شبلی، اقبال اور عطیہ فیضی

شبلی اور اقبال کے عطیہ فیضی سے تعلقات اور خطوط کا چرچا دیر سے جاری ہے۔ ان تعلقات کے بنا پر کئی غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا اور ان دونوں اکابر پر حرف گیری بھی ہوئی۔ اس مضمون میں ان تعلقات کا از سر نو جائزہ لیا گیا ہے، تاکہ حقیقتِ احوال زیادہ واضح ہو سکے۔

اردو زبان و ادب کی تاریخ میں شبلی(۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء) کا نام کسی تعارُف کا محتاج نہیں۔ سوانح عمری، علمِ کلام، تنقید، تحقیق، تاریخ، سفرنامہ، شاعری اور سیرت ان کے میدانِ تصنیف و تالیف رہے اور علی گڑھ، ندوۃ العلما، حیدرآباد، سراے میر اور دارالمصنّفین ان کی علمی و ملّی تگ و تاز کے میدان؛ پھر یہ بھی ہے کہ کتنے ہی شعبے ان کی اوّلیات سے سرفراز ہوئے۔ ایک شاعر، نثر نگار، فلسفی اور حکیم کی حیثیت سے اقبال(۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کا مقام و مرتبہ مسلّم ہے۔ شبلی اردو، فارسی اور عربی پر دسترس رکھتے تھے اور ترکی زبان سے بھی انھیں شناسائی تھی؛ جب کہ اقبال پنجابی، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے اور جرمن زبان سے بھی انھیں کچھ عرصہ تک لگاؤ رہا۔ جہاں تک عطیہ فیضی (۱۸۷۷ء-۱۹۶۷ء) کا تعلق ہے، وہ ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والد تجارت کی غرض سے مقیم تھے۔ عطیہ اپنے دَور میں ان چند مسلم خواتین میں سے تھیں، جنھوں نے یورپ میں تعلیم حاصل کی اور علوم و فنون کی تحصیل کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
عطیہ فیضی سے شبلی کی پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی، جب عطیہ اور اس کی بہنیں(زہرا فیضی، نازلی رفیعہ سلطان) لکھنؤ کے دَورے میں شیخ مشیر حسین قدوائی کے ہاں قیام پذیر تھیں۔ اس ملاقات کے بعد شبلی کا بمبئی جانا ہوا تو خاندانِ فیضی نے اپنے کسی عزیز کی طرح ان کا استقبال کیا۔ عطیہ فیضی کا بیان ہے کہ ’دوسرے سال (۱۹۰۷ء)ان کے پاؤں میں گولی لگنے کے بعد وہ مصنوعی پاؤں کے انتظام کے لیے بمبئی آئے‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ عطیہ سے شبلی کی مشیر حسین قدوائی کے ہاں ملاقات غالباً ۱۹۰۶ء میں ہوئی۔ اس کے بعد لکھنؤ،بمبئی اور بمبئی سے ایک سو پینسٹھ کلو میٹر دُور جنوب میں واقع ایک مسلم ریاست جنجیرہ (جو غالباً ’جزیرہ‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے) میں ان کی کئی ایک ملاقاتوں کی اطلاع عطیہ فیضی، زہرا فیضی (۱۸۶۶ء-۱۹۴۰ء) اور ایم مہدی حسن(مہدی افادی) کے نام متعدد خطوط سے ملتی ہے، البتہ آخری بار وہ جون ۱۹۱۴ء میں بمبئی گئے اور جولائی کی کسی تاریخ تک وہیں رہے۔ اس دَوران زہرا فیضی انھیں اپنے ہاں کھانے پر بلاتی رہیں، لیکن اس عرصے میں عطیہ سے ان کی ملاقات کی کوئی خبر نہیں ملتی۔
عطیہ سے اقبال کی پہلی ملاقات یکم اپریل ۱۹۰۷ء کو لندن میں ہوئی، پھر لندن اور ہائیڈل برگ میں دعوتوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا، جو ۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد عطیہ کو ہندوستان لوٹنا پڑا، پھر جب عطیہ کو اپنی بہن نازلی رفیعہ سلطان (۱۸۷۴ء-۱۹۶۸ء) اور بہنوئی نواب سرسدی خان (۱۸۶۲ء-۱۹۲۲ء)کی معیت میں دوبارہ یورپ جانے کا اتفاق ہوا تو ۹؍جون ۱۹۰۸ء کو اقبال ان سے ملنے کے لیے گئے۔ ہندوستان پلٹنے کے بعد کئی برس تک دونوں کی ملاقات نہ ہو سکی۔ عطیہ کی طرف سے جنجیرہ آنے کی دعوت کے جواب میں اقبال مسلسل معذرت کرتے رہے۔ یوں لگتا ہے کہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء کو مراسلت کا سلسلہ منقطع ہو گیا، جو دوبارہ تب بحال ہوا، جب دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے یورپ جاتے ہوئے اقبال بمبئی رُکے۔ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو عطیہ نے ان کے اعزاز میں ’ایوانِ رفعت‘ میں ایک دعوت کا اہتمام کیا اور یورپ سے واپسی پر بھی ایسی ہی دعوت کی گئی۔تیسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے اقبال ۱۷؍اکتوبر ۱۹۳۲ء کو بمبئی پہنچے تو انھوں نے کچھ وقت عطیہ اور ان کے شوہر رحمین فیضی کے ساتھ گزارا۔
عطیہ کے نام شبلی کے خطوط کا دَورانیہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۸ء سے ۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء تک ہے اور تقریباً سوا تین سال کے مختصر سے عرصے میں شبلی نے عطیہ کو پچپن خطوط تحریر کیے، جو تمام اردو زبان میں ہیں۔ عطیہ فیضی سے اقبال کی خط کتابت کا دَورانیہ مارچ ۱۹۰۷ء سے ۲۹؍مئی ۱۹۳۳ء تک ہے؛ البتہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء سے آخری خط تک بائیس برس کاطویل وقفہ بھی ہے۔ یہاں عطیہ کا وہ بیان دہرا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے، جس کے مطابق، ’بہت سے خطوط جواب دے دِیے جانے کے بعد محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ اُس وقت انھیں ان خطوں کی قدر و قیمت کا کوئی اندازہ نہیں تھا‘۔ عطیہ کے نام اقبال کے دستیاب خطوں کی تعداد گیارہ ہے، جو انگریزی زبان میں لکھے گئے۔اس دَوران شبلی کے صرف ایک خط (مرقومہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۹ء)سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال سے عطیہ کی مراسلت سے آگاہ تھے۔ شبلی نے لکھا تھا کہ ’تم نے میرے سوالوں کا تو جواب نہیں لکھا، میری اور مسٹر اقبال کی تعریف میں خط پورا کر دیا‘۔
