اردو کی ادبی تواریخ میں ذکرِ شبلی

شبلی نعمانی کا ادبی اہمیت کا اندازہ اردو کی ادبی تواریخ میں ان کے کارناموں پر بحث سے ہوتا ہے۔ شبلی کی مذہبی، علمی، تحقیقی، تنقیدی اور شعری خدمات کا اعتراف ہر دَور میں کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے علمی سرمایے کی صحیح قدر و قیمت پر ان تواریخ میں بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ اس مقالے میں اردو کے ادبی مؤرخین کو متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء) کا نام اردو زبان و ادب کی تاریخ ایک رجحان ساز ادیبوں میں شامل ہے۔ اگرچہ وہ اردو کے عظیم انشاپردازوں کے دَور میں پیدا ہوئے اور سرسید احمد خاں (پ:۱۸۱۷ء)، مولانا محمد حسین آزاد (پ:۱۸۳۰ء)، ڈپٹی نذیر احمد (پ:۱۸۳۶ء) اورمولانا حالی(پ:۱۸۳۷ء) جیسے ناموروں کی نسبت صغیر سن بھی تھے، لیکن انھوں نے موضوعات اور اسلوب کے اعتبار سے اپنے لیے الگ جگہ بنائی۔ اب جب کہ ان کے مقام و مرتبے کا تعین اور ان کی علمی و ادبی خدمات کی قدر و قیمت کا تعین ہو چکا ہے اور انھیں بجا طور پر اردو ادب کی نابغہ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے، اردو ادب کی تاریخوں میں ان کے بارے میں پیش کی جانے والی آرا کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد محض یہ ہے کہ شبلی نعمانی کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات پر تصانیف اور مضامین سے قطع نظر اردو کے ادبی مؤرخین کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ مصنف یا مضمون نگار بالعموم اپنے موضوع سے سروکار رکھتا ہے، جب کہ ادبی مؤرخ کو ساری تاریخ کے درمیان رہ کر سوچنا پڑتا ہے، چنانچہ مصنف و مؤرخ کے ہاں کسی شخصیت اور اس کے کارناموں سے متعلق ایک مختلف رویہ سامنے آتا ہے۔
اردو ادب کی اب تک لکھی گئی تاریخوں میں تاریخِ ادبِ اردو (رام بابو سکسینہ، مترجمہ مرزا محمد عسکری)، داستانِ تاریخِ ادب (حامد حسن قادری)، تاریخِ ادبیاتِ اردو (ڈاکٹر ابوسعید نورالدین)، اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ (ڈاکٹر سلیم اختر)، اردو ادب کی تنقیدی تاریخ (سید احتشام حسین)، اردو ادب کی مختصر تاریخ (ڈاکٹر انور سدید)، اردو ادب کی تاریخ (ڈاکٹر تبسم کاشمیری) اور تاریخِ ادبِ اردو (ڈاکٹر جمیل جالبی) نمایاں ہیں۔
(۱)
علامہ شبلی کے وفات کے تیرہ برس بعد ۱۹۲۷ء میں شائع ہونے والی رام بابو سکسینہ کی History of Urdu Literature (تاریخِ ادبِ اردو، مترجمہ مرزا محمد عسکری) ’حصہ نظم‘ اور ’حصہ نثر‘ میں منقسم ہے، البتہ دونوں حصوں کے ابواب کو مسلسل رکھا ہے۔ یوں یہ تاریخ ’حصہ نظم‘ کے چودہ ابواب سمیت کُل انیس ابواب پر مشتمل ہے، جن میں سے سولہویں باب ’نثر اردو کا دَورِ متوسط اور دَورِ جدید‘ میں علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ بحث ’تعلیم اور ابتدائی مشاغل‘، ’قیامِ علی گڑھ‘، ’ابتدائی تصانیف‘، ’قیامِ حیدر آباد‘، ’ندوۃ العلما‘، ’دارالمصنّفین اعظم گڑھ‘، ’قابلیت اور خدمات کا اعتراف‘، ’اخلاق و عادات‘، ’تصانیف‘، ’مولانا بحیثیت مؤرخ کے‘، ’مولانا بحیثیت ناقد کے‘ اور ’طرزِ تحریر‘ کے عنوانات میں تقسیم ہے۔
اگرچہ نو دس صفحات میں کوئی جامع مقالہ نہیں لکھا جا سکتا اور کسی شخصیت اور اس کے فکر و فن کا بالتفصیل تجزیہ ممکن نہیں، لیکن علامہ شبلی سے متعلق سکسینہ کی چند آرا ایسی ہیں، جو آج بھی شبلی شناسی میں اہمیت رکھتی ہیں۔ سکسینہ لکھتے ہیں:
۱۔ شبلی نعمانی اپنے زمانے کے مشہور ترین و قابل ترین بزرگوں میں تھے۔ نہایت کثیر الاشواق اور جامع الاذواق تھے۔ اگر کوئی شخص ایک شاعر، فلسفی، مؤرخ، ناقد، ماہرِ تعلیم، معلم،واعظ، رفارمر، جریدہ نگار، فقیہ، محدث، سب کچھ ہو سکتا ہے تو وہ مولانا ہی کی ذات تھی کہ انھوں نے ان سب کمالاتِ مختلفہ اور علوم و فنونِ متنوعہ کا اپنی ذات میں اجتماع کر لیا تھا۔
۲۔ جس طرح سے مولانا نے نکاتِ تنقید بطرزِ مغرب آرنلڈ صاحب سے حاصل کیے ہوں گے؛ اسی طرح انصافاً یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر صاحب اپنی کتاب The Preaching of Islam کی اکثر باتوں کے لیے مولانا کے ممنون ہیں۔
۳۔ اگر کسی شخص کو زمانۂ حال کی کوئی ایسی تصنیف دیکھنا ہو، جو وسعت مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ فصاحت و بلاغت اور سلاستِ زبان کا ایک بہترین مجموعہ کہی جا سکے تو اس کو شعر العجم دیکھنا چاہیے ۔۔۔ یہ سچ ہے کہ مولانا کے انتقال کے بعد اس کی اکثر غلطیاں نکالی گئیں اور وہ ایک جارحانہ نظر سے دیکھی جا رہی ہے، مگر پھر بھی ہمارے نزدیک، کتاب کی قدر و قیمت اور مولانا کے تبحر علمی میں اس سے کوئی فرق نہیں آ سکتا۔ کتابِ مذکور نظمِ فارسی کی ایک مکمل تاریخ اور نہایت سلیس اور دلچسپ زبان میں ہے۔
۴۔ موازنۂ انیس و دبیر بھی ایک بہت بیش قیمت تصنیف ہے اور گو کہ اس سے بھی اختلاف کیا گیا اور بعض کتابیں اس کے جواب میں نکلیں، مگر پھر بھی اس کی اکثر باتیں کارآمد اور صحیح ضرور ہیں۔
۵۔ مولانا ہمیشہ صفائی اور سادگی اور وضاحتِ کلام کو بہت پسند کرتے تھے۔ ان کی عبارت میں کبھی گنجلک نہیں ہوتی، اس میں ایک خاص چمک اور تڑپ ہوتی ہے۔ ۔۔۔ مولانا کے یہاں صنایع بدایع اور عبارت میں تکلف بہت کم ہوتا ہے اور گو کہ اکثر جگہ فصاحت اور زورِ بیان مضمون میں چار چاند لگا دیتا ہے، پھر بھی نفس مطلب نہایت واضح رہتا ہے۔ یہ بڑی قابلِ تعریف بات ہے کہ مختلف انواعِ تحریر کے لیے مولانا اسی کے مناسبِ حال اندازِ بیان بھی اختیار کرتے ہیں۔
سکسینہ کی ان تنقید آرا سے اردو تنقید آج بھی مستفیض ہو رہی ہے؛ البتہ ان کے ہاں بعض تحقیقی تسامحات در آئے ہیں، جن کی نشان دہی ضروری خیال کی جاتی ہے۔
۱۔ سکسینہ نے لکھا ہے کہ ’۱۸۸۲ء میں اپنے چھوٹے بھائی مہدی سے ملنے کے لیے، جو علی گڑھ کالج میں پڑھتے تھے، علی گڑھ جانے کا اتفاق ہوا‘،حالانکہ یہ واقعہ اکتوبر ۱۸۸۱ء کا ہے۔ سکسینہ نے جس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کا تعلق شبلی کے دوسری مرتبہ علی گڑھ جانے سے ہے، جس کے نتیجے میں وہ جنوری ۱۸۸۳ء کے آخر میں چالیس روپے ماہوار پر علی گڑھ کالج میں اسسٹنٹ عربک پروفیسر مقرر ہوئے۔
۲۔ سکسینہ نے لکھا ہے کہ ’۱۸۸۴ء میں مثنوی صبحِ اُمید کا ستارہ مولانا کے افق تصنیف پر جلوہ گر ہوا‘،حالانکہ یہ مثنوی ۱۸۸۶ء میں شائع ہوئی۔یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مؤلف حیاتِ شبلی نے اس مثنوی کا سالِ اشاعت ۱۸۸۵ء درج کیا ہے۔
۳۔ سکسینہ کے خیال میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم ۱۸۸۶ء کی ایجوکیشنل کانفرنس میں بطور ایڈریس پیش کی گئی تھی، ۱۸۸۷ء میں چھپ کر شائع ہوئی،جب کہ مؤلفِ حیاتِ شبلی کے مطابق لکھنؤ میں منعقدہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے اجلاس منعقدہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۸۷ء میں پڑھا گیااور اس کی اشاعت ۱۸۸۸ء میں عمل میں آئی۔
۴۔ سکسینہ کے یہ کہنے سے کہ ’[شبلی نے]۱۸۹۲ء میں سفر روم و شام اختیار کیا، جس میں پروفیسر آرنلڈ بھی ان کے ہمراہ تھے‘،یہ خیال گزرتا ہے کہ شبلی نے یہ سیاحت ان کی معیت میں کی، حالانکہ آرنلڈ کا ساتھ یکم مئی سے ۱۴؍مئی تک ۱۸۹۲ء تک رہا، اس کے بعد شبلی پورٹ سعید پر اُتر گئے اور آرنلڈ اسی جہاز پر یورپ روانہ ہوئے۔
حیرت ہے کہ سکسینہ شبلی کی شاعرانہ خصوصیات کو نظرانداز کر گئے اور تاریخ کے ’حصہ نظم‘ میں ان کا نام تک نہ لیا؛ البتہ زیرِ نظر حصے میں ’مولانا بحیثیت ناقد کے‘ میں انھیں ’شاعرِ شیریں مقال‘کہہ کر آگے بڑھ گئے۔
(۲)
حامد حسن قادری (۱۸۸۷ء-۱۹۶۴ء) کی داستانِ تاریخِ اردو کی تالیف کا آغاز ۱۹۳۸ء میں ہوا، ۲۳؍ستمبر ۱۹۴۱ء کو اس کا دیباچہ لکھا گیااور نومبر ۱۹۴۱ء میں یہ کتاب آگرہ سے بابو لکشمی نرائن نے شائع کر دی۔ مصنف کو ’اس تالیف کے مکمل ہونے کا دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اس کے بعض حصوں کے نامکمل رہ جانے کا اعتراف ہے‘۔جب اس کے دوسرے اڈیشن کی نوبت آئی تو منصف کو’عافیت اسی میں نظر آئی کہ کتاب جیسی کچھ ہے، دوبارہ چھپوا دی جائے؛ چنانچہ نظرثانی میں درستی و ترمیم اور حذف و اضافہ کرتا گیا اور پچاس پچاس سو سو صفحے چھپنے کے لیے بھیجتا گیا‘،آخر ۱۹۵۷ء میں یہ کتاب آگرہ ہی سے دوبارہ چھپ گئی۔ کتاب کا تیسرا اڈیشن ۱۹۶۳ء اور چوتھا ۱۹۸۸ء میں اردو اکیڈمی سندھ کراچی سے شائع ہوا۔ واضح رہے کہ چوتھا اڈیشن تیسرے اڈیشن کی مکرر اشاعت ہے۔
ڈاکٹر گیان چند کے خیال میں، اگرچہ’یہ انیسویں صدی کے اختتام تک ہی کے مصنفوں کا احصا کرتی ہے، لیکن تاحال یہ اردو نثر نگاروں کی بہترین تاریخ ہے‘؛چنانچہ ’مستشرقین اور عہد سرسید کے اردو کے عناصرِ خمسہ کا بیان آج بھی قابلِ قدر ہے‘ور ’مختلف نثر نگاروں کے حالات اور ان کی تصانیف کے بارے میں اس تاریخ پر بھروسا کیا جا سکتا ہے‘۔ڈاکٹر گیان نے رام بابو سکسینہ کی تاریخ کے بعد اسے اردو نثر کی دوسری قابلِ قدر تاریخ قرار دیا ہے۔
