ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلہ کا انعقاد اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

جب کوئی قوم خود کو خدائی تعلیمات اور وحی الہی سے آزاد کرلیتی ہے تو وہ کسی بھی نچلی سطح پر آسکتی ہے اور ایسی قوم کے افراد سے انتہائی گھناؤنے اور ننگِ انسانیت حرکات کا صدور نا ممکن نہیں، مغربی اقوام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہیکہ انہوں نے خود کو بے خدا تمدن کے حوالے کردیا ہے ،کہنے کو وہ یہود و نصاری اور اہل کتاب کہلاتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ خدا بیزار ربانی تعلیمات سے متنفراور نبوت و انبیاء سے دور ایسی اقوام ہیں جن کا آسمانی تعلیمات سے کوئی رشتہ باقی نہیں ،موجودہ مغربی تمدن دراصل وحی الہی سے محروم تمدن ہے جس میں پروان چڑھنے والوں کی نگاہ میں خدا و رسول اور آسمانی صحائف کی کوئی عظمت باقی نہیں رہتی یہی وجہ ہیکہ ایسے بے خدا تمدن کے پروردہ افراد کبھی انبیائے عظام کی شان میں گستاخی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی انہیں آسمانی صحیفوں کو نذرِ آتش کرتے دیکھا جاتا ہے ،اس پر طرہ یہ کہ وہ انبیاء کے ساتھ تمسخر کو اظہارِ آزادی کا نام دیتے ہیں ۔

ویسے یہودی روزِ اول سے گستاخ واقع ہوئے ہیں،حضرت موسیؑ کے زمانے میں انہوں نے اﷲ تعالی کی شان میں تک گستاخی سے دریغ نہیں کیا تھا،بنی اسرائیل نے حضرت موسیؑ سے یہاں تک مطالبہ کیا کہ آپ ہمیں کھلے عام اﷲ تعالی کو دکھلایئے ، قرآن کے بیان کے مطابق یہودیوں نے اﷲ کی شان میں یہاں تک گستاخی کی کہ اﷲ کو فقیر و محتاج قرار دیا یہ وہ بد نصیب قوم ہے جس نے حضرت موسی ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر پر گھناؤنے الزام لگائے اور انہیں ذہنی اذیت پہنچائی ،رب کائنات نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے تاکید فرمائی کہ تم بنی اسرائیل کی طرح مت ہوجاؤ جنہوں نے حضرت موسی کو اذیت پہنچائی ،یہودیوں کی انبیاء کی شان میں گستاخی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے متعدد انبیاء کرام کو قتل تک کردیا ، قرآن مقدس میں ایک سے زائد مقامات پر ان کے اس سنگین جرم کا ذکر کیا گیا ہے ،یہودی انبیاء کی شان میں گستاخی کے اس قبیح فعل سے کبھی باز نہ آئے ،تاریخ شاہد ہے کہ ابتدائے اسلام میں وہ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں بھی بار بار گستاخی کرتے رہے ،نبی رحمت ﷺ کو ذہنی اذیت پہونچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے، آپﷺ کی تعلیمات کا تمسخر کرتے تھے اور آپ کی سنتوں کا مذاق اڑاتے تھے ، مجلس نبوی میں بیٹھ کر آپ کے خلاف اہانت آمیز سازش رچا کرتے تھے ، قرآن پاک کی مختلف مدنی سورتوں میں شانِ رسالت میں یہودیوں کی گستاخیوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔

یورپ اور امریکہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف یہود و نصاری کے تعصب و عداوت کی ابتدا ء صلیبی جنگوں سے ہوئی ،صلیبی جنگوں میں عوام کو بھرتی کرنے کے لئے پوپ اور پادری عیساؤں کو اشتعال دلانے کی خاطر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے تھے ، تاکہ عام عیسائی عوام میں مسلمانوں کے خلاف جوش پید ا ہوجائے اور وہ مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے والی صلیبی جنگوں میں بڑی تعداد میں حصہ لے سکیں ،سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست کے بعد ان کے اسلام دشمن پروپیگنڈے میں شدت آئی ،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسی نام نہاد مسلم شخصیات کو اس مقصد کے لئے باقاعدہ میدان میں اتارا گیا ، ۹۰ اور ۸۰ کی دہائیوں میں ان کی گستاخانہ تحریروں کی یورپ میں خوب پذیرائی کی گئی،قرآن مجید‘ اسلامی مقدسات اور ذاتِ رسو ل کی شان میں گستاخی کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری رہا اور تا حال جاری ہے ،گذشتہ دو دہائیوں میں پیش آئے گستاخانہ واقعات کا سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ صلیب و صہیون کے دریدہ دہن عناصر نے اس گھناؤنے عمل کو مستقل مشن بنا رکھا ہے ،جنوری ۲۰۰۰ ؁ء میں انٹرنیٹ پر ایک فحاش لڑکی کے سامنے مسلم نمازیوں کو ایسی حالت میں دکھایا گیا کہ گویا وہ اس بے حیاء لڑکی کا سجدہ کررہے ہیں ،اس کے ذریعہ نما زجیسی مہتم بالشان عبادت کی توہین مقصود تھی ،پھر ستمبر ۲۰۰۰؁ء میں قرآن پر دست درازی کی جرأت کی گئی اور انٹرنیٹ پر دو جعلی سورتیں ں شائع کرکے یہ دعوی کیا گیا کہ یہ قرآن میں شامل تھیں اور مسلمانوں نے انہیں قرآن سے نکال دیا ،یہ دراصل محفوظیتِ قرآن پر حملہ تھا اسی پر سلسلہ رکا نہیں اکٹوبر ۲۰۰۱ ؁ء کوایک ویب سائٹ پر آقائے رحمت ﷺ سے منسوب ۶؍تصاویر نہایت تمسخر آمیز مضامین کے ساتھ شائع کی گئیں،اور یہ تأثر دیا گیا کہ نعوذ باﷲ آپ ﷺ دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کے لئے آئے تھے ،نومبر ۲۰۰۴؁ء میں ہالینڈ کے شہر ھیگ میں ایک ایسی فلم بنائی گئی جس میں نہ صرف اسلامی تعلیمات کا تمسخر کیا گیا بلکہ برہنہ اور فحاش خواتین کے پشت پر آیاتِ قرآنی تحریر کی گئیں ،اس واقعہ کو ایک سال نہیں گذرا کہ جنوری ۲۰۰۵؁ء میں قرآن مجید کے خلاف گھناؤنی سازش رچی گئی ،اور الفرقان الحق نامی کتاب شائع کرکے اسے مسلمانوں کا نیا قرآن باور کرایا گیا ، ۲۰۰۵؁ء میں امینہ ودود اور اسری نعمانی جیسی مغرب زدہ نام نہاد مسلم خواتین کے ذریعہ عورت کی امامت کا شوشہ چھوڑا گیا ،مئی ۲۰۰۵؁ء میں گونتاناموبے جیل میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں توہینِ قرآن کے واقعات پیش آئے ،پھر ستمبر ۲۰۰۵؁ء میں ایک ڈینش اخبار میں اہانتِ رسول کی گھناؤنی حرکت مظاہر کیا گیا ، پھر ایک سال نہیں گذرا کہ فروری ۲۰۰۶؁ ء میں مغربی ممالک کے کئی اخبارات نے ایک ساتھ توہین آمیز کارٹونوں کو شائع کیا جس پر سارے عالم میں بھونچال آگیا ،انبیاء کی شان میں گستاخی اور مذہبی مقدسات کی توہین یہود و نصاری کی سرشت میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اس قسم کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں ،گذشتہ دنوں ہالینڈ کے ایک اسلام دشمن قائد گیرٹ وائلڈرز نے ایک بار پھر خبثِ باطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ ماہ نومبر میں اہانتِ رسول ﷺ پر مشتمل گستاخانہ خاکوں کے مقابلہ کا اعلان کردیا ہے ، اور اس بات کا بھی اعلان کیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے اس مقابلہ میں ان خاکوں کو بھی شامل کیا جائیگا جو ای میل کے ذریعہ بھیجے جائیں گے ، نیز یہ مقابلہ سوشل