شبلی کے خطوں میں عطیہ سے تعلقات کے نشیب و فراز کے ساتھ القاب و آداب میں تبدیلی آتی رہی؛ یعنی ’عزیزی‘، ’عزیزی عطیہ فیضی‘، ’قرۃ عینی‘، ’خاتونِ محترم‘’خاتونِ محترم عطیہ فیضی سلمہا‘اور ’مہد علیا‘وغیرہ۔وہ عام طور پر سلام و آداب کا التزام نہیں کرتے، تاہم چند ایک میں ’سلام علیکم‘، ’سلامِ مسنون‘، ’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘، ’حیاک اللہ‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ اقبال کے خطوں میں بھی باہمی تعلقات کی نوعیت کے ساتھ ساتھ القاب میں تغیرات آتے رہے، مثلاً۔۔۔’مائی ڈیر مس فیضی‘، ’مائی ڈیر مس عطیہ‘، ’ڈیر مس فیضی‘ اور ’مائی ڈیر عطیہ بیگم‘ وغیرہ؛ جب کہ انگریزی زبان میں ہونے کے باعث یہ خطوط آداب و سلام سے بے نیاز ہیں۔
جہاں تک اختتامیوں کا تعلق ہے، شبلی نے چند خطوں میں ’والسلام‘ اور تین خطوں میں’تمھارا خیر خواہ‘، ’خدا حافظ‘اور ’تمھارے کمالات پر حیرت زدہ‘ جیسے الفاظ درج کیے ہیں، جب کہ اقبال کے خطوں کا اختتامیہ بالعموم Yours sincerely یا Yours very sincerely یا پھر Yours ever sincerelyسے ہوا ہے، البتہ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۹ء اور ۳۰؍مارچ ۱۹۱۰ء کے خطوں میں Yours ever سے تعلقِ خاطر کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک مکتوب نگار اپنا نام ’شبلی‘، ’شبلی نعمانی‘ یا ’نعمانی‘ لکھتا ہے تو دوسرا ’اقبال‘، محمد اقبال‘ یا ’ایس ایم اقبال‘ ۔
دونوں اکابر اپنی نظمیں اور تصانیف عطیہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ان پر اپنی راے کا اظہار کرے۔ شبلی اپنی تصانیف اور بعض شعری تخلیقات عطیہ کو بھیجنے کے آرزو مند رہتے تھے۔ وہ مختلف مواقع پر عطیہ کو دیوان، سوانحِ مولانا روم، موازنۂ انیس و دبیر یا تہنیت کی غزل بھیجتے ہیں اور کبھی غزلوں کا مجموعہ یا شعر العجم کے مختلف حصے پیش کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔کئی خط ان کی اپنی نظموں، غزلوں یا ان کے متفرق اشعار سے مزین ہیں، بعض خطوں میں موقع محل کی مناسبت سے انھوں نے اپنے اشعار کو جگہ دی ہے اور کبھی کبھار دوسروں کے اشعار بھی درج کیے ہیں۔ اقبال بھی اپنی نظم بھیج کر اس پر عطیہ کے تبصرے کے متمنی ہیں اور کبھی اپنی کتاب (فلسفہ عجم) پیش کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اقبال نے بعض خطوں میں اپنی اردو فارسی نظموں سے اقتباس اورموقع و محل کے مطابق اپنے اشعار بھی درج کیے ہیں۔ چند ایک مقامات پر اقبال نے اپنے اشعار کی تفہیم کے لیے اشعار کے ساتھ ان کا انگریزی میں ترجمہ بھی لکھ دیا،مثلاً۷؍جولائی ۱۹۱۱ء کے خط سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
خندہ ہے بہر طلسم غنچہ تمہید شکست
تو تبسم سے مِری کلیوں کو نامحرم سمجھ
درد کے پانی سے ہے سرسبزیِ کشت سخن
فطرتِ شاعر کے آئینے میں جوہرِ غم سمجھ
For the talisman of the bud, smile is the beginning of the end; regard my buds totally unaware of smile. The field of poetry prospers through the water of suffering the real essence of poet's nature is suffering.
بمبئی آنے کی دعوت عطیہ نے شبلی کو دی تو انھوں نے قبول کر لی، اگرچہ شبلی متعدد مرتبہ جنجیرہ یا بمبئی میں عطیہ کے مہمان ہوئے، لیکن وہ اپنے قومی مقاصد کو کبھی نہیں بھولے؛ چنانچہ ۱۹۰۹ء میں بار بار کی دعوت کے باوجود شبلی بمبئی نہ جا سکے۔ غالباً عطیہ نے گلہ کیا، جس پر شبلی نے واضح کر دیا کہ ’دیر تک ملنے کی امید نہیں۔ مَیں وطن، احباب، آرام، سب چھوڑ سکتا ہوں، لیکن ایک مذہبی اور قومی کام کیونکر چھوڑ دوں، ورنہ بمبئی یا جزیرہ (جنجیرہ) دو قدم پر تھے‘؛ ایک اَور خط میں شبلی کو وضاحت کرنا پڑی کہ ’میری زندگی کے دو حصے ہیں، پرائیویٹ اور پبلک۔ اگر پبلک کام میرے ہاتھ میں نہ ہوتا تو میری ہمت کا اندازہ کر سکتی‘۔ اسی طرح اقبال کو بھی جنجیرہ آنے دعوت دی جاتی رہی، لیکن اقبال اپنی ذمہ داریوں کے پیش نظر ایک مرتبہ بھی نہ جاسکے۔ ۹؍اپریل ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں:
I am sorry to hear that you do not believe me when I say that I wish to come to Bombay to see you and their Highnesses who were so very kind to me. I certainly do wish to come over, whether this would be possible, I cannot say at present. No greater relief to me than this.