داستانِ تاریخ اردو ابتدائی دو ابواب (آغازِ اردو سے پہلے اردو زبان، آغازِ اردو) کے بعد نثر کے چھ ادوار کا احاطہ کرتی ہے۔ان چھ نثری ادوار میں سے شبلی نعمانی کا ذکر ’نثر کا چھٹا دَور (غدر کے بعد)‘ میں ہوا ہے۔ کتاب کے صفحہ ۷۱۸ سے صفحہ ۹۰۰ تک ۱۸۳؍صفحات بنتے ہیں، گویا یہ کسی باب کا حصہ نہیں، بلکہ ایک مکمل کتاب قرار دی جا سکتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اسے علیحدہ سے کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو یہ احساس بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ کسی کتاب سے مستعار ہے۔
حامد حسن قادری نے شبلی کی پیدائش سے ان کی وفات تک تیرہ صفحات پر نہایت جامع گفتگو کی ہے۔ سید سلیمان ندوی کی حیاتِ شبلی اس کتاب کے پہلے اڈیشن کے دو سال بعد شائع ہوئی۔ داستانِ تاریخِ اردو کے مابعد اڈیشنوں میں اگرچہ ترمیم و اضافہ ہوتا رہا، لیکن مصنف نیحیاتِ شبلی سے استفادہ ضروری خیال نہ کیا۔ اگرچہ بعض ضروری امور نظرانداز ہو گئے، تاہم سوانحِ شبلی سے متعلق تمام بنیادی معلومات فراہم ہو گئی ہیں۔
’علامہ کے اخلاق و عادات‘، ’علامہ شبلی کے مذہبی خیالات‘ اور ’سیاسی خیالات و قومی خدمات‘ میں مصنف نے مولوی حبیب الرحمن شروانی، مولوی عبدالحلیم شرر اور خواجہ غلام الثقلین کی تحریروں سے طویل اقتباس دیے ہیں، لیکن تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا، جس سے معلوم ہو کہ خود مصنف کا نقطہ نظر کیا ہے۔
’علامہ شبلی کی تصانیف‘ میں مصنف نے نوعیت کے اعتبار سے شبلی کے جملہ تصانیف کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ساتھ اُن تصنیفی منصوبوں سے روشناس کرایا ہے، جو باجوہ رُوبعمل نہ آ سکے۔ ان کا درج ذیل بیان ان کی تنقیدی اور تاریخی بصیرت کا ترجمان ہے:
امام صاحبؒ کے سوانح (سیرۃ النعمان) لکھنے میں علمِ کلام کی بحث اور امام ابوحنیفہؒ کا اس سے تعلق سامنے آ گیا۔۔۔ علامہ شبلی نے تمام ’کلام‘ اور ’کلامیوں‘ کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس دلچسپی میں وہ ’سلسلہ فرماں روایاتِ اسلام‘ ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ۔۔۔ اور یہ بہت اچھا ہوا۔ ’ملک شاہ سلجوقی‘ اور ’نورالدین زنگی‘ وغیرہ کو لکھ بھی دیتے تو بجر ’تالیفِ شبلی‘ کے اَور کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ یہ بات اسی سے معلوم ہوتی ہے کہ علامہ کی تمام تصانیف میں المامون سب سے کم پڑھی جاتی ہے۔
شبلی کے طرزِ تحریر پر بات کرتے ہوئے وہ روایتی تراکیب، یعنی ’لطیف و نازک استعارہ و تشبیہ‘، ’حسن تناسب‘، ’لطافتِ خیال‘، ’قوتِ استدلال‘، ’ندرت و جدت‘، ’حسن نظر‘ اور ’ذوقِ سلیم‘ وغیرہ سے کام لیتے ہیں؛ البتہ ان کا یہ کہنا بہت اہم ہے کہ ’علامہ شبلی اپنے زمانہ کے پہلے شخص [تھے]، جنھوں نے اسلوبِ تحریر کی اہمیت کو سمجھا‘۔
انھیں نے سب سے پہلے اوّلیاتِ شبلی کی نشاندہی کی۔ سوانح نگاری میں محمد حسین آزاد کی دربارِ اکبری اور حالی کی حیاتِ سعدی اور تنقید میں آزاد کی آبِ حیات و سخن دانِ فارس اور حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کے باوجود سیرت النبیؐ، الفاروق، شعر العجم اور موازنۂ انیس و دبیر کو ’سیرت‘ و ’تنقید‘ میں شبلی کی اوّلیات قرار دیتے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ’جب شبلی نے ان چیزوں پر قلم اٹھایا تو اس زمین کو آسمان کر دیا‘۔اسلام کے عقائد و اعمال اور احکام و شرائع کو عقل کے مطابق اور مصلحتِ زمانہ پر مبنی ثابت کرنے میں سرسید اور ان کی تقلید میں مولوی چراغ علی کی اوّلین کوششوں کے باوصف، وہ سمجھتے ہیں کہ ’اس فن کی تاریخ و اصول اور اہلِ فن کا طریقہ عمل سب سے پہلے علامہ شبلی نے پیش کیا‘،چنانچہ علم الکلام، الکلام، الغزالی اور سوانح مولانا روم کو اس فن کی اوّلیات قرار دیتے ہیں اور آخریات بھی؂۔اسی سلسلے میں وہ مثنوی مولانا روم سے علمِ کلام کے مسائل کی ترتیب کو علامہ کی جودتِ طبع اور فکرِ رسا کا ثبوت قرار دیتے ہیں۔ شبلی کی اوّلیات کی بابت ان کا یہ تجزیہ قابلِ ذکر ہے:
ان تمام تصانیف میں ’بلاغتِ کلام‘ جس حد تک ہے، اس میں کوئی ہم عصر شبلی کو نہیں پہنچتا؛ اس لیے وہ ادیب و نقاد اور مؤرخ و سیرت نگار، ہر حیثیت سے رِفعتِ مرتبت میں بالکل منفرد ہیں۔
شبلی کی شاعری پر بات کرتے ہوئے، ان کے آخری دَور کے فارسی کلام کو ’کلام بہت منجھا ہوا اور معیار سے قریب‘ قرار دیتے ہیں اور فیصلہ کن انداز میں کہتے ہیں کہ ’اُس زمانے میں ان سے زیادہ پُرگو اَور بھی تھے، زیادہ شیریں کلام کوئی نہ تھا‘۔دوسری جانب اردو شاعری میں وہ انھیں قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے۔