میڈیا پر راست نشر بھی کیا جائیگا ،گیرٹ وائلڈرز ہالینڈ کی ایک مخالف اسلام شدت پسند پارٹی کا سربراہ ہے ، ۲۰۰۹؁ء میں اس نے قرآن کے خلاف ایک توہین آمیز فلم بنام ’’فتنہ‘‘ بنائی تھی ، اس بدبخت نے اس سے قبل مسلمانوں سے ایک شرانگیز مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان نصف قرآن کو تلف کردیں ،نیز اس شدت پسند شخص نے ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں پردہ کے خلاف بل بھی پیش کیا تھا ،اہانت آمیز خاکوں کے مقابلہ کے حالیہ اعلان پر عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ،اور متعدد مسلم ممالک میں اس مقابلہ کے خلاف احتجاج بھی ہورہا ہے ،عالمِ اسلام کے اس بڑھتے ہوئے احتجاج پر ہالینڈ کی حکومت کی جانب سے جو وضاحت کی گئی ہے وہ انتہائی نا معقول اور غیر منطقی ہے ، مقابلہ سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی ترجمان نے کہا کہ یہ ایک فرد کا ذاتی فعل ہے اور ان کے ملک میں آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے ،یورپ میں جب کبھی اس قسم کا کوئی اہانت آمیز واقعہ رونما ہوتا ہے وہاں کی حکومتیں آزادی اظہار کر سہارا لے کراس سے اپنا دامن جھاڑ لیتی ہیں ،جبکہ کسی بھی انسانی معاشرہ میں اظہار کی ایسی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہو ، یہ اظہار کی آزادی نہیں بلکہ دل آزاری کی مذموم حرکت ہے ،علاوہ ازیں آزادی اظہار کاڈھنڈورا پیٹنے والے یورپی ممالک ذرا خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ آیا ان کے یہاں فی الواقع اظہار کی آزادی ہے ؟ ،بہت سے یورپی ممالک میں اظہار کی آزادی پر پابندی ہے مثلاً برطانیہ میں اظہار کی آزادی کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن وہاں ملکہء معظمہ کو کوئی بُرا نہیں کہہ سکتا ، متعدد یورپی ملکوں میں ہولو کاسٹ کے تعلق سے کچھ کہنا سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے ،تو کیا یہ یورپ کا دہرا رویہ نہیں ہے ؟۔

گذشتہ دو دہائیوں سے شانِ رسالت میں گستاخی اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے ،اس قسم کے واقعات کابار بار اعادہ کرکے مسلمانوں کے دلوں سے غیرتِ اسلامی کو ختم کرنا مقصود ہے ،دشمن چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ان کے نبی ﷺ سے رشتہ محبت کمزور ہوجائے ، ان حالات میں ملتِ اسلامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تحفظ ناموس ِ رسالت کے سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرے ،اس کے لئے مسلمانوں کے ہر طبقہ کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوگا، جب تک مسلمان پوری قوت کے ساتھ فتنہ اہانتِ رسول کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کرینگے تب تک اس صورتِ حال پر قابو پانا ممکن نہیں ہے ،اس کے لئے مسلمانوں کے ہر طبقہ کو اپنے حصہ کا کام انجام دینا ہوگا ،امتِ مسلمہ کے سیاسی رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ ہالینڈ کے خلاف اپنا مؤثر احتجاج درج کرائیں ،اسکی شکل یہ ہے کہ سارے مسلم ممالک ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کرلیں اور اپنے اپنے سفراء کو واپس بلوالیں ،گستاخانہ خاکوں پر خاموشی اختیار کرکے ہالینڈ خود عالمِ اسلام سے