[مجھے یہ معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا کہ آپ کو باور نہیں آتا کہ مَیں آپ سے اور نواب صاحب اور بیگم صاحبہ سے، جو مجھ پر بے حد شفقت فرماتے ہیں، ملاقات کے لیے بمبئی آنے کا آرزو مند ہوں۔ مَیں تو ضرور حاضر ہونا چاہتا ہوں، لیکن آیا یہ ممکن ہو سکے گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یقین مانیے، آپ لوگوں کی صحبت سے زیادہ تسکین مجھے کہیں میسر نہیں۔]
عطیہ کے معاملے میں شبلی پورے اعتماد سے بات کرتے ہیں اور عطیہ پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ مولوی مشیر حسین قدوائی نے شبلی کو عطیہ کے اپنے ہاں آنے کی اطلاع دی تو شبلی نے واضح کر دیاکہ ’اگر آپ لکھنؤ آکر کسی اَور کی مہمان ہوں تو مَیں اُس زمانے میں لکھنؤ چھو ڑ کر چلا جاؤں گا‘۔دوسری طرف، اقبال کسی پر اپنا حق نہیں سمجھتے اور نہ عطیہ کے حوالے سے کسی سے بات کرنا پسند کرتے ہیں، مثلاً ۱۷؍اپریل ۱۹۰۹ء کے خط میں لکھتے ہیں کہ ’عبدالقادر صاحب سے اکثر چیف کورٹ کے کمرۂ وُکلا میں ملاقات ہو جاتی ہے۔ ایک عرصے سے آپ کے متعلق ہماری باہمی کوئی گفتگو نہیں ہوئی‘، لیکن اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’میری کم گوئی اب بڑھتی جا رہی ہے‘۔
بعض مواقع پر عطیہ دونوں اکابر سے ناراضی کا اظہار کرتی ہیں۔ شبلی سے شکایت پیدا ہوئی توان کی بمبئی آمد اور قیام کے باوجود خاموشی اختیار کر لی اور اقبال سے ناراض ہوئیں تو لاہور میں انھیں اپنی آمد کی خبر تک نہ دی۔ شبلی و اقبال کے خطوں سے ایک ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
اس ستم ظریفی کو دیکھیے، مہینہ بھر بمبئی میں رہیں اور مطلق خبر نہ دی۔ خبر تھی کہ بیگم صاحبہ بھوپال کے ساتھ ولایت جا رہی ہیں، اس لیے زہرا کو لکھا، وہ بھی چپ رہیں۔ بہت پتا لگایا کہ بمبئی میں تم ہو تو آؤں، کچھ پتا نہیں چلا۔ ۶؍مئی کو زہرا صاحبہ کا خط آیا کہ سب لوگ جنجیرہ آ گئے ہیں۔ اب جا کر یہ خط آیا، سبحان اللہ۔ ۔۔۔ افسوس! بمبئی میں بہت رہوں گا، لیکن تم سے ملنا محال ہو گیا،سمندر پار ہو۔
His Highness was not mistaken in looking upon you as the only authority on my whereabouts. May I suggest that you did not choose to continue to be so; though I have confessed and shall always confess the power of this authority? Some people look upon me as a similar authority about you; but imagine my disappointment when I hear from other people that you had designed to visit Lahore and were already in it! And you did not condescend to drop a line to me! It was sheer chance that I had the pleasure to see you only to make myself more miserable.
[ہزہائینس نے بجا طور پر میرے پتے کے متعلق آپ کو سند سمجھا اور یہ کیوں نہ کہوں کہ آپ نے ایسی سند ہونے سے انکار کر دیا۔ مَیں تو اس سند کے اختیارات تسلیم کرنے کو تیار ہوں اور ہمیشہ تیار رہوں گا۔ بعض لوگ اِدھر بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر آپ کے متعلق مجھے بھی ایسی ہی سند سمجھتے ہیں، لیکن میری مایوسی کا اندازہ کیجیے، جب مجھے دوسروں کی زبانی معلوم ہوا کہ لاہور آپ کے قدومِ میمنت لزوم سے مفتخر ہونے والا ہی نہیں، بلکہ ہو چکا ہے۔ آپ نے تو دوحرفی اطلاع تک سے دریغ فرمایا۔ آپ سے اتفاقیہ ملاقات ہو گئی اور اس سے میرے قلق میں مزید اضافہ ہوا۔]
شبلی روشن خیال بھی تھے اور جرأتِ رندانہ کے مالک بھی، لیکن قومی خدمت کے بعض امور میں وہ ذاتی آرزوؤں کو قربان کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ ندوہ میں بورڈنگ کی تعمیر کے لیے نصف اخراجات بیگم جنجیرہ (نازلی) نے قبول کیے تو عطیہ نے اس کا سنگِ بنیاد انھی کے ہاتھوں رکھنے کی تجویز پیش کی۔ اگرچہ شبلی متفق تھے، لیکن بعض مجبوریوں کے علاوہ انھیں ’عام مخالفت اور مولویوں کی برہمی‘ کا بھی خدشہ تھا۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ ’مَیں اگر عوام کی مرضی کا کسی حد تک لحاظ نہ رکھوں تو ایک نہایت مفید تحریک فوراً برباد ہو جائے‘؛ اس کے برعکس اقبال کو عوام کے احترام و عقیدت سے کوئی سروکار نہیں رہا اور نہ وہ کسی کے اختلاف یا مخالفت کے ڈر سے اپنی زندگی کی روش کو بدلنے پر تیار ہوئے۔ عطیہ نے شمالی ہندوستان میں اقبال کی ذات سے عقیدت و احترام کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا تو اقبال نے ایک خط میں انھیں بتایا:
Let the many-headed monster of public give their dross of respect to others who act and live in accordance with their false ideals of religion and morality. I cannot stoop to respect their conventions which suppress the innate freedom of man's mind.
[عوام کے احترام و عقیدت کا خراج اُن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، جو عوام کے غلط نظریاتِ اخلاق و مذہب کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ مجھے عوام کے احترام کی خاطر اُن کے نظریات کو قبول کرکے اپنے آپ کو گرانا اور روحِ انسانی کی فطری آزادی کو دبانا نہیں آتا۔]