شبلی سے متعلق اس تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ علامہ شبلی پر اعتراضات اور ان کا تجزیہ ہے۔ ان کی نوعیت دو طرح کی ہے،اجتہادی اور تحقیقی و تنقیدی۔ اجتہادی نقطہ نظر سے شبلی پر وارد ہونے والے اعتراضات پر اس سے بہتر تبصرہ نہیں ہو سکتا:
سرسیدباقاعدہ عالم، محدث، فقیہ نہ تھے اور علامہ شبلی سب کچھ تھے۔ سرسید کی رایوں کو تو ’دخل در معقولات‘ سمجھا گیا تھا، لیکن علامہ شبلی کے ’اجتہادِ نو‘ کی حمایت میں ان کے جبہ و دستار تھے؛ علماے ملت کی برہمی و برافروختگی کا یہی باعث تھا۔
تحقیقی و تنقیدی نوعیت سے سیرۃ النعمان، الفاروق، موازنۂ انیس و دبیر اور شعر العجم پر بعض سوالات اٹھائے گئے ہیں، جن میں سے بعض پر مصنف نے مفصل گفتگو کی ہے اور اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ موازنہ پر بھرپور بحث کے بعد مصنف نے لکھا ہے:
موازنہ کا حق یہ تھا کہ علامہ، مرزا [دبیر] صاحب کے کلام کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے، بجاے ایک دو واقعات یا چند اشعار کے، وہ تمام یا اکثر حصے پیش کرتے، جہاں دبیر انیس سے بڑھ کر یا برابر کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ہوتا تو پھر ان سے کوئی شکایت نہ ہوتی اور ترجیح انیس کے متعلق ان کی راے پھر بھی درست ہی رہتی۔
ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اور حافظ محمود شیرانی نے شعر العجم کی تحقیقی غلطیوں پر سخت گرفت کی، البتہ مصنف کا کہنا ہے:
مختلف لوگوں نے مضامین اور رسالے لکھ کر اس کی تاریخی و تنقیدی غلطیاں دِکھائیں۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ علامہ شبلی مؤرخ سے زیادہ نقاد تھے۔ شعرالعجم کی تالیف کا مقصد یہ تھا کہ فارسی شاعری کی وسعت و جامعیت ثابت کی جائے اور تنقید و موازنہ کر کے شاعروں کے کمالات دِکھائے جائیں۔ اس کام کے لیے فی الجملہ ملکی تاریخ اور شاعری کا ارتقا بھی بیان کرنے کی ضرورت تھی اور شاعروں کے حالات بھی، لیکن ذاتی حالات یا ملکی تاریخ مقصود بالذات نہ تھی۔
اس تاریخ میں دوسری تمام تواریخ کے مقابلے میں شعر العجم کے حوالے سے پروفیسر براؤن کی ادبی تاریخِ ایران پر شبلی کے بیان پر تبصرہ ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ شبلی کی طرف سے براؤن کی تاریخ کو ’عامیانہ اور سوقیانہ‘ قرار دینے پر مصنف نے سخت تنقید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ شبلی کا بیان درست نہیں ہے۔ مصنف نے شبلی کے مذکورہ تبصرے کے برعکس پروفیسر براؤن کی ’انصاف پسندی اور کشادہ دِلی‘ کی تعریف کی ہے اور شعر العجم کے منظر عام پر آنے کے بعد براؤن کی طرف سے اپنی تاریخ کی آئندہ جلد میں شعر العجم سے استفادے اور شبلی کے بعض بیانات کی تحسین کا ذکر کیا ہے۔
اس تاریخ کا ایک اہم وصف ’تصانیفِ شبلی کے نمونے‘ ہے، جس میں المامون، سیرۃ النعمان، الفاروق، سفرنامہ روم و مصر و شام، الغزالی، علم الکلام، الکلام، سوانح مولانا روم، موازنۂ انیس و دبیر، شعر العجم، سیرت النبیؐ، رسائل و مقالات، مقالاتِ شبلی اور مکاتیب و خطوط سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ مصنف نے محض اقتباسات پر اکتفا نہیں کی، بلکہ ہر کتاب کا تصنیفی پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے اور اس تصنیف کی قدر و قیمت پر بھی بحث کی گئی ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ یہ کام [المامون] حقیقت میں نہایت دُشوار ہے، لیکن علامہ شبلی نے اپنے علم و فضل، وسعت مطالعہ سے اور اس سے زیادہ اپنے ذوقِ صحیح اور دقتِ نظر سے ایسی خوبی کے ساتھ انجام دیا کہ اردو میں اس سے بہتر نمونہ موجود نہ تھا۔
۲۔ [سیرۃ النعمان کی] کی ترتیب و تالیف میں علامہ کی جدت اور مسائل کے فیصلہ و محاکمہ میں ان کا اجتہاد شامل ہے۔ یہی اجتہاد علامہ اور علما کے درمیان اختلاف کا باعث ہوا تھا۔
۳۔ باوجود اعتراضات کے، الفاروق ایسی جامع و مکمل کتاب تالیف ہوئی ہے کہ کسی زبان میں اس کا جواب موجود نہ تھا۔ خود علامہ کی ادبیت الفاروق میں پہلی سب کتابوں سے بہتر ہے۔
۴۔ ان کے ذہنِ رسا اور دقتِ نظر نے کلامِ انیس کا جیسا تجزیہ و تبصرہ کیا ہے؛ جو نکتے نکالے ہیں، جو موازنے کیے ہیں؛ وہ دوسرے [سرے؟] سے مشکل تھے۔
۵۔ یہ تمام مضامین [مقالاتِ شبلی] علامہ شبلی کے زورِ قلم، قوتِ استدلال، وسعت تحقیق اور دقتِ نظر کے شاہد ہیں۔ بعض جگہ ان کی راے و نظریہ سے اختلاف ہو سکتا ہے، کہیں کہیں تحقیق میں جانب داری بھی پائی جاتی ہے؛ لیکن یہ جزئی باتیں ہیں، اس لیے لائقِ اعتنا نہیں۔ علامہ نے بعض ایسے مضامین (مثلاً تاریخی) پر قلم اٹھایا ہے، جن کی طرف اُن سے پہلے کسی کی توجہ نہ ہوئی تھی اور جن کی اہمیت آج بھی مسلّم ہے۔
