آنجہانی کلدیپ نیرّ کی تعزیتی نشست میں حسن کمال صاحب نے
خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈرنے والے ہی ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں‘۔
یہ جملہ انسانی حقوق کے کارکنان کی حالیہ ملک گیر گرفتاریوں پر صد فیصد
صادق آتا ہے ۔ حکومت کے عالمِ خوف کا ثبوت واٹس ایپ کے بے ضرر پیغامات کی
بنیاد پر ہونے والی گرفتاریوں ہیں ۔ ماہِ مئی میں ممبئی پولس نے بی جے پی
کے کارکن کی شکایت پر گورے گاوں کے انکیت پاٹل اور اشتہاروں کے فلمساز رام
سبرامنیم کو گرفتار کیا۔ ان لوگوں پر سماجی رابطے کی سائیٹ میں ایسا مواد
ڈالنے کا الزام تھا جو شکایت کنندہ کی نظر میں قابل اعتراض ہے۔ اس سے
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی توہین ہوتی ہے۔ان بیچاروں پر تعزیرات ہند کی
دفعہ ۱۵۳ (اے) ، ۵۰۰،۵۰۳، ۵۰۵، ۵۰۶، ۵۰۹ اور ۶۷ کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
عدالت تو انہیں جلد یا بدیررہا کردےگی لیکن اس وقت تک انہیں نہ جانے کس کس
خواری سے گزرنا ہوگا؟ اس طرح کا اقدام اگر بھکتوں کے خلاف ہونے لگ جائے تو
جیل تنگ ہوجائے گی اس لیے کہ لاکھوں رضا کار دن رات اس کارِ خیر میں جٹے
ہوئے ہیں۔ ویسے جو سرکار سوشیل میڈیا کی لہر سے منتخب ہوئی ہو اس کا یہ
اقدام شدید خوفزدگی کی علامت ہے۔
اس طرح کی بدحواسی کس طرح نقصاندہ ثابت ہوتی ہے اس کی مثال میرٹھ میں
سامنےآئی۔ ۱۵ اگست کو لال قلعہ سے وزیراعظم نے خواتین کو انصاف دلانے اور
ان پر ظلم کرنے والوں کو سخت سزا سنانے کی دھمکی تو دی لیکن اس سے بے نیاز
سردھانا کے۶ نوجوانوں نے۱۷ اگست ۲۰۱۸ کویوگی راج میں ایک ۱۴ سالہ لڑکی کو
جلا دیا جو فی الحال زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب
لڑکی کا باپ ایک ملزم کے گھر شکایت کرنے کے لیے گیاہوا تھا ۔اس سانحہ پر
ویاپار منڈل کے گروپ میں ایک طنزیہ پیغام آیا جس سے آگ بگولا ہوکر بی جے
پی کے مقامی صدر ونود جین نے اعجاز اور انس کے خلاف پولس میں شکایت درج
کرائی کہ ملزمین نے رکن اسمبلی سنگیت سوم اور اٹل بہاری واجپائی کی توہین
کی ہے۔ مذہبی اشتعال انگیزی کے علاوہ ہندووں کےجذبات کو ٹھیس پہنچائی
نیزجہاد پر ابھارا جو امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ملک و قوم کو اس میسیج
سے کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے کہ ہمارے سیاستدانوں کی کرسی کو جب بھی خطرہ
لا حق ہوتا ہے تو یہ اسے قومی خطرہ قرار دے دیتے ہیں۔ بقول حبیب جالب؎
وطن کو کچھ نہیں خطرہ ، نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
آئیے دیکھیں کہ آخر اس نام نہاد قابلِ اعتراض پیغام میں کیا میں لکھا تھا؟
’’ گمشدہ کی تلاش ۔ سنگیت سوم ، ودھایک (رکن اسمبلی) سردھانا، میرٹھ ۱۵
اگست ۲۰۱۸ سے لاپتہ ہے۔ تم لوٹ آو اور بھارت میں رہو۔ سردھانہ کے کیس میں
آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ آپ کیوں ٹینشن لے رہے ہیں ودھایک جی؟وہ آپ
کی بیٹی نہیں تھی۔ آپ کو صرف ووٹ ہی چاہیے۔ تم سماج کے لیے کلنک ہو۔
پہنچانے والے کو ۱۰۱کا انعام ملے گا۔ نہ کوئی تمہارا سینہ ناپے گا‘‘۔اس
پیغام کو پولس پڑھتی اور سمجھتی توہنس کر نظر انداز کردیتی لیکن آج کل کی
پولس صرف اوپر والوں کا آدیش سنتی اور مانتی ہے ۔ اس لیے جانچ پڑتال کے
بغیر دونوں ملزمین کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان میں سے ایک مزدور اور دوسرا
طبی کالج کا طلب علم ہے۔ ملزمین کے اعزہ کا دعویٰ ہےکہ ان لوگوں نے وہ
پیغام کے خالق نہیں ناشر تھے۔ پولس نے بنانے والے کو چھوڑ کر بھیجنے والے
کو گرفتار کرلیا ۔ وہ معذرت کرنے کی خاطر سنگیت سوم کے پاس گئے تو اس نے
ہاتھ پیر توڑنے کی دھمکی دےدی لیکن ایم ایل اے پر مقدمہ چلانے کے لیے گورنر
کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
اس پیغام میں جہاد اور واجپائی کہاں ہیں یہ ونود جی بتا سکتے ہیں جنھوں نے
شکایت کی۔ ہندووں کی توہین اور اشتعال انگیزی کا پتہ لگانے کے لیےکوئی محقق
کی درکارہے۔اس میں قومی سلامتی کو درپیش خطرہ کے علاوہ جذبات کو ٹھیس
پہنچانے کے لیےمذہبی مقامات اور مذہبی اشیاء کی بے حرمتی کا سے آئی اس کا
پتہ لگانے کے لیے بابا رام دیو کو بلانا پڑے گا۔ ایک معمولی پیغام سے وہی
ڈر سکتا ہے جس کے اندر خوف کا ٹھاٹیں ماررہا ہو۔ اس حماقت سے سنگیت سوم کی
جو بدنامی میرٹھ اور سردھانا تک محدود تھی وہ اخبارات و رسائل کے ذریعہ
ساری دنیا میں پھیل گئی ۔ ایسے میں اس کو پھیلانے کے بجائے نظر انداز
کردینا زیادہ مفید تھا ۔ جو غلطی سوم اور اس کے ساتھیوں نے میرٹھ میں کی
اسی کا اعادہ مودی اور فردنویس سرکار نے حقوق انسانی کے کارکنان کی گرفتاری
سے کردیا۔ ان کا اصلی چہرہ ظاہرہوگیا ۔ اس معاملے میں گرفتار شدگان تو بہت
جلد باعزت بری ہوجائیں گے مگرسرکار کے ماتھے سے کلنک آسانی سے نہیں مٹے گا۔
ممبئی کی زبان میں اس کو کہتے ہیں ’ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ
آنہ‘ ۔ جو لوگ اپنی اوچھی حرکتوں سے عوام ڈرانا دھمکانا چاہتے ہیں تو سن
لیں؎
ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے ، نہ جھک سکے گا
جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے یہی خطا کل سبھی کریں گے |