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دِلانا مقصود ہے، وہ یہ کہ عطیہ کے نام خطوں میں شبلی خود ہی ایک ارادے کا ذکر کرتے ہیں اور پھر خود ہی اس کے بارے میں عذر پیش کر دیتے ہیں۔ یورپ روانگی کے وقت شبلی عطیہ کو خدا حافظ کہنے بمبئی اس لیے نہ گئے کہ وہ خود کو کسی عزیز یا دوست کی رخصت کے وقت کا متحمل نہ پاتے تھے، لیکن ساتھ ہی یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ’خدا کرے، جب واپس آؤ تو مَیں وہاں موجود ہوں، وہ البتہ مسرت بخش حالت ہو گی‘، لیکن جب عطیہ وطن واپس پلٹتی ہے تو اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’میری زندگی کا یہ سخت افسوس ناک واقعہ ہے کہ یہ مبارک باد میرے لب کے بجاے زبانِ قلم ادا کرتی ہے‘۔ عطیہ کے دوسرے دورۂ یورپ کے دَوران شبلی نے زہرا فیضی کو لکھا کہ انھوں نے عطیہ کو بھیجنے کے لیے چکن کا ایک ہلکا سا رومال تیار کرایاہے، جس پر عطیہ کا نام کاڑھا گیا تھا؛ لیکن اگلے ہی خط میں مطلع کیا کہ ’جو رومال مَیں نے تیار کرایا تھا، میرے موجود نہ ہونے سے دل خواہ نہ بنا، اس لیے اب لندن نہ بھیجوں گا۔ موقع ہوا تو بمبئی میں خود پیش کروں گا‘۔ اکتوبر ۱۹۱۰ء میں عطیہ نے آگاہ کیا کہ ناگپور میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آ رہی ہیں تو شبلی نے انھیں الٰہ آباد آنے کی دعوت دی، لیکن یہ بھی لکھ دیا کہ ’میرے خاندان کی عورتیں اُس وقت وہاں نہ ہوں گی‘۔ یہ کہتے ہوئے کہ ’الٰہ آباد میں میرا چھوٹا بھائی اسحاق رہتا ہے، مَیں تو یہ چاہتا تھا کہ تم کو اُسی مکان میں اتاروں‘، یہ بھی لکھ دیا کہ ’اطمینان نہیں کہ تمھاری مرضی کے موافق تم کو آرام مل سکے گا؟ دریا قطرہ میں نہیں سما سکتا‘۔ ۲؍نومبر کو لکھتے ہیں کہ ’مَیں دفعتہ بیمار ہو گیا اور اب تک ہوں اور معلوم نہیں، کب تک رہوں، اس لیے وہ سب تجویزیں درہم برہم ہو گئیں‘۔ ساتھ ساتھ اسحاق کے مکان کے بارے میں کی گئی بات کو بھی یہ بتا کر ختم کر دیتے ہیں کہ ’میرے یہاں کی مستورات سب وطن چلی جائیں گی، کیونکہ برادرم اسحاق کا مکان اُس زمانے میں عام لنگر خانہ ہو جائے گا۔ ان کے سیکڑوں ملنے والے ہیں، سب انھیں کے ہاں ڈھئی دیں گے‘، اس پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ’مَیں آپ کی مہمانی کا شرف کیونکر حاصل کروں گا‘، لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’مکان اگر آپ کو مل سکتا ہے تو آپ سے زیادہ ہم لوگ ڈھونڈ سکتے ہیں، اس لیے آج ہی اسحاق کو لکھتا ہوں کہ وہ بھی تلاش کریں‘۔ ایک موقعے پر عطیہ کو لکھتے ہیں، ’مَیں چاہتا ہوں کہ میرے کسی کام میں تمھارے نام کی شرکت ہو اور ا س کا اصلی طریقہ تو یہ تھا کہ کوئی تصنیف تمھارے نام پر ڈیڈیکیٹ کرتا‘، لیکن اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ’ اس سے دفعتہ ان قومی کاموں کو نقصان پہنچے گا، جو میرے ہاتھ میں ہیں‘۔ پھرغالباً عطیہ نے تکرار کی، تب بھی وہ ٹال گئے اور لکھا کہ ’وہ وقت ضرور آئے گا، لیکن کب آئے گا، اس کا فیصلہ آج نہیں کر سکتا‘۔اس طرح شبلی نے کمال دانش مندی سے، انکار کیے بغیر ،اس خواہش کو غیر معینہ مدت تک کے لیے مؤخر کر دیا اور پھر کبھی اس کا موقع نہیں آیا۔ اقبال بھی ایک خط میں اپنے مجموعۂ نظم کو ’ایک ہندوستانی خاتون‘ کے نام معنون ہونے کی خبر دیتے ہیں۔ یہ بات انھوں نے کسی وقتی جذبے کے تحت کہی تھی یا اس معاملے میں وہ واقعی سنجیدہ تھے؛ یہ تو معلوم نہیں، لیکن انھوں نے نہ صرف مذکورہ شعری مجموعے[؟]، بلکہ بعد میں بھی کسی کتاب کا انتساب عطیہ کے نام نہیں کیا۔
شبلی کے ہاں عطیہ کے بارے میں دو رویے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔ وہ محبت و احترام کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس دَوران اپنے مقام و مرتبے کو بھی نہیں بھولتے۔ ایک خط میں فنِ موسیقی سے ان کی واقفیت کے پیش نظر اس امر کی اجازت طلب کرتے ہیں کہ ’لوگ تم کو پوجیں‘ اور اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’و انا اوّل العابدین‘ ؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ عطیہ کی ہر بات پر آمناً و صدقنا نہیں کہتے، بلکہ بعض اوقات سخت لہجہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’آپ بھی عجیب باتیں کہتی ہیں۔ یہاں سب لوگ کہتے ہیں کہ ڈاک جنجیرہ کی بند ہو جاتی ہے اور کئی مہینے تک بند رہتی ہے اور آپ فرماتی ہیں کہ جنجیرہ آؤ اور جب چاہو، واپس جاؤ‘۔ ایک اَور موقعے پر ، جب عطیہ علی گڑھ کالج اور جنجیرہ کے بارے میں شبلی کے چند جملوں سے خفا ہوئیں، شبلی نے لکھا:
آپ کا غضب آلود خط ملا۔ افسوس ہے کہ آپ نے اس کو اَور نگاہ سے دیکھا۔ علی گڑھ کی تحقیر ہرگز مقصود نہ تھی ۔۔۔ جزیرہ[جنجیرہ] کا چھوٹا ہونا بھی مجھے معلوم نہ تھا، نہ مَیں نے وہاں کے مداخل و مخارج کا کبھی تفحص کیا۔۔۔ بہرحال، اگر کوئی غلطی ہوئی تو وہ بدنیتی سے نہیں ہوئی۔ آپ کا اس قدر برہم ہونا میرے لیے موجبِ افسوس و رنج ہے۔۔۔۔ امید ہے کہ آپ خط دیکھنے کے بعد غیض [غیظ؟] و غضب کو دُور فرمائیے گا۔
یہاں شبلی نے اپنے لکھے پر معذرت نہیں کی، بس افسوس کا اظہار کر کے بات ختم کر دی۔ تقریباً سوا سال تک کسی خط میں اس بات کو دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔عطیہ کے نام شبلی نے اپنے دوسرے ہی خط میں واضح کر دیا تھا کہ ’آپ‘ کے بجاے ’تم‘ کا لفظ لکھوں گا۔ اگرچہ اس کی وجہ انھوں نے ’آپ‘ کے لفظ میں بیگانہ پن کو قرار دیا، لیکن اسے بھی احساسِ عظمت کا اظہار سمجھنا چاہیے، البتہ اقبال کا انداز ذرا مختلف ہے۔ عطیہ کے نام خطوں میں ان کے ہاں خودسپردگی کا احساس ہوتا ہے۔ عطیہ نے شکایت کی کہ وہ اس کی خواہشات کے عدم احترام کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ کہ ’آپ کو زیادہ محتاط ہونا چاہیے‘۔ اقبال وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
This is indeed strange; for I always make it a point to obey your wishes and to please you in any way I can.۔۔۔ Please explain to me in what respect I should be more careful. I am ready to do all that will please you. The world cannot worship me. I would not be worshipped, since my nature is such that I cannot become an object of worship, so deeply is ingrained in me the instinct of a worshipped.
