبارہ فصل کاشت کرنے کا موسم آیا تو چوہدری کو میراثی کی یاد آئی۔ اس نے ایک اور نوکر کو شہر بھیجا تاکہ میراثی کو ڈھونڈ کر لائے۔ در اصل چوہدری کو روایت سے ہٹ کر فصل بونے کی جلدی پڑگئی تھی (جیسے کچھ لوگوں کوبجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی جلدی ہوتی ہے)۔

نوکر نے بڑی مشکل سے میراثی کو شہر میں تلاش کیا اور چوہدری کا پیغام پہنچایا۔ میراثی جب بیج کی بوری کمر پر اٹھائے گاؤں پہنچا تو بارش کے باعث ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔ وہ حویلی کے گیٹ سے داخل ہوا تو اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے بوری سمیت گر گیا۔ بوری پھٹ گئی اور سارا بیج کیچڑ میں بکھر گیا۔ چوہدری نے آگے بڑھ کر میراثی کو اٹھانا چاہا تو وہ کیچڑ میں لیٹے لیٹے ہاتھ کھڑا کر کے بولا ’’بس رہنے دیں چوہدری صاحب! آپ کی جلد بازیوں نے ہمیں ما رڈالا ہے‘‘۔ چوہدری پر گھڑوں پانی پڑ گیا اور اسے اپنی غیر حکیمانہ عجلت پر سخت ندامت ہوئی۔
 

YOU MAY ALSO LIKE: