بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرمت نبی کریم ﷺ پر ہر جان لاکھوں مرتبہ فدا کیونکہ کامل انسان کا پیکر
مُحسن انسانیت ﷺ بنی نوع انسان کے لیے مجسم رحمت و شفقت بن کر آئے۔قرآن
حکیم نے رسو ل اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لیے ایک نمونہ قرار دیا ہے۔ یہ
ایک صداقت ہے کہ قرآن حکیم ایک آفاقی علم کا نام ہے تو حضور اکرم ﷺ کا وجود
قرآنی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کا از خود جملہ حالات انسانی سے
دوچار ہونا سب انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ آپ ﷺ نے شادیاں بھی کیں اس لیے
آپ ﷺ ایک شوہر کے لیے نمونہ کردار ہیں۔ آپ ﷺ صاحب اولاد بھی تھے لہذا آپ ﷺ
ایک باپ کے لیے نمونہ کردار ہیں. آپ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے محبت, عزت و
احترام کا وہ نمونہ پیش کیا جو ایک بیٹے کو باپ سے کرنا چاہیے تھا آپ ﷺ
اپنی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ کا احترام اپنی حقیقی والدہ کی طرح
کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے یتیمی ، بے سرو سامانی اور بے کسی کی حالت سے لے کر
سربراہ مملکت تک کا مقام دیکھا مگر نہ یتیمی نے آپ ﷺ کے پائے استقلال میں
لغزش آنے دی اور نہ ہی حکومت میں اپنے فرائض کو فراموش تک نہ ھونے دیا. آپ
ﷺ نے ہردم اللہ تعالیٰ کے احکام کو مد نظر رکھا ۔ آپ ﷺ نے جنگوں میں بطور
ایک سپاہی کے اور فاتح جرنیل کے بھی ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا. اللہ تعالیٰ
نے جب آپ ﷺ کو عظیم مملکت کا سربراہ بنایا تو خدا تعالیٰ کے نازل کردہ
قوانین کے تحت بطورِ قاضی اور منصف مقدمات کے فیصلے بھی کرنے پڑے۔آپ ﷺ خود
انتظامی معاملات طے کرتے اور مختلف ملکی معاملات سلجھاتے اور تمام کاروبار
مملکت چلاتے ، الغرض زندگی کے ہر دور کے لیے آپ ﷺ نے ایک کامل نمونہ پیش
کیا۔ آپ ﷺ دنیا کی ایک مقدس ترین ہستی ہونے کے باوجود کبھی ادنیٰ کام کرنے
میں عار محسوس نہ کرتے ۔گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرنا اور دوسروں کی خدمت
کرنا آپ ﷺ کا شعار تھا ۔ آپ ﷺ کی زندگی میں وہ دور بھی آیا جب آپ ﷺ کا
دُشمن طاقتو ر تھا مگر آپ ﷺ نے باوجود مظالم کے از حد اعلی صبر و استقلال
کا نمونہ دکھایا ۔ جب انہیں ظالم دشمنوں پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح دی
تو آپ ﷺنے عفو درگزر کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ، جب بد ر کے قیدیوں کی آہ و
بکا آپ ﷺ کے گوش مبارک تک پہنچی تو آپ ﷺ کی نیند اُڑ گئی اور آپ ﷺ اس وقت
تک آرام سے نہ سو سکے جب تک اُن کے بندھن ڈھیلے کر کے انہیں آرام نہیں
پہنچایا.سماجی اور مجلس لحاظ سے دیکھیں تو حضور اکرم ﷺ نے اپنے لیئے امتیاز
پسند نہیں فرمایا اور مساوات پیش کی نہ کھانے پینے، رہنے سہنے ، لباس اور
وضع قطع میں کوئی غیر معمولی طریقہ ، برتانہ مجلس میں نمایاں مقام پر نشت
پسند فرمائی اور نہ ہی یہ پسند تھا کہ لوگ آپ ﷺ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں۔
جنگ اور سفر , خندق کی کُھدائی اور مساجد کی تعمیر میں اپنے رفقائے کے ساتھ
مٹی ڈھوتے ,گارا اٹھاتے، پتھر توڑتے اور بکریاں چراتے , لکڑیاں چُنتے ,یہ
سب کام اپنے دست مبارک سے سر انجام دیتے ھوۓ آسمان ؤ زمین کے ہر نظارے نے
دیکھا۔ محمد ﷺ کی سیرت نہیں ہے بلکہ ایک تحریکی داستان ہے جو ایک انسانی
پیکر میں جلوہ گر ہوئی وہ محض ایک انسان کی نہیں ایک انسان ساز ہستی کی
روداد ہے۔ سرورِ عالم کی سریت غارِحرا سے لے کر غارِ ثور تک حرمِ کعبہ سے
لیکر طائف کے بازاروں تک اُمہات المومنین کے حجروں سے لے میدان جنگ تک
پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے. آپ ﷺ کی زندگی کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ
حیات کے عملی اوراق ہیں ۔حضرت ابوبکرؓ ,حضرت عمرؓ ,حضرت عثمانؓ ,حضرت علیؓ
سب ایک ہی کتابِ سیرت کے عملی اوراق ہیں۔ آپ ﷺ کی سیرت کی مدد سے حاکم وقت
، وزیر ؤ مشیر, امیر ؤ غریب, ملازم، آقا، سپاہی ، تاجر ، مزدور، جج، معلم،
طالب علم ، واعظ , لیڈر، فلسفی ،باپ، پڑوستی ، غرض ہر کوئی یکساں درسِ حکمت
و عمل لے سکتا ہے۔ سب کے لیے ایک مثالی عملی نمونہ موجود ہے اگر کوئی عمل
کرنا چاہے تو عمل کر کے انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی ھے وہ آپ ﷺ کی
ہستی میں جلوہ گر ہے۔ تاریخ کے پاس کامل انسان صرف یہ ایک ہے جس کو چراغ
بنا کر ہم ہر دور میں اپنے تاریک کل اور آج کو روشن کر سکتے ہیں... |