[یہ بڑے تعجب کی بات ہے، کیوں کہ آپ کی خواہشات کا احترام مَیں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے اور آپ کی خوش نودی کے لیے امکان بھر کوشاں رہا ہوں ۔۔۔ ازراہِ کرم ذرا وضاحت فرمائیے، مجھے کس اعتبار سے زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ مَیں ہمہ تن آپ کی خدمت کے لیے آمادہ ہوں۔ مَیں تو اپنی فطرت کے تقاضے سے پرستاری پر مجبور ہوں، میری پرستش کوئی کیا کرے گا۔]
اقبال ان تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، چنانچہ وہ ’وضاحتوں‘ اور ’صفائیوں‘ سے کام لیتے ہیں، مگر کسی وقتی جذبے کے پیش نظر پسپائی اختیار نہیں کرتے، چنانچہ فوراً سنبھل جاتے ہیں اور اگلے ہی جملے میں لکھتے ہیں:
But if the innermost thoughts of my soul are ever revealed to the public, if what lies covered in my heart is ever expressed, then, I am sure, the world will worship me some day after my death. The will forget my sins, and give me the tribute of a tear.
[لیکن وہ خیالات، جو میری روح کی گہرائیوں میں ایک طوفان بپا کیے ہوئے ہیں، عوام پر ظاہر ہوں تو پھر مجھے یقین واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہو گی۔ دنیا میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوؤں کا خراجِ عقیدت پیش کرے گی۔]
یہاں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۹ء، ۱۷؍جولائی ۱۹۰۹ء، ۳۰؍مارچ ۱۹۱۰ء اور ۷؍اپریل ۱۹۱۰ء کے خطوط میں اقبال شکایات کی وضاحت اور عطیہ کی ناراضی دُور کرنے میں کوشاں رہے۔ اس ایک سال میں یہی چار خط اقبال نے لکھے اور چاروں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اقبال عطیہ کی غلط فہمی کودُور کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے، لیکن عطیہ تھیں کہ ماننے کو نہیں آتی تھیں۔ اس کے بعد اقبال خاموش ہو گئے اور پھر جب ۷؍جولائی ۱۹۱۱ء کو خط کتابت کا سلسلہ بحال ہوا تو اقبال فکر و نظر کی اگلی منزلوں کی طرف گامزن ہو چکے تھے۔
اقبال عطیہ کو راز داں بناتے ہیں تو اس امید پر کہ وہ ان کی تشہیر نہیں کریں گی، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ صیغہ راز کی باتیں ہیں، براہِ کرم کسی سے ان کا ذکر نہ کریں‘، اسی طرح عطیہ کو یقین دِلاتے ہیں کہ ’آپ کے خطوط کو مَیں ہمیشہ ایک محفوظ صندوق میں رکھتا ہوں، انھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا‘؛ جب کہ شبلی عطیہ کو نہ تو کوئی نصیحت کرتے ہیں اور نہ خود ان تعلقات کو رازداری میں رکھتے ہیں، البتہ عطیہ ان کے خطوط کو نہایت حفاظت سے رکھتی رہیں، جس کی شہادت منشی محمد امین زبیری نے اپنے مرتبہ خطوطِ شبلی میں ’التماس و انتساب‘ میں دی۔ انھوں نے لکھا:
یہ خطوط ان کو ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں اور مَیں نے دیکھا کہ نہایت حفاظت کے ساتھ ان کی آہنی الماری میں رکھے ہوئے تھے اور ہزاروں اطمینان دلانے کے بعد مجھے اجازت دی گئی کہ مَیں بمبئی میں اپنے قیام گاہ پر ان کو نقل کروں۔
شبلی، عطیہ سے اپنے تعلقات اور ان سے مراسلت کو مخفی نہیں رکھتے۔ وہ ان خطوں کو بڑے فخر سے اپنے عزیزوں کو دِکھاتے اور پھر اس کی خبر عطیہ کو بھی دیتے۔ عطیہ بھی جانتی تھیں کہ شبلی کے بعض قریبی اعزہ و احباب اس خط کتابت سے آگاہ تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عطیہ کے نام خطوں کے بارے میں ان کی بہن زہرا فیضی اور زہرا کے نام مراسلت سے عطیہ فیضی مطلع تھیں، چنانچہ اس مراسلت کو خفیہ نہیں کہا جا سکتا۔ عطیہ کو بتاتے ہیں کہ ’اب تو تمھارے خطوط ایسے ہوتے ہیں کہ احباب کو مزے لے لے کر سناتا ہوں اور لوگ سر دُھنتے ہیں‘، ’میری لڑکی [فاطمہ] علاج کے لیے آئی ہے، وہ تمھارے خط پڑھ کے سخت حیرت زدہ ہوتی ہے کہ اس قابلیت کی بھی عورتیں ہوتی ہیں‘ اور ’کانفرنس تو ناگپور ہی میں ہو گی، لیکن تم ضرور الٰہ آباد آؤ۔ افسوس ہے کہ میرے خاندان کی عورتیں اس وقت وہاں نہ ہوں گی، ورنہ تم سے بڑے شوق سے ملتیں، کیونکہ تمھارااکثر تذکرہ میری زبان سے سنتی رہتی ہیں‘۔اس کے برعکس جب دوسروں کو بتاتے ہیں تو اندازِ بیان ذرا بدل جاتا ہے۔ ۷؍اکتوبر۱۹۰۸ء کے خط میں عطیہ کو لکھتے کہ ’ایک بے ریا دل، ایک مخلص دل، وفا شعار دل کی طرف سے سفر سے مراجعت کی مبارک باد قبول کرو۔ میری زندگی کا یہ سخت افسوس ناک واقعہ ہے کہ یہ مبارک باد میرے لب کے بجاے زبانِ قلم ادا کرتی ہے۔ ۔۔۔ تہنیت کی غزل الگ مرسل ہے‘۔ اسی واقعے کا ذکر مہدی حسن سے کرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ’حال میں خیر مقدم لکھا۔ ۹؍اکتوبر کو [عطیہ] لوگ بمبئی آ گئے، لیکن خیر مقدم میں جہاں جہاں اصلی رنگ اُبھرا تھا، ان پر سیاہی بھر دی‘۔ ۷؍نومبر ۱۹۰۸ء کو عطیہ کو لکھا کہ ’کل اتفاق سے مولوی مشیر حسین صاحب قدوائی ملنے آ گئے تھے، ان سے آپ کے لکھنؤ آنے کا ذکر آگیا‘۔ اس کے بعد مہدی حسن کو لکھتے ہیں:
بمبئی کا مہمان آج کل حسنِ اتفاق سے یہیں ہے۔ یہ لفظ،یعنی اس کا پہلا جزو کبھی اس سے عمدہ تر موقعے پر استعمال نہیں ہوا ہو گا؛ لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ ندوہ کے بدمزہ کاموں نے دماغ کو اس قدر ابتر کر دیا ہے کہ ایسے مواقع سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ نہ وقت، نہ دماغ؛ حسرت کا بھی اس سے بڑھ کر منظر دنیا نے نہ دیکھا ہو گا۔ ان صحبتوں میں اس کی قابلیتوں کے حیرت انگیز پہلو نظر سے گزر رہے ہیں۔اردو،فارسی، انگریزی، فرنچ، زبان دانی، مصوری، نقشہ کشی، پالیٹکس، قوتِ تحریر، ع۔۔۔ آنچہ عالم ہمہ می داشت تو تنہا داری۔۔۔ افسوس غیرت اور محبت کی کشاکش تھی، ورنہ آپ بھی وہ دیکھتے، جو مَیں کہتا ہوں۔
