دور حاضر میں جب ہم زبانوں کی لفاظی پر غور کرتے ہیں تو
تقریباً تمام زبانوں کی حالت بدلی ہوئی نظر آتی ہے ۔ جس زبان کو بھی دیکھ
لیں وہ زبان کم اور انگریزی زبان زیادہ گھُسی ہوئی نظر آتی ہے۔ اگر ایسا ہو
تو دیکھا جاتا ہے کہ وہ قومیں اور زبان آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں اور
زبان کے ساتھ ساتھ قومیں بھی مر جاتی ہیں۔ یہی صورتحال سرائیکی زبان میں
بھی نظر آرہی ہے آج کل کے سرائیکی اپنی زبان میں انگریزی کو زبردستی گھسا
دیتے ہیں جس وجہ سے سرائیکی زبان کے خالص الفاظ مررہے ہیں ۔ حالانکہ آج بھی
بیٹ کے علاقے کے لوگ اگر خالص زبان بولیں تو راقم کو بھی بہت سے سرائیکی کے
الفاظ سمجھ نہیں آتے کہ ان کا مطلب کیا ہے ہم جدت اور ترقی کے چکروں میں
اپنی مادری زبان، ثقافت کو ختم کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان کی خود
حفاظت کریں۔ اپنی زبان کے الفاظ اپنی آنیوالی نسل میں منتقل کریں۔ مگر
بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ۔ آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے بھی
پاکستان کی کسی زبانوں اور ثقافت کی بہتری کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات
نہیں کیے۔ صرف پنجابی اور اردو کیلئے تھوڑا بہت کام ہوا۔ حالانکہ پاکستان
میں بولی جانے والی تمام زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان کی ثقافت
ہماری اپنی ثقافت ہے۔ پھر چاہیے وہ پنجابیوں کی ثقافت ہو، سندھیوں کی،
بلوچوں کی ، پٹھانوں کی ، سرائیکیوں کی یا پھر کسی اور کی یہ سب ہمارے ملک
کے خوبصورت اور رنگدار باغیچے ہیں جنہیں ہمیں ہی آبیاری کرنی ہے۔یونیسکو کی
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً 2500زبانیں ایسی ہیں جو کہ دنیا سے
ختم ہونے جارہی ہیں جبکہ پاکستان میں بھی ایسی 7زبانیں شامل ہیں جو کہ خطرے
سے دو چار ہیں ۔ جن میں بروشسکی،بلتی، بروہی، خوور، مائیا، پیورک، سپائتی
شامل ہیں ۔ دنیا میں 228ایسی بھی زبانیں ہیں جو کہ بالکل ختم ہو گئی ہیں۔
حکومت پاکستان کو پاکستان کی ثقافت، اس خطہ کے لوگوں کے ثقافت زبانوں کی
ترویج کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔ کیونکہ جس طرح ایک باغ میں مختلف رنگ کے
پھول اچھے لگتے ہیں ٹھیک اسی طرح مختلف زبانیں، کلچر بھی اس گلشن کو
خوبصورت بناتے ہیں۔انیسویں صدی کے شروع میں بولی جانیوالی ہندوستانی زبان
بھی اردو ہی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اردو ہندوستانی زبان ہے اور وہاں سے
ہی پاکستان آئی میری اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے کے شعرا
ء کرام کا کلام دیکھ لیں وہ کس زبان میں شاعری کرتے آئے ہیں۔ میرا موضوع
اردو تو نہیں مگر یہاں پر اردو کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا تھا کیوں کہ
اردو ہی ہماری قومی اور رابطہ کی زبان ہے ۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان، سری
لنکا، افغانستان، کینیڈا،برطانیہ اور خلیجی ممالک میں بھی سرائیکیوں کی
