لبوں پہ اسکے بدعا نہیں ہوتی
بس اک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی
لفظ ماں محبت، احساسات، جذبات اور نوازشات کا اک انمول خزانہ ہے، ماں اک
ایسا شیریں لفظ ہے جس کے زبان سے نکلتے ہی جسم وجان میں اک سرور سا طاری ہو
جاتا ہے اس لفظ کی مٹھاس ہمارے لہجے اور زبان پر تادمِ مرگ قائم رہتی ہے۔
ماں خداوند باری تعالیٰ کا انسان کےلئے اک نایاب تحفہ ہے، یہ اک ایسی نعمت
ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔ اس عظیم ہستی کے دل میں اولاد کی محبت کا
اندازہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں خداوند
بزرگ و برتر فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا
ہوں۔ اس کا واضح مطلب اللہ تبارک وتعالیٰ کا بندے سی اپنی والہانہ محبت کا
اظہار ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کی وضاحت بھی کر رہے ہیں کہ محبت کا
معیار کیا ہے اور اس کو جانچنے کا آلہ کیا ہے۔
ماں اولاد کےلئے اک ایسے شجر سایہ دار کی مانند ہے، جو تادمِ مرگ اپنی
اولاد کو زمانے کی چلچلاتی دھوپ سے بچائے رکھتی ہے، وہ خود تو جلتی ہے پر
اولاد پر آنچ نہیں آنے دیتی۔ اگر کبھی اس کی اپنی خواہشات اولاد کی خواہشات
سے متصادم ٹھہریں تو وہ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹنے میں پل بھر بھی ضائع
نہیں کرتی، ماں کی آغوش اولاد کے لئے اک ایسا ٹھکانہ ہے جہاں زمانے کے ہر
غم کا علاج میسر ہے، ہر درد کی دوا موجود ہے، اولاد بوڑھی بھی ہوجائے ماں
کے لئے ہمیشہ بچے کی مانند ہی رہتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اگر ماں کے پیروں تلے جنت رکھ چھوڑی ہے تو اس میں
بڑی حکمت پوشیدہ ہے، اگر غور کریں تو بچے کی سب سے پہلی درسگاہ ماں کی گود
ہے۔ ایک ماں ہی اولاد کی تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گہ
کہ بچے کے ہاتھ میں جلتا ہوا کوئلہ پکڑائے یا اس کو غلط راستے پر چلنے کی
ترغیب دے۔ وہ خود تو ہر دم پستی رہے گی اولاد پر آنچ نہیں آنے دے گی، شاید
یہ جنت اسی تربیت کا ادنیٰ سا اک انعام ہے جو خداوند بزرگ وبرتر نے ماں کے
قدموں تلے رکھی ہے۔ یاد رکھئیے ماں کی پریشانی تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے
بھی نہ دیکھی گئی اور تا قیامت صفا ومروہ کو حج کا رکن بنا دیا، اک اور ماں
کا وعدہ پورا کرنے کے لئے جبرائیل کو حسنین کا درزی بنا دیا۔
میرے آقا خاتم النبین کا فرمان ہے جس نے ماں کو اک مرتبہ پیار سے دیکھا اسے
ایک مقبول حج کا ثواب ہے، جب آپؐ یہ فرمارہے تھے اک صحابی نے پوچھا اگر میں
سو مرتبہ اپنے ماں باپ کا چہرہ دیکھوں تو آپؐ نے فرمایا سو مقبول حج، غور
کریں بات حج کی نہیں مقبول حج کی ہو رہی ہے۔
حدیث مبارکہ ہے
تمہارے ماں باپ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں
اس سے مراد ہے جنت ان کے لئیے جنغوں نے ماں باپ کی عزت کی، اور جہنم ان کے
لئیے جنھوں نے ماں باپ سے غفلت برتی انکی نا فرمانی کے مرتکب ہوئے۔
مجھے ماں اور پھول میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، دنیا پھول ہے تو ماں اسکی
خوشبو، دنیا آنکھ ہے تو ماں بینائی یہ وہ محبت کا سر چشمہ ہے جو کبھی خشک
نہیں ہوتا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے جب بھی میری کشتی زندگی کے بھنور میں پھنس
جاتی ہے میری ماں دعائیں کرتی خوابوں میں چلی آتی ہے۔ بعض بدبخت اپنی اس
جنت کو پہچان نہیں پاتے اور سرابوں کے سفر پر نکل پڑتے ہیں، آج کل کی اولاد
اپنے آپ کو بہت عقلمند ،دانشور اور نہ جانے کیا کیا سمجھتی ہے اور ماں باپ
کو بوجھ۔ گھر کا اک ناکارہ کونا الاٹ کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مار رہی
ہوتی ہے، یا پھر کچھ بیمار اذہان ماں باپ کو کچرہ سمجھ کر اولڈ ہائوسز میں
ڈمپ کر آتے ہیں ۔ خدارا اپنے ماں باپ کی عزت کریں ، یہی ہماری جنت ہیں اور
کچھ نہیں آخرت کی انویسمنٹ سمجھ کر ہی کر لیں شاید وہ رحیم ہماری اس نیکی
کو شرف قبولیت بخش دے، خدارا اپنی جنت کی خدمت کریں ، اسکی حفاظت کریں اس
سے پہلے کی چڑیاں چگ جائیں کھیت۔ ۔۔
گھٹنوں سے رینگتے رینگتے کب پیروں پر کھڑا ہوا
تیری ممتا کی چھائوں میں ماں جانے کب بڑا ہوا
کالا ٹیکا،دودھ ملائی آج بھی سب کچھ ویسا ہے
میں ہی میں ہوں ہر جگہ ماں پیار یہ تیرا کیسا ہے
سیدھا سادھا بھولا بھالا میں ہی سب سے اچھا ہوں
کتنا بھی ہو جائوں بڑا میں آج بھی تیرا بچہ ہوں
میں آج بھی تیرا بچہ ہوں
میں آج بھی تیرا بچہ ہوں
میں آج بھی تیرا بچہ ہوں
|