بالآخر گیرٹ وائلڈر نے قتل کی دھمکیوں اور دوسروں کی
زندگیوں کو لاحق خطرات کے سبب پیغمبر اسلام ﷺکے خاکوں کا ناپاک اور بیہودہ
مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ مقابلہ رواں سال نومبر میں نیدر لینڈ
کی پارلیمان میں گریٹ وائلڈر کی سیاسی جماعت کے دفتر میں منعقد ہونا تھا۔
ڈچ وزیر اعظمMark Rutteنے آزادی اظہار رائے کے قانون کا دفاع تو کیا ہے
لیکن خاکوں کے اس مقابلے کو
’’ بے ادب اور اشتعال انگیز‘‘ قرار دیا ہے۔ بڑے بڑے منصوبے بنانے کے بعد
گیرٹ وائلڈر کی یہ ذلت آمیز پسپائی یقینا اہل اسلام کیلئے خوش آئند جبکہ اس
کے ماسٹر مائینڈ’’دشمنان اسلام ‘‘کیلئے اخلاقی موت سے کم نہیں۔ جب دنیا
بھرمیں ان مقابلوں کی اطلاعات عام کی جا رہی تھیں تو اس وقت اس بیہودگی کی
تشہیر میں ہر طرح کے ذرائع ابلاغ پیش پیش نظر آتے تھے۔مزے کی بات یہ کہ آج
وہی میڈیا ان مقابلوں کی منسوخی کی خبریں شاہ سرخی کے طور پر نشر کر رہا
ہے۔فطری سی بات ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کے ذہن میں سوال تو اٹھے گا کہ اس
قدر شور و غوغااور بلند بانگ دعووں کے بعد آخر کیوں گیرٹ وائلڈنے قدم پیچھے
ہٹا لئے؟ ان کے ذہن میں یہ سوال بھی آئے گا کہ وہ شخصیت کون سی ہے کہ جن کے
نام کے خاکوں پر دنیا بھر میں ایک کہرام مچ گیا۔ لاکھوں افراد جانیں
ہتھیلیوں پر رکھ کر سراپا احتجاج ہوگئے۔ وہ ان خوبیوں کی تہہ تک پہنچنے کی
کوشش کریں گے جن کی بناء پر ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ افراد ان سے اظہار محبت
کرتے ہیں۔ یقینا یہ سب کچھ جاننے کیلئے وہ آقائے نامدارﷺ کی حیات مبارکہ
اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بھی کئی غیر
مسلم ایسے ہی حالات میں دیکھتے ہی دیکھتے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ جو’’
دانشور‘‘ ایسے مواقع پر احتجاج کی بجائے عقلی مصلحتوں کا شکار ہو کرخا موشی
اختیار کرنے کا درس دے رہے تھے، انہیں بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ پرامن اور
خلوص بھرا احتجاج اپنا ایک خاص اثر رکھتا ہے۔خدا نخواستہ کسی کی ماں بہن کو
کوئی شخص نازیبا کلمات کہے یا ان کے بیہودہ اور فحش کارٹون بنائے تو کیا
کوئی بھی شخص کسی دانشور کے خاموش تماشائی بننے کے مشورے پر عمل کرے گا؟
یقینا نہیں۔ بلکہ ماضی قریب میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے کہیں ہلکے اشوز پر
بڑے بڑے احتجاج ریکارڈ ہوئے۔ تو پھر معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے آقا و مولا
محمد رسول اﷲﷺ وہ ہستی ہیں جن کی عزت و ناموس کی حفاظت کیلئے ہمارے ماں باپ
اور مال و اولاد بھی قربان ہوجائے تو سودا گھاٹے کا نہیں۔تاریخ اسلام کے
اوراق گواہ ہیں کہ آغاز اسلام سے لے کر آج تک کسی بد بخت نے بھی رسول کریم
ﷺ کی گستاخی کی ناپاک جسارت کی تو اہل اسلام نے اس کا بھرپور جواب دیا۔
علمی جواب کی ضرورت تھی تو قلم حرکت میں آیا۔ تلوار کی ضرورت پیش آئی تو
نتائج کی پرواہ کیے بغیرگستاخ رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا۔اسی روایت کو
برقرار رکھتے ہوئے ان خاکوں کے مقابلے کے اعلان کے بعد پاکستان سمیت دنیا
بھر میں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس نازک موقع پر پاکستان کے
حکومتی اداروں اور عوام نے دیگر اسلامی ممالک کیلئے قابل تقلید اور لائق
تحسین کردار ادا کیا۔ برطانیہ و یورپ میں اوورسیز پاکستانیوں کی مختلف
مذہبی و سماجی تنظیموں اور افراد کی طرف سے نیدر لینڈز کے سفارت خانوں کو
اس معاملے کی سنگینی کے حوالے سے خطوط لکھے گئے اورملاقاتیں کر کے اس
معاملے کو حل کرنے کی تجاویز دیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اورسوشل میڈیا پر بھرپور