اپنے تعلقات خراب کرچکا ہے ،ایسے میں وہ اس لائق نہیں ہے کہ اس سے روابط رکھے جائیں ، سفارتی تعلقات کے ساتھ اقتصادی روابط کا خاتمہ ضروری ہے ، اگر سارا عالمِ اسلام ہالینڈ کا معاشی بائیکاٹ کر بیٹھے تو ہالینڈ اپنے ملک کے گستاخ قائد پر لگام کسنے پر مجبور ہوجائیگا ،اسی طرح ہالینڈ جیسے ممالک کو راہِ راست پر لانے مسلم ممالک کا تاجر طبقہ بھی کلیدی رول ادا کرسکتا ہے مسلم ممالک کی تاجر برادری کو چاہئے کہ وہ ہالینڈ کی ساری مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرے ،اقتصادی بائیکاٹ موجودہ دور میں دشمنوں کے خلاف استعمال ہونے والا ایک مؤثر ھتیار ہے ،اس سلسلہ میں اگر مسلم تاجروں کو کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑے تو بھی بائیکاٹ سے دریغ نہ کرے ،کیا آقائے رحمت ﷺ کا ہم پر اتنا بھی حق نہیں کہ ہم ان کے ناموس کی حفاظت کے لئے کچھ مالی نقصان برداشت کرلیں ؟ ،آپ ﷺ سے سچی محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم آپ کی خاطر ہر چیز قربان کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں ، ہالینڈ کی مصنوعات کا بائیکاٹ نہ صرف تاجر طبقہ کرے ،بلکہ عام مسلمان بھی ہالینڈ کی چیزیں خریدنے سے بلکلیہ احتراز کریں ، ہالینڈ کی چند عام مصنوعات درج ذیل ہیں :shell petrolium , philips , uniliver , list of unilever items : closeup , dove , knorr , lifebuoy , lipton , lux , walls icecreme , ponds , sunsilk , supreme , cormfort , clear , domex , fair n lovely , fruttare , rin , sun light ,۔
اگر آپ کسی کنفورم کرنا ہو کہ مذکورہ مصنوعات ہالینڈ کی ہیں یا نہیں تو وہ درجِ ذیل لنکس پر کلک کرکے اطمینان کرسکتے ہیں : shell wikipedia.org , philips wikipedia.org , unilever wikipedia.org , list of unilever.pk brands.org۔

ہالینڈ کے خلاف مہم میں علماء برادری بھی مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے ،عوام کی ذہن سازی میں علماء کا اہم رول ہوتا ہے ،علماء کو چاہئے کہ وہ جمعہ کے خطبات اور دیگر مذہبی اجتماعات میں اس موضوع پر بھر پور روشنی ڈالیں اور اہانتِ رسول کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے عوام کو ہالینڈ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی تلقین کریں ، ہالینڈ کے خلاف مہم کو مؤثر بنانے میں سب سے بنیادی رول میڈیا اور میڈیا سے وابستہ افراد ادا کرسکتے ہیں ،رائے عامہ کو ہموار کرنے میں میڈیا کے کردار سے کون ناواقف ہے ؟ امتِ مسلمہ کی ایک بڑی تعداد میڈیا سے وابستہ ہے ، اسکے علاوہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی سہولت نے کام کو بہت آسان کردیا ہے ،سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال اس سلسلہ میں معاون ثابت ہوسکتا ہے ، مختصر یہ کہ ناموسِ رسالت کا تحفظ کسی ایک طبقہ کی ذمہ داری نہیں ہے ، امت کے ہر طبقہ کو اس حوالہ سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ، تب ہی دشمن کے رویہ میں تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔

Syed Ahmed Wameez
About the Author: Syed Ahmed Wameez Read More Articles by Syed Ahmed Wameez: 29 Articles with 21857 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.