پھر جب عطیہ لکھنؤ سے روانہ ہو گئیں تومہدی حسن کو گزرے دِنوں کی خوش گوار یادوں کے پس منظر میں ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۸ء کو لکھتے ہیں:
محبی! ندوہ کے بدمزہ اشغال نے دل اور آنکھوں کو اپنا کام کب کرنے دیا کہ کچھ دیکھتا دِکھاتا۔ اب تک وہ خمار نہیں اُترا؛ سو سو طرح چاہتا ہوں کہ اس دام سے دو دِن کے لیے چھوٹ سکوں، لیکن اَور زیادہ الجھ جاتا ہوں۔ ٹرکی کے ارتقائی حالات کی نسبت ’سلطانِ جمال‘ کی راے بالکل عام دنیا کے مخالف ہے۔ یہاں بھی یکتائی کی شان ہے۔ ان کا خیال، بلکہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ ٹرکی ایک یورپین طاقت کا بازیچہ ہے اور یہ پتلیاں صرف بیرونی تاروں پر حرکت کرتی ہیں۔ جدید قرض نے اپنا جان ستانی کا کام انجام دیا ہے اور دیتا جاتا ہے؛لیکن باوجود، ’عبودیت‘ کے، اس مسئلے میں مَیں اب تک ’صاحبِ ایمان‘ نہیں۔ یہ ضرور نہیں کہ ’سیاست‘ اور ’حسن‘ کا ایک ہی فرماں روا ہو۔
لیکن ہر مکتوب الیہ ہم راز نہیں۔ دیگر مکتوب الیہم کو اگر کبھی کچھ بتاتے ہیں تو عطیہ کے کمالات سے متعلق ہی بتاتے ہیں۔ پروفیسر عبدالقادر سرفراز کے نام ایک خط میں عطیہ لوگوں کی اردو زبان پر دسترس کے بارے میں لکھتے ہیں۔ دو اقتباسات دیکھیے:
اس اثنا میں زہرا اور عطیہ فیضی کے بہت سے خطوط آئے اور بعض میں علمی مضامین بھی تھے۔ ان ظالموں کی اردو نویسی پر مجھ کو تعجب ہوتا ہے۔ آپ کو شاید کبھی دِکھلا سکوں۔
وہ بات [ظالموں؟] مَیں نے یونہی لکھ دی تھی، لیکن واقعی حیرت کی بات ہے۔ آپ جانتے ہیں، بمبئی میں کسی کو اردو سے مس نہیں۔ عورتیں جو کچھ سیکھتی ہیں، مردوں سے سیکھتی ہیں۔ ان عورتوں کو اردو داں کہاں ملتے ہیں، باوجود اس کے نہایت بے تکلف صحیح اردو لکھتی ہیں۔
بعض محققین کی طرف سے شبلی و اقبال دونوں پر عطیہ سے شادی کے ارادے کا امکان بھی ظاہر کیا گیا۔ شیخ اکرام نے اس شک کا اظہار کیا کہ ’مولانا [شبلی] ایک زمانے تک یہ خواب دیکھتے رہے کہ نکاحِ ثالث کے متعلق اُن کے جو ارمان تھے، شاید وہ بمبئی کی آزاد فضا میں پورے ہو جائیں‘،لیکن اس سلسلے میں وہ فقط قیاسات سے کام لیتے ہیں، کوئی دلیل پیش نہیں کرتے؛ اسی طرح مسعود الحسن کا گمان ہے کہ اقبال اور عطیہ فیضی کے درمیان ۱۹۰۷ء یا ۱۹۰۸ء میں سمجھوتا ہو چکا تھا کہ آپس میں شادی کریں گے‘، جسے خالد نظیر صوفی نے یہ کہتے ہوئے رَد کر دیا کہ اقبال عطیہ کو ایک علمی دوست کی حیثیت سے پسند تو کرتے تھے، لیکن بیوی کے رُوپ میں وہ ان کے لیے ناقابلِ قبول تھیں، کیونکہ وہ جس قسم کی بیوی کے خواہش مندتھے، وہ عطیہ بیگم سے مختلف تھی‘ اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں ’انھیں کسی ایسی خاتون کی تلاش تھی، جو ان کی بیوی کی حیثیت سے ان کے خاندان کے افراد سے ان کے گہرے تعلق اور وابستگی کو قائم رکھ سکے‘۔ دراصل شیخ محمد اکرام اور مسعود الحسن کے بیانات محض چونکا دینے کا سامان کرتے ہیں، ورنہ یہ کسی سنجیدہ تحقیقی کاوش کے نتیجہ نہیں۔
عطیہ سے تعلقات کے پس منظر میں شبلی غالباً ’تخلیقی حدت‘ کے متلاشی ہیں۔ اس سلسلے میں مہدی حسن کے نام بعض خط قابلِ توجہ ہیں۔ ۱۱؍ستمبر ۱۹۰۶ء کو بمبئی سے انھیں آگاہ کرتے ہیں کہ ’یہاں کی دلچسپیاں غضب کی محرک ہیں، آدمی ضبط نہیں کر سکتا‘۔ وہ اپالو اور چوپاٹی کی تعجب خیز سیر گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انیس برس کے بعد غزل لکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ شبلی غزل کا شعر بھی نقل کرتے ہیں:
بہر سُو از ہجومِ دلبرانِ شوخ بے پردا
گذشتن از سرِ رہ ، مشکل افتادست رہرو را
اگرچہ اس خط سے عطیہ سے شبلی کے تعلقات کا اندازہ نہیں ہوتا،لیکن ۲۶؍اکتوبر کے خط میں اطلاع دیتے ہیں کہ ’اب کے مخزن میں میری ایک غزل شائع ہوئی ہے، ۔۔۔’کافروں‘ کا ذکر اس میں بھی ہے۔ ۲؍مارچ ۱۹۰۸ء کے خط میں بمبئی کی دلچسپیوں کے نتیجے میں موزوں ہونے والی سولہ صفحات پر مشتمل ’زیادہ شوخ‘ غزلوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ ۹؍اگست ۱۹۰۸ء کو لکھتے ہیں کہ دستہ گُل کی کم مایگی پر افسوس ہے، بمبئی پہنچوں تو کچھ پھول اَور ہاتھ آئیں۔ ۴؍دسمبر ۱۹۰۹ء کو تحریر کرتے ہیں کہ ’بمبئی سے اب کے بالکل خالی ہاتھ آیا، ایک غزل کا سرمایہ بھی نہ ہو سکا‘؛ یعنی بمبئی یا بمبئی کے ’کافروں‘ سے تعلقات کا حتمی نتیجہ ’غزلوں کا سرمایہ‘ ہے۔ اس کے برعکس اقبال اپنی زندگی کے نازُک ترین دَور میں ایک جذباتی سہارے کی تلاش میں تھے، جو انھیں عطیہ کی صورت میں میسر ہوا۔ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال اور ان کی پہلی بیوی کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تو انھوں نے اس سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلے میں وہ اپنے والد کے بارے میں یہاں تک لکھ گئے کہ ’انھیں میری شادی کر دینے کا کوئی حق نہ تھا، بالخصوص جب کہ مَیں نے اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کر دیا تھا‘۔ ان حالات میں وہ ہمیشہ کے لیے ترکِ وطن ، شراب نوشی، خود کشی اور ابدی اہرمن پر ایمان لانے کی باتیں کرتے ہیں، جن سے ان کی قنوطیت اور مایوسی کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ’ذہنی اور روحانی کرب کی یہ کیفیت محض عارضی تھی اور اقبال کی غیر معمولی قابلیت کو مستقل طور پر مفلوج نہ کر سکتی تھی‘؛ جاوید اقبال کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے، کیونکہ ۱۷؍اپریل ۱۹۱۰ء کے بعد اقبال سنبھلتے چلے گئے اور غالباً سوا سال بعد ۷؍جولائی ۱۹۱۱ء کو عطیہ کو خط لکھنے بیٹھے تو اس سے ہمدردی کے طالب نہیں تھے، بلکہ بڑے اعتماد سے لکھ رہے تھے کہ ’بدنصیبی سایے کی طرح میرے ساتھ لگی رہی ہے اور اس کی اس درجہ وفاداری کی وجہ سے مجھے اس سے انس ہوتا جا رہا ہے‘۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ اس برس سردار بیگم سے اقبال کا نکاح ہوگیا (اگرچہ فوری رخصتی نہ ہو سکی)، تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ خیال زیادہ قرینِ قیاس محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی تخلیقی قوتوں کی سمت تو پہلے ہی سے متعین تھی، البتہ شعر و نثر کے لباس میں ان کے افشا ہونے کا انتظار تھا‘؛ چنانچہ مذکورہ خط میں اقبال نے عطیہ کو خبر دی کہ قبلہ والد صاحب نے فرمائش کی ہے کہ حضرت بوعلی قلندر کی مثنوی کی طرز پر ایک فارسی مثنوی [اسرارِ خودی] لکھوں۔ اقبال نے انھیں بتایا کہ ’اس راہ کی مشکلات کے باوجود مَیں نے کام شروع کر دیا ہے‘۔
عطیہ سے شبلی اور اقبال کے تعلقات کے ادبی ثمرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عطیہ نے شبلی نعمانی کے حوالے سے محض ایک تحریر ’مولانا شبلی اور خاندانِ فیضی‘ یادگار چھوڑی ہے۔ یہ تحریر دراصل ایک ردِ عمل ہے، جس میں وہ خاصی ’غضب ناک‘ دِکھائی دیتی ہیں؛ جب کہ اقبال کے بارے میں ان کے روزنامچے اور تصنیف Iqbal سے کافی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ اگرچہ اس تصنیف میں عطیہ نے اقبال کی شخصیت کو مسخ کرنے اور اقبال کی وقتی اور عارضی ذہنی پراگندگی کے بارے میں قیاسی گفتگو کی ہے، تاہم اقبال کی زندگی کے اس عرصے کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب سُودمند ثابت ہوئی ہے۔
علامہ شبلی کے بارے میں عطیہ کا پہلا تاثر یہ تھا کہ ’ہم بہنیں ان کی باتوں سے بہت متاثر اور محظوظ ہوئیں۔ اُس وقت وہ ایک پرانے خیال کے مولوی معلوم ہوتے تھے‘۔ بعد میں بمبئی کی ملاقاتوں کے بارے میں عطیہ نے لکھا کہ یہ ملاقاتیں بے تکلفانہ ہوتیں تھیں اور کبھی کبھی ان ملاقاتوں میں عطیہ کے خاندان کی اَور بیگمات بھی شریک ہوتی تھیں۔ایسے مواقع پر، عطیہ کے مطابق، ’ علمی، قومی، سیاسی باتیں ہوتی تھیں‘۔ عطیہ نے لکھا کہ ’ان ملاقاتوں میں اب وہ پہلے سے مولانا نہ تھے۔ نہایت آزاد خیال، عورتوں کی سوسائٹی میں بے تکلف شرکت کرتے تھے، رسمی ورواجی پردے کے علمی و عملی طور پر مخالف تھے۔ تعلیم نسواں کے بڑے حامی تھے۔ شعر و شاعری اور مہذب لطائف و ظرائف اور خیالات کی یکسانی سے یہ ملاقاتیں بہت دلچسپ ہوتی تھیں‘، لیکن عطیہ کے کسی بیان سے علامہ شبلی کی زندگی کے کسی اہم گوشے پر روشنی نہیں پڑتی؛ البتہ منشی محمد امین زبیری کی تحریک پر معرض تحریر میں آنے والے مذکورہ ’وضاحت نامے‘ میں عطیہ نے شبلی کی شخصیت سے متعلق بعض ناگفتنی ضرور لکھ دیں۔
جہاں تک اقبال سے عطیہ کے مراسم کے علمی نتائج کا تعلق ہے، عطیہ کہتی ہیں کہ ’اقبال کے بارے میں میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ وہ ذہنی پیچیدگی کا شکار ہیں، اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہیں، اُن کی زندگی کا محور اُن کی اپنی ذات ہے اور وہ اپنے نظریات کو اہمیت دینے کے شوقین ہیں‘، لیکن کچھ دیر تک باہم گفتگو کے بعد انھیں اندازہ ہوا کہ ’اقبال فارسی اور عربی کے علاوہ سنسکرت میں بھی اچھی دست گاہ رکھتے ہیں‘ اور یہ کہ ’اقبال کو حسب خواہش اپنے تئیں دلچسپ اور خوش گوار بنانے کا ڈھنگ خوب آتا تھا۔ سوسائٹی میں وہ بہت زندہ دِلی کا ثبوت دیتے تھے اور حاضر جوابی میں یا تعریف کرنے میں وہ کبھی نہیں جھجکتے تھے، اگرچہ بسا اوقات ان کے مذاق میں طنز کا رنگ نمایاں ہوتا تھا‘۔ اس پر مستزاد وہ اہم ترین واقعات ہیں، جو محض عطیہ سے تعلقات کے باعث محفوظ رہ گئے۔ ان میں تین زیادہ اہم ہیں، یعنی کابل سے آنے والے قافلے کے ایک مسافر کا علاج معالجہ اور اس کی شفایابی، اقبال کی پہلی شادی کے باعث رونما ہونے والی تلخی اور اس کے زیرِ اثر اقبال کے انتہائی مایوس کن خیالات اور اقبال کی سیاحتِ قرطبہ کے دَوران ان کی سیکرٹری کے خیالات میں حیرت انگیز تغیر۔ مذکورہ بالا تصنیف کے آخری صفحات میں عطیہ نے اگرچہ اقبال کی جینئس کے دب جانے اور ان کی ذکاوت، طباعی اور آب و تاب کو گھن لگنے کی بات کی ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے:
Iqbal's method of thinking was different from the rest of the known writers of the world, and I can only say that the root cause of this distinction lay in the knowledge he had absorbed from the Quranic teaching. I will not say that he fully realized the internal meaning that lies underneath the words of the Quran, but he certainly based many of his ideas on this holy and inspired structure and was the richer for such knowledge.
