آزادکشمیر میں کوٹہ سسٹم کے غلام اور دریا دوست بچے ؟

آزادکشمیر میں کوٹہ سسٹم کے غلام اور دریا دوست بچے ؟

ہمارے سماج میں علاقہ برادری ‘ کنبہ ‘ زبان ‘ مہاجر ‘ مقامی ‘ ضلع ‘ تحصیل اور نظام میں کوٹہ زکوٰۃ امداد سکیم اونچ نیچ کے یاجوج ماجوج راج کرتے چلے آ رہے ہیں اور سماج نظام کے قلب ذہن کو مفلوج کیے ہوئے ہیں اگرچہ ایک کے بعد دوسری ‘ تیسری ‘ چوتھی ‘ قومی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ سماجی میڈیا کے روابط آگاہی نے بہتری کے امکانات پیدا کیے ہیں مگر بلدیاتی نظام طلبہ یونین جماعتوں اداروں میں سٹڈی سرکلز سیکھنے سکھانے کے عوامل اپنی موت مار دیے جانے کے بعد سے یاجوج ماجوج کی جڑیں اس قدر گہری ہو کر سب کو اپنے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں جو بھی ان کو اکھیڑنے کی کوشش کرتا ہے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ہے کیوں کہ یہاں ہر خاص عام اسلام آئین ‘ قانون ‘ اخلاق ‘ اُصول اچھائی دوسرے میں دیکھنا چاہتا ہے اور اپنی باری آ جائے تو تعلق واسطہ سمیت مصلحت مجبوری سب پر بھاری پڑ جاتی ہے ‘ ہمارے سب سے تعلقات اور مفادات سب اسلام اُصول ضابطوں ‘ اجتماعی مفاد پر بھاری اور محبوب ہیں جس کا خمیازہ ہے کہ ایم ایل اے کا بیٹا ‘ ایم ایل اے اور آفیسر کا بیٹاآفیسر جبکہ کلرک کا بیٹا کلرک اور نائب قاصد کا بیٹا ‘ نائب قاصد بننے کی سوچ سے آگے نہیں نکل سکتا ہے یہ حال سماج کے اوپر سے نیچے تک ہر ادارے شعبہ میں ہے اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار سرکاری نظام میں ملازمتوں کا کوٹہ ہے ‘ کشمیری مہاجرین 1990 کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان یہاں ضلع تحصیل اور غیر اعلانیہ برادری کنبہ یاجوج ماجوج امراض کا محافظ فرعون بنا ہوا ہے جس کے ساتھ طبقاتی تعلیمی شاپنگ سینٹرز شاپس قارون کا پردہ ڈالے ہوئے ہے ‘ سماج نظام میں جو جس کی سوچ ورثے میں ملی ہے اس سے آگے کی سوچ ہی نہیں سکتا اور مقابلے کے بجائے کنواں کے مینڈک بن کر الحاق ‘ خود مختاری ‘ اقتدار ہو تو زندہ باد نہ ہو تو مردہ باد سمیت مختلف نعروں ‘ دعوؤں کے جنجال میں بے وقوف بنانے اور بننے کا سلسلہ عروج پر ہے جو 70 سال سے چلا آ رہا ہے ‘ محروم طبقات کو انصاف ‘ میرٹ ‘ اہلیت ‘ مقابلے کی عقابی روح بننے سے روک کر غلام بنائے ہوئے ہے ‘ کیا ایسے سماج نظام کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی بات کرنے کا حق ہے جو خود ’’اوپن میرٹ‘‘ انصاف ‘ اہلیت اور جیت کر اقبال کا شاہین بننے سے خوفزدہ بزدلوں کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہے ان کو تو اپنے شہر ‘ اپنے ماحول کے لیے پلے کارڈ اُٹھائے بچوں کو دیکھ کر بھی شرم نہیں آتی‘کیوں کہ ان پر ان کے اندر رچی بسی بے شرمی کا حکم چلتا ہے ۔ جس کا اظہار شاعر جاوید اختر نظم بعنوان حکم میں اس طرح کرتے ہیں ۔
کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے کدھر جا رہی ہیں
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہو گا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب فصلیںیہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن یہ سبھی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہر یں زرہ یہ سرکشی کم کر لیں اپنی حد میں ٹھہریں
اُبھرنا پھر بکھرنا اوربکھر کر پھر اُبھرنا غلط ہے انکا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہو گی یہ وحشت تو نہیں برداشت ہو گی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہناتو ان کو ہو گا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے اس گلستان میں بس ایک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے گلستان کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناًپھول ایک رنگی تو ہوں گے مگر یہ رنگ ہو گا کتنا ہلکاکتنا گہرا یہ افسر طے کریں گے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
گلستان میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے
کبھی ہو ہی نہیں سکتے کہ ہر ایک رنگ میں
چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہے تھے
ان کو زرہ دیکھو کہ جب ایک رنگ میں سو رنگ
ظاہر ہو گئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشان ہیں کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں ہتھکڑیوں قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہو ہی روکیں جائیں ہی تو دریا کتنا بھی پرسکون
بے تاب ہوتا ہے اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 132056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.