تنویر کو آج اس کا پوتا زبردستی ٹی وی لاونج میں لے آیا ۔
وہ ٹی وی لاونج میں بیٹھا ہی تھا تو اس کی پوتی نے ٹی وی چلا لیا کیونکہ اس
کا پسندیدہ ٹی وی سیریل آرہا تھا ۔بے اختیار ہی تنویر کی نظر ٹی وی پر گئی
تو وہاں ایک لڑکی ڈوپٹے کے بغیر ، تنگ سلیولیس کپڑوں میں ایک پکی عمر کے
مرد سے عشق بگھارنے میں مصروف تھی ۔ دونوں کے بے باک جملوں پر جہاں تنویر
کو اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا، وہاں پر اس کے نوعمر پوتا اور
پوتی کا انہماک دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ تنویر نے اپنی پوتی علیشاہ کو
متوجہ کرنا چاہا تو وہ انتہائی بیزاری سے بولی:
بھگوان کے واسطے دادا ابو چپ کر جائیں ۔
اس نے بیزاری سے اپنے بھائی ہاشم کو مخاطب کرکے کہا:
فورا دادا ابو کو ان کے کمرے میں چھوڑ کر آو۔
تنویر کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ وہ کیسے گھسٹتا ہوا اپنے کمرے میں
پہنچا ، اس کو خبر نہیں ہوئی ۔اس کے پاوں من من کے ہوگئے تھے ۔ہانپتے
کانپتے وہ اپنے بستر پر ڈھیر ہوگیا ۔اس کی بند آنکھوں کے آگے یاد کا دریچہ
کھل گیا وہ دوبارہ سے آٹھ سال کا بچہ بن گیا تھا اس کی بند آنکھوں کے آگے
سرِخ اینٹوں سے بنی ہوئی خوبصورت حویلی آگئی ۔حویلی میں رنگ دار شیشے لگے
ہوئے تھے ۔لمبی لمبی راہداریوں کے دونوں جانب کمروں کی قطاریں تھیں ۔
مردانہ حویلی کی دوسری جانب تھا۔ بیچ میں حویلی کا وسیع وعریض دالان تھا جس
کا فرش سرخ اینٹوں سے چنا ہوا تھا بیچ میں بنی تین کیاریوں میں انار، جامن
، نیم کے درخت پرانے لگے ہوئے تھے ان بابے درختوں کے باعث ایک ٹھنڈک اور
سکون کا احساس تھا ۔ پرندے ان درختوں پر بیٹھے چہچہا رہے ہوتے۔دالان کے ایک
کونے میں اناج کی کوٹھڑی تھی۔ بے بے کا باورچی خانہ بھی کچی مٹی کا بنا ہوا
ہے ایک کونے میں تھا۔ ایک طرف دودھ بلونے کا انتظام تھااور گندم پیسنے کے
لئے ہاتھ کی چکی ایک طرف پڑی تھی۔ حویلی کے چاروں طرف وسیع وعریض باغ تھا۔
اس باغ میں نایاب پھولوں سے لے کر تمام سبزیاں اور پھلوں کے لدے ہوئے درخت
بھی موجود تھی ۔ ایک کونے میں بنے گیراج میں موٹر گاڑی بھی موجود تھی ۔
حویلی میں پچیس کے قریب نوکر تھے۔ مردانے میں بارہ کے قریب خادم ہوتے تھے۔
جب کہ زنانے میں تیرہ کے قریب نوکرانیاں بھاگتی پھرتی کام کرتی نظر آتیں ۔
تنویر کے کانوں میں بے بے کی آواز پڑی ۔
تنویر پتر! فجر کی نماز پڑھ لے۔
تنویر کا جسم کانپ اٹھا وہ بے اختیار چلایا:
بے بے ! بے بے ! تو کدھر ہے؟
نوکر تنویر کے کمرے میں اس کو سیدھا کرنے کی کوشش میں مصروف تھے ۔تنویر کا
اکلوتا بیٹا شاہ زیب بھاگا آیا اور باپ کو سنبھالنے لگا ۔
تنویر کی مٹھیاں بند تھیں وہ زور زور سے بے بے ،سکینہ، باوجی اور آکا بھیا
کو آوازیں مار رہا تھا ۔
نوکر ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کر رہے تھے ۔
"آج پھر بڑے صاحب کو سخت دورہ پڑا ہے۔"
آخر کا تنویر بے ہوش ہوگیا۔
شاہ زیب پیچھے مڑ کر غرایا:
اباجی کو آج کس نے ٹی وی چلا کر دیا۔
کمرے میں سکوت طاری تھا۔
یہ جاننے کے لئے کہ تنویر کی اس حالت کا ذمہ دار کون سی یاد ہے۔ پڑھئے اگلی
قسط ۔
(باقی آئندہ )۔
|