تربیتِ اولاد

تحریر:بنت عبدالغفور ،راولپنڈی
والدین اﷲ تعالٰی کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہیں جو خود تکلیفیں سہہ کر اپنی اولادکو خوشیاں فراہم کرتے ہیں۔اپنی اولاد کے لیے ہر ایک دکھ, بڑے سے بڑے غم کو بھی باخوشی سہہ لیتے ہیں۔تکلیف بچے کو ہو تڑپتے ماں باپ ہیں۔مجھے یاد ہے جب میں چھٹی جماعت میں تھی بیمار ہو گئی تھی۔شدت کی گرمی تھی ،اور شادی پہ جانا تھا میں نے بھی ضد کی اور ابو امی ساتھ لے گئے۔ بخار تیز تھا شدت گرمی میں بھی سردی لگ رہی تھی گاڑی میں اے سی آن تھا ۔جاتے وقت بھی امی ابو نے اتنی گرمی کو برداشت کر لیا، میرے کہنے پر اے سی بند کر دیا۔واپسی پر میری وہی حالت ساتھ میرے ماں باپ نے بھی گرمی برداشت کی۔
ماں باپ خود تکلیفیں برداشت کر کے، خود گیلے بستر پر سو کر بچے کو نرم اور سوکھے بستر پر سولاتے ہیں۔ خود زمانے کی دھوپ برداشت کرتے ہیں اوربچوں کو بچاتے ہیں۔وہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے ماں باپ کو آنکھیں دکھانے لگ جاتا ہے،ان کی دی ہوئی ہر قربانی ان کی ذمہ داری سے موسوم کردیتا ہے۔ـاس ضمن میں بارہا سنا گیا ایک واقعہ یادآرہاہے، ـ’’باہر ممالک میں ایک خاتون تھی ان کا ایک بیٹا تھا۔اس عورت نے بہت محنت کر کے بہت مشکلیں برداشت کر کے اس کی پرورش کی، جب وہ بچہ بڑا ہوا اس نے ایک کتا پالا ہر وقت اس کتے کے ساتھ وقت گزارتا۔ کبھی ماں کے پاس بیٹھنا تو دور کی بات دیکھتا بھی نہ ماں بیٹے کو دیکھنے کے لیے ترستی رہتی لیکن بیٹا اپنا سارا وقت اس کتے کے ساتھ گزارتا۔ایک دن ماں نے بیٹے سے شکایت کی کہ تم میرے پاس آتے نہیں ہو تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جایا کرو، تو بیٹے نے جواب دیا، میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں جو آپ کے ساتھ گزاروں۔ماں نے عدالت میں بیٹے پر مقدمہ کروا دیا کہ بیٹا مجھے وقت نہیں دیتا،مجھ سے بات نہیں کرتا ہر وقت کتے کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ عدالت اسے حکم دے کہ یہ اپنے وقت کہ تین حصوں میں سے ایک حصہ اپنی ماں کے ساتھ گزارا کریے،تو سنیے ! عدالت نے کہا، کہ نوجوان بالغ ہے وہ اپنا اچھا برا جانتا ہے، یہ جس طرح رہے ہم اس پر کوئی حکم عدالت کی طرف سے صادر نہیں کر سکتے‘‘۔

آج ماں باپ کا جو مقام و مرتبہ تھا وہ گم ہو گیا، وہ محبت، ادب اور احترام باقی نہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ میں یہ نہیں کہوں گی اس میں قصور والدین کا ہے، یا بچے کا اس میں قصور والدین کا بھی، بچے کا بھی، میڈیا کا بھی اور بری صحبت کا بھی ہے کہ قطرہ قطرہ مل کردریا بنتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کدھر جا رہی ہے ، نہ اس بات پر والدین فکرمند ہیں نہ اولاد۔ان کی پرورش اگر بچپن سے ہی شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہوتی تو حقیقت میں کوئی بھی والدین نافرمان اولاد کا رونا نہ روتے، اگر بچپن سے ہی ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل جیسے مواد سے دور رکھتے توآج بد زبانی نہ ہوتی، بے حیائی نہ ہوتی ، ہماری نسلِ نو یوں بے راہ روی کا شکار نہ ہوتی۔بری صحبت، میڈیا کے غلط استعمال سے بچنے کی اگر شروع سے روک تھام کی جاتی تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ اولاد کوئی بچہ ،بچی بڑے ہو کر اﷲ کے نافرمان، نبی کے نافرمان یا والدین کے نافرمان ہوتے۔

الزام اوروں کو دیتے ہیں قصور اپنا نکل آیا۔اکثر میں مثال دیتی ہو کہ دیکھیے اگر کسی زمین میں ہم گندم کی راہی کریں گے تو ایسا نہیں ہے کہ بڑی ہو کر پک کر وہ مکئی یا جوار نکلے ٹھیک اسی طرح اگر بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی دینی تربیت بھی بچپن سے کی جائے شرعی حدود کے مطابق تو ایسا ہرگز نہیں کہ بڑے ہو کر وہ ماں باپ سے منہ موڑ لیں یا نافرمان بن جائیں گے۔ دین اسلام کی تعلیمات کو صرف کتابوں کی حد تک محدود کردیا گیا ہے اور جواب ملتا ہے جی زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا پڑتا ہے۔ تربیت بہت ضروری ہے، ماں باپ کے توجہ، ان کے پیار کا لمس ، ان کی ڈانٹ، ان کا پوچھنا،سمجھانا، سکھانا، پڑھانایہ آج کہیں نظر نہیں آتا یہاں تک کہ کچھ دنوں کا چھوٹا سا معصوم سا بچہ اسے بھی ایک آیا کے حوالے کر دیا جاتا ہے تو بتائیے اولاد کیسے نیک بنے گی؟ کیسے وہ اپنے والدین کا فخر، مان بنے گی کیسے وہ فرمانبردار بنے گی جب کہ اس کی ماں اس کی پرورش کی ذمہ داری اٹھانے پر راضی نہیں۔

جو چیزیں دینی چاہیں تھی وہ والدین نے دی نہیں،جو بچے کو کرنا چاہے تھا وہ بچہ ان کو چھوڑ کر کسی اور طرف بھاگ رہا ہے تو کیسے بنے گا وہ طارق بن مسعود،صلاح دین ایوبی، امام شافعی، فضیل بن عیاض، یہ ایسے ہی رحمتہ اﷲ کے منصب پر فائض نہیں ہو گے ۔ان کے پیچھے ان کے والدین کی تربیت تھی یہ ولی اﷲ بن گئے۔ماں کہتے کسے ہیں ممتا کیا چیز ہے پوچھو ان سے جا کہ جو ممتا سے محروم ہیں، جو ماؤں کے آنچل کے سائے تلے سونے کو تڑپتے ہیں۔ماں کی محبت کو ترس رہے ہیں ، والد صاحب کے پاس بیٹھنے کو ان سے مشورہ کرنے کو ان کے ساتھ اپنی باتیں شئیر کرنے کو لیکن کہا ں وقت ہے آج کہ والدین کے پاس ایک الگ دنیا بنائی ہوئی ہے بچوں نے والدین نے، لیکن آج کے والدین کو کیا پتا کہ اولاد کو صرف پیسے کی نہیں،آسائش کی نہیں ، عمدہ سے عمدہ گھر بار یا گاڑی کی نہیں ان سب کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ ،پیار،ملن کی ضرورت ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے،
ہم تربیت و اصلاح سے غافل ہوگئے
ہم امت مسلمہ دنیا میں کھو گئے
خوف خدا نہ رہا ہم میں
ہم خود میں ہی بس کھو گئے

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.