حامد حسن قادری نے شبلی سے متعلق جو راے قائم کی ہے، اس میں دوسروں کے تعصبات کا کوئی دخل نہیں، اور یہی اس تاریخ کی سب سے بڑی خاصیت قرار دی جا سکتی ہے؛ مثلاً انھوں نے خطوطِ شبلی کی ذیل میں منشی محمد امین زبیری اور مولوی عبدالحق کے خیالات کو نقل کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ ’لوگوں کی ستم ظریقی ہے کہ مرے ہوؤں کے گھر کے بھید اور دل کی باتیں سرِبازار تشہیر کر دیتے ہیں اور ’ستم ظریفی‘ کا لفظ اگر کہیں صادق آ سکتا ہے تو اس کا بہترین محل یہ خطوطِ شبلی ہیں‘۔چنانچہ مصنف نے ’محبت و خلوص‘، ’فارسی پڑھانے کا شوق‘، ’موسیقی سکھانے کا شوق‘، ’عورتوں کے اوصاف علامہ کی نظر میں‘ اور ’اپنی تصانیف اور شاعری کے متعلق‘ عنوانات کے تحت خطوطِ شبلی سے اقتباسات پیش کیے، لیکن کسی راے اور تبصرے کے بغیر۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، داستانِ تاریخِ اردو کا زیرِ بحث حصہ بجاے خود ایک کتاب کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے مطالعے سے شبلی سے متعلق تمام تر بنیادی معلومات، ان کے علمی و ادبی کارناموں سے شناسائی، ان کی قدر و قیمت اور اسلوب کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
(۳)
ڈاکٹر ابو سعید نورالدین کی تاریخِ ادبیاتِ اردو مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور کی طرف سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوئی، لیکن جیسا کہ ڈاکٹر عندلیب شادانی نے اس تالیف کا تعارف ۵؍مارچ ۱۹۶۹ء کو لکھا گیا، اس لیے ضروری ہے کہ کتاب اس سے پہلے پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہو۔ خود مصنف نے ۱۵؍ستمبر ۱۹۸۹ء کو لکھے گئے دیباچہ کتاب میں یہ کہہ کر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’پیش نظر کتاب ایک تحریک کے ماتحت بہت پہلے لکھی گئی تھی، لیکن اس کی اشاعت میں بڑی تصویق پیش آئی، جو خلافِ توقع تاخیر کا باعث ہوئی‘۔بہرحال، ۱۹۶۹ء یا اس سے قبل لکھی ہوئی یہ کتاب نظرثانی کے بعد ۱۹۹۷ء میں منظرعام پر آئی۔
یہ کتاب دو حصوں، یعنی حصہ اوّل ’اردو نثر‘ اور حصہ دوم ’اردو نظم‘ پر مشتمل ہے اور دونوں حصے الگ الگ جلد کی صورت میں شائع ہوئے۔ پہلی جلد پانچ ابواب میں منقسم ہے، جس میں سے علامہ شبلی باب چہارم ’اردو نثر میں اصلاحی اقدام‘ میں زیرِ بحث آئے ہیں۔
ابو سعید لکھتے ہیں کہ ’تاریخ، تحقیق اور تنقید سب معاملے میں مَیں نے قابلِ اعتماد تحقیقات اور تنقیدی رویوں سے فائدہ اٹھایا ہے؛ البتہ حسب ضرورت جگہ جگہ اپنے خیالات اور رویوں کا اظہار کیا ہے، بالخصوص تبصروں کی شکل میں جو کچھ لکھا ہے، وہ سب ہی اپنے خیالات ہیں‘؛چنانچہ زیرِ بحث حصے میں بھی مؤلف نے یہی انداز اپنانے ہوتے شبلی نعمانی کے سوانحی کوائف درج کیے ہیں؛ البتہ ’ادبی زندگی‘ کی ذیل میں تصانیفِ شبلی کے تجزیاتی مطالعے میں انھوں نے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس حصہ باب میں ابوسعید اوّل اوّل کتاب کا تعارف، بعض ناقدین کی راے اور اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں، ساتھ ساتھ نمونۂ عبارت بھی اقتباس کرتے ہیں۔ الفاروق پر ان کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے:
مولانا شبلی کی الفاروق لاجواب کتاب ہے۔ اردو میں کیا، کسی زبان میں بھی اس پایے کی کتاب موجود نہ تھی۔ اس کے بعد اردو میں دوسرے علما نے حضرت عمر فاروقؓ پر چھوٹی بڑی کئی سوانح عمریاں لکھی ہیں، لیکن سب مولانا شبلی کے زلہ خوار معلوم ہوتے ہیں۔
سفرنامۂ روم و مصر و شام کے تحت ابو سعید کا یہ کہنا محل نظر ہے کہ ’پروفیسر آرنلڈ بھی ساتھ تھے، لیکن وہ مولانا کو راستہ میں ہی چھوڑ کر ولایت جانے کے لیے آ گے بڑھ گئے‘،؂حالانکہ آرنلڈ اسی ارادے سے عازمِ سفر ہوئے تھے اور شبلی نعمانی اس سے باخبر تھے۔ اس سفرنامے کے بارے میں مؤلف کا یہ کہنا بھی بحث طلب ہے کہ ’یہ کتاب مولانا کا کوئی قابلِ فخر کارنامہ نہیں ہے۔ اس میں ایک طالب العلمانہ تلاش اور جستجو پائی جاتی ہے‘۔
موازنۂ انیس و دبیر پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ شبلی نے میر انیس کو مرزا دبیر پر زبردستی ترجیح دی ہے، ابو سعید نے بجا لکھا ہے کہ ’موازنۂ انیس و دبیر میں جو خوبیاں بیان ہوئی ہیں، ان کے مقابلے میں یہ اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھتا‘۔۴۴؂ ان کے خیال میں ’مولانا شبلی کی یہ کتاب اردو میں اپنی قسم کی پہلی اور بہترین ہے‘۔