[اقبال کا تخیل دنیابھر کے دوسرے مصنّفین کے مقابلے میں بالکل اچھوتا تھا اور مَیں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ اس امتیاز کی بنیادی وجہ اس علم میں مضمر ہے، جو انھوں نے قرآنی تعلیمات سے اخذ کیا تھا۔ مَیں یہ نہیں کہوں گی کہ انھوں نے قرآنی الفاظ کے حقیقی مفہوم کا کُلی طور پر احساس کر لیا تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے بہت سے خیالات کی بنیاد اس مقدس اور الہامی کتاب پر رکھی تھی اور اسی علم کی بدولت ان میں زیادہ شان پیدا ہو گئی تھی۔]
مذکورہ بحث، اکابر میں سے کسی کو فوقیت دینے کے لیے نہیں،بلکہ عطیہ کی ذہنی افتاد کے مقابل شبلی و اقبال کی شخصیات کا جائزہ لینے کے لیے ہے۔ سید شہاب الدین دسنوی کے خیال میں عطیہ نے شبلی اور اقبال، دونوں کو اپنے ادبی اور علمی ذوق سے متاثر کرنے کی کوشش کی اور وہ کوشش کامیاب بھی رہیں، اسی طرح وہ سرعبدالقادر اور مولانا ابوالکلام آزاد، سب کو بیک وقت اپنی صلاحیت، آزاد خیالی، بیباکی اور ثقافتی دلچسپیوں سے مرعوب، بلکہ متاثر کرنے میں لگی رہتی تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شبلی و اقبال، عطیہ کے اس حصار سے رہائی پاسکے یا نہیں؟
عطیہ سے شبلی کی پہلی ملاقات ۱۹۰۶ء میں ہوئی اور ۱۱؍مئی ۱۹۱۱ء تک ان سے خط کتابت جاری رہی۔ یہ اَور بات ہے کہ آخری خط تک تعلقات کی نوعیت اتنی مختلف ہو چکی تھی کہ ۔۔۔ اس ستم ظریفی کو دیکھیے، مہینا بھر بمبئی میں رہیں اور مطلق خبر نہ دی۔۔۔۔ اس کے بعد عطیہ کے نام شبلی کا کوئی خط نہیں ملتا اور نہ ملاقات کی خبر ملتی ہے، لیکن اس خاندان سے شبلی کے روابط برابر استوار رہے۔ ۱۹۱۲ء اور ۱۹۱۴ء کے دورۂ بمبئی میں زہرا فیضی، شبلی کو کھانے پر مدعو کرتی رہیں اور شبلی اسے قبول کرتے رہے۔ ۵؍اگست ۱۹۱۴ء کو شبلی کے بھائی مولوی محمد اسحاق کا انتقال ہو گیا تو وہ اس صدمے سے نڈھال ہو گئے، تاہم زہرا کے نام ۱۳؍اکتوبر ۱۹۱۴ء کے ایک خط میں عطیہ کو یاد کرتے ہیں:
آہ، کیا لکھوں! مَیں اب کسی کام کا نہیں رہا۔ برادرِ مرحوم کی وجہ سے مَیں آزاد پھرتا تھا اور جہاں چاہے، رہتا تھا؛ اب وطن سے نکلنا محال سا ہو گیا ہے۔ مرحوم گھر بھر کا چراغ تھا اور سب کاروبار اُس کی بدولت چلتا تھا۔ آپ لوگوں کے دیکھنے کو ترسوں گا۔ کاش! آپ یا عطیہ کبھی یہاں آتیں اور دس پانچ دِن اس ویرانے میں بسر کرتیں۔ عطیہ اگر آجائیں تو بہت سلامِ شوق کہیے اور کہیے کہ کاش! وہ میرے گھر آکر تعزیت کرتیں کہ دل کو تسکین ہو سکتی۔
یعنی وفات (۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ء) سے تقریباً ایک مہینا پہلے تک شبلی کی تحریروں میں عطیہ کا ذکر ملتا ہے؛ گویا انچاس برس کی عمر میں عطیہ سے پہلی ملاقات سے ستاون برس کی عمر تک شبلی کے دل میں ان کی یاد باقی رہی۔
اقبال کی عطیہ سے پہلی ملاقات یکم اپریل ۱۹۰۷ء کو ہوئی، لیکن دو ہی برس کے بعد تعلقات نے وہ رنگ اختیار کیا کہ اقبال کو ’صفائیوں‘ اور ’وضاحتوں‘ سے گزرنا پڑا، لیکن عطیہ کی ناراضی کی لَے بتدریج بلند ہوتی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ ۷؍اپریل ۱۹۱۰ء کو لکھا گیا خط تعلقات کو خوش گوار رکھنے کی آخری کوشش تھی، کیونکہ ۷؍جولائی اور ۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء کے خطوط سابقہ تعلقات کا تسلسل نہیں کہے جاسکتے۔ حیرت ہے کہ رسمی تعلقات سے قطع نظر اقبال نے اپنی کسی تحریر، تقریر یا گفتگو میں عطیہ سے ملنے اور کسی موقع پر اسے پکارنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر بمبئی میں عطیہ اور اقبال کی تین مرتبہ ملاقات ہوئی بھی تو اُس وقت، جب عطیہ نے رحمین سے شادی کر لی تھی؛ اور یہ بھی یاد رہے کہ اُن دِنوں یورپ جانے کے لیے بمبئی ہی سے گزرنا پڑتا تھا۔

ڈاکٹر خالد ندیم
About the Author: ڈاکٹر خالد ندیم Read More Articles by ڈاکٹر خالد ندیم: 15 Articles with 45046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.