قانون شکنی کا بڑھتا ہوا رجحان

قانون اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے ۔اگر قانون پر عمل نہ ہو تو انسانی معاشرہ بھی جنگل کا روپ دھار جاتاہے ۔ اس وقت یہی صورت حال پاکستانی قوم کو درپیش ہے ۔ چھوٹا ہو یا بڑا کوئی بھی قانون کا احترام نہیں کرتالیکن اپنے حقوق کے لیے دوسروں پر الزام تراشی ضرور کرتا ہے ۔ اگر ایک دو فرد قانون شکنی کریں تو انہیں سمجھایا جاسکتا ہے اگر 22 کروڑ لوگ ہی قانون شکن بن جائیں تو پھر وہ قوم نہ قابل اصلاح ہوتی ہے ۔ اس وقت جس قوم کے مزاج کو درست کرنے کا ذمہ عمران خان نے اٹھا لیا ہے ‘ عوامی رویوں کو دیکھتے ہوئے کامیابی کی امید بہت کم دکھائی دیتی ہے ۔ اس حوالے سے چند واقعات کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ایک شخص کوڑے کا بھرا ہوا شاپر سڑک کے عین درمیان پھینک کر جب چلنے لگا تو میں نے اسے روک کرپوچھا۔کیایہ کوڑا آپ فلتھ ڈپو میں جاکر نہیں پھینک سکتے ‘ آپ کے علم میں نہیں کہ جس طرح آپ کوڑا عین سڑک کے درمیان میں پھینک جارہے ہیں اگر سارے محلے والے بھی یہی کام کریں تو پھر صورت حال کیا ہوگی کیا ہم اس تعفن بھری فضا میں سانس لے سکیں گے ۔ابھی میں اس شخص کو سمجھا ہی رہا تھا کہ ایک تین منزلہ مکان کی کھڑکی کھلی اور بالٹی میں بھرا ہوا کوڑا اس طرح ہمارے سروں پر آ گرا جیسے کسی زمانہ میں جہاز سے اشتہاری پرچیاں گرائی جاتی تھیں۔ میں نے اوپر دیکھا تو ایک بزرگ عورت غصے سے مجھے گھور رہی تھی ۔ایک شام میں شامی رو ڈلاہور کینٹ کے ایک چوراہے پر کھڑا سگنل گرین ہونے کاانتظار کررہاتھا ۔ مجھ سے آگے کئی بے تاب نوجوان موٹر سائیکل پر سوار کھڑے تھے ‘ جیسے ہی اشارہ یلیو ہوا تو پوری رفتارسے موٹر سائیکل دوڑا دی ۔ دوسری جانب ایک کار والا رکنے کی بجائے غلط انداز میں سڑک عبور کرنے کی کوشش میں تھا۔پھر وہی ہوا جو ایسے مواقعوں پر ہوتا ہے۔ چند ہی لمحوں میں دو نوجوان خون میں لت پت سڑک پر تڑپ رہے تھے ۔ یہ حادثہ اس قدر خوفناک تھاکہ مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا بائیک کے پیچھے بیٹھی میری بیگم کہنے لگی اگر اشارہ کھلنے کا اطمینان سے انتظار کرلیتے تو وہ نوجوان حادثے سے بچ سکتے تھے لیکن جوان خون جو رگوں میں دوڑرہا ہوتا وہ کہاں سکون لینے دیتا ہے ۔ قانون کا احترام تو الگ بات ہے ہم جلد بازی کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ زندگی کو ہی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ون وے سڑکوں پر ایسے بے شمار قانون شکن افراد کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کو شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار چا لان کرتے کرتے تھک جائیں گے لیکن ہماری قوم نے اپنی روش تبدیل نہیں کرنی ۔ جہاں بھی جائیں یہی تماشہ نظر آتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہاہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاگل خانے کا دروازہ کھل گیا اور جدھر کسی کا منہ آتا ہے دوڑتا پھرتا ہے۔ میں کیولر ی گراؤنڈ پارک میں صبح واک کے لیے جاتا ہوں ۔یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ جہاں چالیس پچاس موٹرسائیکلیں آسانی سے کھڑی ہوسکتی ہیں وہاں چند بے تکے لوگ اپنی بائیک کو اس انداز سے کھڑی کرتے ہیں کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ نہ ہی ملے ۔ قانون شکنی کا گراف اس قدر بلند ہوچکا ہے کہ جہاں پارکنگ کرنا منع ہے وہیں بے شمار گاڑیاں پارک دکھائی دیتی ہیں۔" یہاں ہارن بجانا منع ہے" اسی مقام پر ہارن بجا ہماری قوم قانون کا تمسخر اڑاتی دکھائی دیتی ہے ۔ ہمارے علم میں ہے کہ پرانے ٹائروں کا دھویں آلودگی پھیلانے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے ۔جب ہم احتجاجی مو ڈ میں ہوتے ہیں تو سب سے پہلے سڑک کے درمیان میں رکھ کر پرانے ٹائروں کو نہ صرف آگ لگاتے ہیں دور دور تک زہرآلود دھواں پہنچانے کا فرض بھی خوب ادا کرتے ہیں ۔احتجاج تو ختم ہوجاتا ہے لیکن فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ انسانی سانس میں گیا ہوا دھواں مختلف بیماریوں کا سبب بن جاتاہے ۔ شاہراہ قائداعظم ریڈ زون قرار پاچکی ہے جس پر گندگی پھیلانے ‘ تھوکنے کی سزا اور جرمانے کا بھی اعلا ن ہوا ۔ اس شاہراہ پر جلسے اور جلوسوں کی پابندی تو بہت پرانی بات ہے ۔لیکن یہ سب کچھ کتابوں تک محدود ہے ۔سیاسی قائدین ہوں یا ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن سب کو یہی سڑک اچھی لگتی ہے۔یہ سب کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے ہوتا ہے مجال ہے کوئی روکنے کی ہمت کرے ۔میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسا قانون بنایا ہی کیوں جاتا ہے جس پر عمل درآمد نہ کروایاجاسکے ۔ کنٹونمنٹ بورڈ نے بہترین فلش سسٹم والا باتھ روم ‘ کیولری پارک میں نیا تعمیر کیاہے ۔ جب بھی اس باتھ روم میں جانے کااتفاق ہوا تو دل گرفتہ ہو کر واپس آنا پڑا ۔ گھاس پر ننگے پاؤں چلنے والوں کو اتنی تمیز نہیں کہ وہ ایک صاف ستھرے فرش کو اپنے پاؤں کی مٹی اور گھاس کے تنکوں سے خراب کر جاتے ہیں ۔ رفع حاجت کے بعد پانی بہانا توہین سمجھ لیاجاتاہے۔موبائل رابطے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اکثریت ڈرائیونگ کے دوران موبائل سننے کا جنون کی حدتک شوق رکھتی ہے ‘جان جاتی ہے تو جائے لیکن کوئی کال اور مسیج مس نہیں ہونا چاہیئے ۔قانون کے محافظ بھی بائیک کے پیچھے اپلائیڈ فار 2010ء کر سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں۔جبکہ ایک بائیک پر تین تین پولیس والے جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ سڑک ابھی بنتی نہیں کہ اسے توڑنے کا کام شروع ہوجاتاہے ۔ دوبارہ سڑک ہموار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔جس کا جہاں جی چاہتا ہے سپیڈ بریکر بنا کر دوسروں کے لیے اذیت کا سامان کرتا ہے ۔ گویا ہم پاکستانیوں کی نظر میں سڑک کھودنا ‘ کوڑا پھینکنا ‘ بے ترتیب پارکنگ کرنا ‘ بغیر نمبر پلیٹ گاڑی چلانا ‘ دوران ڈرائیونگ موبائل سننا‘ پرانے ٹائروں کو آگ لگاکرماحول خراب کرنا کوئی جرم نہیں رہا ۔اس قانون شکن قوم کو اﷲ ہی ٹھیک کرے گا تو شاید ٹھیک ہوجائے وگرنہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں لگتی۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.