عطیہ فیضی کے حوالے سے انھوں نے لکھا:
ان کو ہم نے ۱۹۶۰ء کے درمیان کے سالوں میں دیکھا ہے ۔۔۔ ان کی زندہ دِلی اور شوخی طبع اُن دِنوں میں بھی غضب کی تھی۔ ان کو دیکھ کر ہمیں مولانا شبلی اور علامہ اقبال یاد آتے تھے۔ ان کی وجہ سے مولانا شبلی کافی بدنام بھی ہوئے، علامہ اقبال کے بارے میں بھی بعض لوگوں کو بدگمانی رہی۔
درج بالا بیان کے پس منظر میں طنز کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جس کا تعلق کسی مؤرخ، محقق یا نقاد سے نہیں ہو سکتا۔
شبلی کی نثری خدمات کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے جن چند نکات سے شبلی کی انفرادیت کا اظہار کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ ان کی نثر شگفتہ، بلکہ دلفریب ہے، اس میں دلربائیاں پائی جاتی ہیں، ان کی عبارت میں عالمانہ شان ہونے کے باوجود دلکشی اور جاذبیت قائم رہتی ہے۔ ان کی تحریروں میں انقباض نہیں، بلکہ ہر جگہ انبساط ہے۔ پڑھنے سے دِماغ کو تسکین اور دل کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔
۲۔ سرسید کی صحبت سے انھوں نے جدید دَور کے تقاضے کو محسوس کیا اور اس کے نئے رجحانات سے واقف ہوئے، لیکن انھوں نے مولانا حالی کی طرح اپنے آپ کو سرسید میں مدغم نہیں کیا اور اپنی شخصیت کو برابر ان سے الگ تھلگ ہی رکھا۔
۳۔ موضوع کے اعتبار سے مولانا شبلی اوّل درجے کے سوانح نگار ہیں، اس کے بعد وہ ایک مؤرخ بھی ہیں اور متکلم بھی، ایک نقاد بھی ہیں اور انشاپرداز بھی۔
۴۔ سوانح نگاری میں مولانا حالی کو اوّلیت حاصل ہے، لیکن مولانا شبلی نے اس صنفِ ادب کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ سیرت النبیؐ، سوانح مولانا روم اور الفاروق لکھ کر انھوں نے جو دادِ تحقیق دی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔
۵۔ علم الکلام کا انداز بھی ان سے پہلے سرسید نے ڈال دیا تھا، لیکن مولانا شبلی نے اس میں وسعت نظر اور دِقت نظر سے کام لیا۔ ان کی خدمات سید کے مقابلے میں اس ضیغۂ علم میں زیادہ ہیں۔
۶۔ تنقید میں مولانا نے موازنۂ انیس و دبیر اور شعر العجم لکھ کر جو خدمات انجام دیں، وہ بہت ہی قابلِ قدر ہیں۔
۷۔ بحیثیت مؤرخ کے، مولانا شبلی کا درجہ ذرا گھٹا ہوا ہے۔ تاریخی واقعات کی غلطیاں ان کی کتابوں میں کافی پائی جاتی ہیں۔
۸۔ مولانا شبلی کو مؤرخ کے بجاے ایک کامیاب سوانح نگار قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ وہ بنیادی طور پر ایک سوانح نگار تھے، ان کی دوسری تمام حیثیات ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔
درج بالا تنقیدی آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ شبلی کی ادبی خدمات کے بارے میں یہ آرا قابلِ توجہ ہیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ ’اردو نظم‘ پر مشتمل ہے، جو باب ششم سے باب دہم، پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ شبلی نعمانی کا تذکرہ باب نہم ’اردو نظم میں اصلاحی اقدام‘ میں مولانا حالی اور اسماعیل میرٹھی کے درمیان ملتا ہے۔ محض دو صفحات پر مشتمل اس تذکرے کا نصف حصہ کلامِ شبلی سے اقتباس سے مزین ہے اور باقی عبارت تبصرے کی ذیل میں آتی ہے۔ ان کے ہاں سے تین اقتباس دیے جاتے ہیں، جن سے ان کے تنقیدی نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ مولانا شبلی کو اسلام اور مسلمانوں سے عشق تھا۔ انھوں نے مذہبی اور قومی شاعری کو بڑی ترقی دی، بعض موقعوں پر پوری پوری مذہبی روایتیں نظم کر دی ہیں۔ ۔۔۔ وہ قوم کی ان پرانی عظمتوں کے نوحہ خواں ہیں، جو اَب امتدادِ زمانہ سے فسانہ بن چکی ہیں۔ وہ قوم کو اس غفلت سے بیدار کر کے پھر اس کی بھولی بسری کہانی یاد دِلانا چاہتے ہیں۔
۲۔ شاعری میں ان کی زیادہ سے زیادہ اہمیت اتنی ہے کہ انھوں نے بھی اس عہد کے دوسرے شاعروں کی طرح زمانے کے نئے رُخ کو پہچانا اور شاعری میں نیا طرز اختیار کیا۔
۳۔ مذہبی اور قومی شاعری کے علاوہ انھوں نے ایسی غزلیں بھی کہی ہیں، جن میں تغزل پایا جاتا ہے اور بعض جگہ فارسی ترکیبیں اس قدر خوش اسلوبی سے استعمال کی ہیں کہ ان کا کلام گویا غالب کے کلام سے لگا کھاتا ہے۔
اوّل الذکر دونوں اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ شبلی کی شاعرانہ عظمت نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن تیسرے اقتباس سے ان کی شاعری کے غالب سے لگا کھانے کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ غالباً وہ یہاں محض رنگِ غالب کی بات کرتے ہیں، عظمت غالب سے اس جملے کو کوئی علاقہ نہیں۔ اس کے برعکس کلامِ شبلی کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کا تعلق ایک طرف غالب سے ہے تو دوسری جانب اقبال سے۔ یہاں کلامِ شبلی سے دیے گئے چند اشعار سے مثال دی جاتی ہے:
وہ بھی تھا ایک دِن کہ یہ حسرت سراے دِل
اِک محشرِ نشان وفورِ سرور تھا
رنگینی خیال سے لبریز تھا دِماغ
جو شعر تھا چراغِ شبستانِ حور تھا
سینہ میں تھا چمن کدۂ صد امیدِ نَو
آنکھوں میں کیفِ بادۂ ناز و غرور تھا
ان اشعار کو مصنف نے رنگِ غالب سے سرشار پایا ہے، جب کہ نیچے دیے گئے اشعار سے اقبال کا رنگ جھلکتا ہے:
کون تھا ، جس نے کیا فارس و یوناں تاراج
کس کی آمد میں فدا کر دیا جے پال نے راج
کس کو کسریٰ نے دیا تخت و زر و افسر و تاج
کس کے دربار میں تاتار سے آتا تھا خراج
تجھ پہ ، اے قوم! اثر کرتا ہے افسوں جن کا
یہ وہی تھے کہ رَگوں میں ہے تِرے خوں جن کا
گویا ڈاکٹر ابو سعید نورالدین رنگِ شبلی کی خصوصیات کی نشا دہی میں ناکام رہے ہیں اور انھوں نے عمومی تبصرے سے کام چلایا ہے۔
(۴)
اردو کی ادبی تاریخوں میں سب سے اڈیشن ڈاکٹر سلیم اختر کی اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ہے۔ اس منصوبے کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا، ۱۹۷۰ء میں مسودہ مکمل ہو گیا اور ۱۹۷۱ء میں اس کا پہلا اڈیشن منصہ شہود پر آگیا؛ البتہ زیرِ نظر کتاب کا اکتیسواں اڈیشن ہے، جو ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا ہے۔
کتاب کے عنوان میں لفظ ’مختصر ترین‘ اس اختصار کی طرف توجہ دِلا رہا ہے، جو مصنف کے پیش نظر ہے، چنانچہ موضوعِ زیرِ بحث سے متعلق بھی کتاب کے محض دو صفحے مختص ہو سکے۔
ڈاکٹر سلیم اختر کی اس تاریخ کا تعلق تحقیق سے زیادہ انشاپردازی سے ہے، چنانچہ اس کے تنقیدی، تجزیاتی یا تاثراتی آرا اپنے اسلوب کی بنا پر زیادہ متوجہ کرتی ہیں۔
۱۔ شبلی کئی معاملوں میں حالی کے برعکس تھے، شاید اسی لیے وہ تمام عمر سرسید کے نظریات کے دائرہ میں محبوس نہ رہ سکے۔
۲۔ وہ اچھے نقاد بھی تھے، بلکہ تحسین شعر اور شاعری سے متعلق مسائل کی تفہیم میں حالی سے بڑھ جاتے ہیں، البتہ جذباتیت کے باعث تنقیدی آرا میں افراط و تفریط کے شکار ہو جاتے ہیں۔
۳۔ پانچ جلدوں پر مشتمل شعر العجم فارسی شاعری کی تاریخ ہی نہیں، بلکہ چوتھی جلد میں شعر، شاعری، محاکات، تخیل، جذبہ اور شاعری اور ماحول کے تعلق پر ژرف نگاہی پر مبنی خیالات کا اظہار کیا، چنانچہ تخیل پر شبلی نے حالی سے کہیں بہتر بحث کی ہے۔
۴۔ شبلی کی[سوانحی] تصانیف دیکھ کر قدم قدم پر ان کی محنت اور جستجو کا احساس ہوتا ہے، اسی لیے یہ کتابیں محض کسی عظیم شخصیت کے کوائفِ زیست کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس کے عہد اور معاشرت کی تصویر اور متذکرہ شعبۂ علم کی تاریخ بھی ہیں۔
۵۔ بحیثیت مجموعی عبارت متانت کا رنگ لیے اور عالمانہ شان کی حامل ہے۔ طولِ بیان سے بھی پرہیز کرتے ہیں، بلکہ الفاظ کا اتنا شعور ہے اور ان کے استعمال میں اتنا حسن سلیقہ کہ کم سے کم الفاظ میں بڑے سے بڑے مفہوم کا ابلاغ کر لیتے ہیں۔ اسلوب کے لحاظ سے بھی انھیں حالی پر فوقیت دی جا سکتی ہے۔
ان کے بعض بیانات محض چونکا دینے کے لیے ہیں، مثلاً (۱)’انگریزی سے واقف تھے، اس لیے سرسید کے کتب خانہ سے خوب استفادہ کیا‘،؂حالانکہ یہ بات درست نہیں اور شبلی براہِ راست انگریزی سے استفادے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔(۲)’انھوں نے ۱۸۹۲ء میں پروفیسر آرنلڈ کی معیت میں مشرقِ وسطیٰ ترکی اور مصر کی سیر کی‘ ،درست بات یہ ہے کہ آرنلڈ کے یورپی سفر میں استنبول جانے کے لیے شبلی ان کے ساتھ ہو لیے۔ (۳) ’ابھی سیرت النبیؐ کی دو جلدیں ہی چھپ سکیں کہ ان کا انتقال ہو گیا‘ ،جب کہ معلوم ہے کہ سیرت کی ایک جلد بھی ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی، بلکہ اس کی اشاعت کا مرحلہ ان کی رحلت کے بعد سید سلیمان ندوی کے ہاتھوں طے ہوا۔
یقیناًدو صفحات میں اتنی بڑی شخصیت اور اتنے وسیع کام کا احاطہ ممکن نہیں، لیکن ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے خاص اسلوب میں ساری بحث کو سمیٹنے کی کوشش کی، جس میں اگرچہ کامیابی ممکن نہ تھی، البتہ قاری شبلی نعمانی سے متعلق چند ایک بنیادی باتوں سے آگاہ ضرور ہو جاتا ہے۔
(۵)