کثیر تعداد آباد ہے سرائیکیوں کا اصل وطن ملتان ہے جس کو مرکزی حیثیت حاصل
ہے ۔ سرائیکی زبان کی تاریخ بتاتی ہے کہ سرائیکی زبان بہت پرانی ہے 372ھ
میں لکھی گئی ایک کتاب حدود العالم بن المشرقی الی المغربی میں بھی سرائیکی
زبان اور قوم کا ذکر ہیجس میں پتہ چلتا ہے کہ سرائیکی ایک الگ قوم تھی اور
سرائیکی خودمختار ریاست ملتان رکھتے تھے جسے پہلی بار محمد بن قاسم نے فتخ
کیا تھا ۔اپنے قارئین کو یہاں پر یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری
ناقص تحقیق کے پیش نظر سرائیکی جتنی بڑی زبان پورے براعظم ایشیاء میں نہیں
حالانکہ اس قوم اور زبان کی ترویج کیلئے آج تک کوئی بھی اقدام نہیں اٹھائے
گئے۔ یہ بات بھی ساری دنیا مانتی ہے کہ سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے اس زبان
کو سب سی بڑی زبان اس لیے بھی کہا کہ اس زبان کی حروف تہجی کے الفاظ تمام
زبانوں سے زیادہ اور اس زبان میں پانچ الفاظ اضافی شامل ہیں یہ الفاظ نہ تو
پنجابی میں ہیں، نہ ہندی میں اور نہ ہی اردو میں اور سرائیکی زبان کے
ہزاروں نہیں تو سینکڑوں الفاظ ایسے ہیں جن کے اردو میں ، انگریزی یا ہندی
میں متبادل نہیں یا انکا ترجمہ کرنا ناممکن ہے۔ یہاں پر مثال کے طور پر دو
چار الفاظ لکھ دیتا ہوں جن کے کسی زبان میں متبادل نہیں یا ترجمہ نہیں کیا
جا سکتا۔ جیسا کہ "مونجھ، سک، اڈ، نری، پولا" وغیرہ شامل ہیں جبکہ سرائیکی
کا یہی ایک لفظ پولا تین چیزوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پولا یعنی
جوڑی میں سے ایک جوتا، پولا یعنی کے پوچھا لگانا، پولا مطلب کسی لکڑی یا
سخت چیز کا حصہ(اندرونی حصہ) خالی ہونا۔ جسے کھٹکھٹانے پر خالی محسوس
ہوجائے۔ ایسے اور بھی کئی الفاظ ہیں جیسے (ڈاند، ڈیڈر، ڈیوا، ون، کٹوری،
چبھڑ، وسا، بنا) شامل ہیں۔ پاکستان میں کم و بیش 50 زبانیں بولی جاتی ہیں
اور جو زبانیں الگ ہیں ان کی ثقافت بھی الگ ہے اور ہر ایک قوم کا الگ کلچر
بہت پیارا ہے چاہے وہ سرائیکی ہو، پنجابی ہو، سندھی ہو، پختون ہو، بلوچی ہو،
بلتی ہو یا کوئی بھی کلچر ہو سب کلچر اس گلشن میں مختلف رنگ کے پھول ہیں جو
کہ اس گلشن میں لہلاتے نظر آتے ہیں یہ سبھی دلکش اور خوبصورت ہیں ان کو صرف
محبت بھری نظروں سے دیکھنے کی ضرور ت ہے نہ کہ تعصب کی عینک لگا کر دیکھنے
کی۔ تمام زبانوں کی آبیاری کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور حکومت
پاکستان کو چاہیے کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ترویج پر
خصوصی توجہ دے انکی ثقافت کو اجاگر کرے۔ پورے ملک میں پوری دنیا میں تاکہ
باہر کی دنیا کو پتہ چل سکے کہ پاکستان میں رہنے والے سبھی لوگ اس ملک سے
محبت کرنے والے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے پاکستان کو اپنے کلچر، زبان اور تہذیب
سے خوبصورت بنا دیا ہے۔ اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین(کالم
نگارکاتعلق خطہ سرائیکستان سے ہے اور سرائیکی تحریک کے رہنما ہیں) |