احتجاج کا سلسلہ جاری رہا ۔ علاقائی سطح پر گلی کوچوں اور بازاروں میں لوگ
وارفتگی کے عالم میں ناموس رسالت مآبﷺ کے تحفظ کیلئے لوگ نکل پڑے۔ اس سلسلے
میں ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ نے لاہور سے اسلام آباد کی جانب فقید المثال
احتجاجی لانگ مارچ کی کال دی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ جب تک گستاخانہ خاکوں کا
مقابلہ منسوخ نہیں کیا جاتا، پاکستان ہالینڈ سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع
کر دے۔مقابلہ منسوخ ہونے کے اعلان کے بعد ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ نے بھی
لانگ مارچ ختم کرنیکا اعلان کردیا۔ وہ تمام عشاقان رسولﷺ جنہوں نے گرمی اور
حبس کے اس موسم میں لاہور سے راولپنڈی تک بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے فقط
جذبہ حب رسولﷺ سے سرشار ہو کر مارچ کیا وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ
ہمارے محسن ہیں اور ان کی کاوشیں یقینا رنگ لائیں۔ ان ماؤں کو بھی سلام
جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے پیارے نبی ﷺکی عزت و ناموس کی حفاطت
کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے نیک دعاؤں کے ساتھ گھر کی دہلیز سے رخصت
کیا۔ حکومت پاکستان، تمام ذیلی اداروں اور ممبران پارلیمنٹ نے بھی منصبی
ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مثبت کردار ادا کیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے ان
خاکوں کے مقابلے کی منسوخی کی کوریج میں پاکستانی حکومت کے موقف اور تحریک
لبیک کے احتجاج کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور تصاویر شائع کیں۔ وزیر خارجہ
شاہ محمود قریشی نے مقابلے کی منسوخی کو ’اخلاقی فتح‘ قرار دیا ہے اور
انھوں نے کہا کہ اُمتِ مسلمہ کے تعاون سے وہ اس معاملے پر او آئی سی اور
اقوام متحدہ میں بھرپور آواز اُٹھائیں گے۔ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ
’’پیغمبر اسلام کی بے حرمتی کی حرکات کو اگر نہ روکا گیا تو دنیا میں مذہبی
انتہا پسندی بڑھنے کا خطرہ ہے‘‘ ۔ وزارت خارجہ نے اسلامی ممالک کی تنظیم او
آئی سی کے جنرل سیکریٹری کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں گستاخانہ خاکوں کے
معاملے پر غور کرنے کے لیے فوری طورپر تنظیم کے مستقل رکن ملکوں کا اجلاس
طلب کرنے کی درخواست کی ہے ۔ پاکستان کے ایوان بالا نے ہالینڈ میں گستاخانہ
خاکوں کے مقابلے کے خلاف ایک مذمتی قرار داد بھی منظور کی ہے ۔وزیر اعظم
پاکستان عمران خان نے اس معاملے کو اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اٹھانے
کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ نبی کریمﷺ ہر مسلمان کے د ل میں بستے
ہیں۔ دنیا کا کوئی مسلمان ایسی نازیبا حرکات کو برداشت نہیں کرسکتا۔ آزادی
کی بھی کچھ حدود و قیود متعین ہیں اور ان سے باہر نہیں جایا جا سکتا، جس
طرح یورپ میں یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنا قابل تعزیر جرم ہے اسی
طرح مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا بھی کسی طرح روا نہیں۔ اقوام متحدہ
میں یہ معاملہ اٹھانے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس نازک معاملے پر
مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی متحرک ہو اور مشترکہ طور پر دو ٹوک موقف
اختیار کرے‘‘۔ اگرچہ وقتی طور پر یہ معاملہ تھم گیا ہے لیکن آئندہ ایسے
واقعات کے سد باب کیلئے او آئی سی اور یو این او کے ذریعے قانون سازی اور
ضروری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت اب بھی باقی ہے۔ |