۱۹۸۳ میں سید احتشام حسین کی مصنفہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شبلی نعمانی شخصیت اور فکر و فن پر تین صفحات وقف کیے گئے ہیں، جو شبلی جیسے عبقری کے لیے یقیناًناکافی تھے، لیکن ۳۴۰؍صفحات پر اس تاریخ میں اس سے زیادہ کا مطالبہ مناسب بھی نہیں۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ تحقیقی نہیں، بلکہ تنقیدی تاریخ ہے؛ چنانچہ اس میں شبلی نعمانی سے متعلق بعض وہی باتیں دہرا دی گئی ہیں، جو رام بابو سکسینہ نے لکھی تھیں اور جن کا تحقیقی جائزہ لیا جا چکا ہے۔ احتشام حسین کی چند آرا پیش کی جاتی ہیں:
۱۔ ’۱۸۸۲ء میں شبلی علی گڑھ کالج میں فارسی کے استاد ہو کر چلے گئے‘ ،حالانکہ شبلی جنوری ۱۸۸۳ء میں علی گڑھ کالج میں ملازم ہوئے اور وہ بھی اسسٹنٹ عربک پروفیسر۔
۲۔ ’آرنلڈ کے ساتھ وہ مصر و شام اور دوسرے اسلامی ممالک بھی گئے‘ ۔اس سلسلے میں اوپر بحث کی جا چکی ہے۔
البتہ ان کے بعض تنقیدی بیانات قابلِ لحاظ ہیں اور ان سے شبلی کے مقام و مرتبہ کا تعین کرنے میں مدد ملتی رہی ہے:
۱۔ شبلی کے تاریخی نقطہ نظر اور مذہبی خیالات سے خود ان کیے ہم مذہبوں نے اختلاف ظاہر کیا ہے، مگر ادبی تخلیق کے اعتبار سے ان کی بڑی اہمیت ہے۔
۲۔ ان کے ادبی تجزیوں میں غلطیاں بھی ہیں، پھر بھی ان کی ادبی اہمیت سے رُوگرداں نہیں ہو جا سکتا۔
۳۔ شبلی کی تنقیدی سائنسی تو نہیں ہوتی، مگر شعر و ادب سے محظوظ ہونے کے لیے بہت سے راستے دِکھاتی ہے۔
۴۔ انھوں نے فلسفیانہ مسائل پر جو کچھ لکھا ہے، اس میں بھی غلطیاں ہیں، مگر اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے پہلے کسی نے بھی مغرب و مشرق کے علما کے خیالات اس طرح جمع نہیں کیے تھے اور نہ ان کو اسلامی فلسفے کے نقطہ نظر سے دیکھا تھا۔
۵۔ مولانا شبلی کی زبان بڑی پُرکیف، رواں اور ر نگین ہوتی ہے۔
۶۔ ان کے مضامین اور مکاتیب کے مجموعے بھی گہرے مطالعے کی چیز ہیں۔ ان سے شبلی کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
سید احتشام کی دو آرا ایسی ہیں، جو نہایت اہم ہیں، مثلاً(۱) شبلی نے شعر و ادب سے محظوظ ہونے کی راہ سجھائی ہے اور یہ کہ (۲) انھوں نے مشرق و مغرب کے علما کے خیالات کو پہلی مرتبہ یکجا کیا اور انھیں اسلامی فلسفے کے نقطہ نظر سے دیکھا، لیکن ان کی طرف سے شبلی کی زبان کو ’رنگین‘ قرار دینا بحث طلب ہے اور غالباً یہ خصوصیت ان کی مجموعی نثر سے لگا نہیں کھاتی۔
(۶)
۱۹۹۱ء میں ڈاکٹر انور سدید کی اردو ادب کی مختصر تاریخ شائع ہوئی، جب کہ دسواں اڈیشن ۲۰۱۴ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے، جن میں سے شبلی کا تذکرہ دسویں باب میں ’شبلی نعمانی‘ کے تحت صفحہ ۲۸۵ سے ۲۸۷ تک کیا گیا ہے۔
تقریباً دو صفحات پر کسی شخصیت کے خد و خال کسی طور نمایاں نہیں ہو سکتے اور وہ شخصیت اگر شبلی جیسی نابغہ روگازر ہستی ہو تو مزید دُشواری پیش آتی ہے، تاہم اس تاریخ میں چند پیراگراف کے اندر شبلی کی شخصیت کا پورا خاکہ اور اردو ادب میں ان کی خدمات کو جس جامعیت سے پیش کیا گیا ہے، وہ بھی ایک نادر بات ہے۔ ان کے درج ذیل چند جملوں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ شبلی نے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی جنگ پہلے سرسید کے رفیق کی حیثیت میں اور پھر ذاتی حیثیت میں لڑی اور معاشرت، سیاست، مذہب اور ادب پر مستقل اثرات ثبت کیے۔
۲۔ حالی کی خاندانی مفلوک الحالی نے انکسار اور نذیر احمد کی ٹکر گدائی نے انحصار کے زاویے پیدا کیے تھے، لیکن شبلی کے راجپوتی خون نے حریت پسندی کا راستہ قبول کیا اور اظہارِ فکر و نظر کے لیے وہ نئے نئے میدانِ حرب و عمل تلاش کرتے رہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی شوکتِ رفتہ کو عہدِ حاضر میں کتابوں میں مجسم کرنے کی سعی کی۔
۳۔ شبلی کے داخل میں جو جمال پسند تخلیق کار موجود تھا، اُس کی جھلک دستۂ گُل، بُوے گُل اور برگِ گُل کی فارسی تخلیقات میں اور قومی زاویہ دوسری نظموں میں سامنے آتا ہے اور ان سے شبلی کی جذباتی زندگی کے جزر و مد کا گراف بنانا بھی ممکن ہے۔ان کی شخصیت کے بعض دلآویز خطوط ان کے مکتوبات، رسالہ الندوہ اور سفرنامۂ روم و مصر و شام سے ظاہر ہو جاتے ہیں۔
۴۔ شبلی ادیب اور شاعری ہی نہیں، عالم اور مفکر بھی تھے۔ انھوں نے مفکر کی حیثیت میں جو کچھ سوچا، اسے ادیب کی حیثیت میں پیش کیا۔
۵۔ اسلاف کی سوانح سے عہدِ حاضر کے مسلمانوں کو حوصلہ اور قوت عطا کی اور سرسید سے علیحدہ ہوئے تو ان کی علمی جہت کو برقرار رکھتے ہوئے پہلے ندوۃ العلما اور پھر دارالمصنّفین قائم کیا۔
۶۔ شبلی رفقاے سرسید میں سے منفرد اسلوب کے ادیب کی حیثیت میں نمایاں ہوئے۔ ان کی نثر داخلی طور پر توانا اور ولولہ انگیز ہے۔ وہ غیر معمولی آرائش کے بغیر ہی قاری کے دل میں اتر جاتے ہیں اور طنز کی ہلکی سی چبھن اس نثر کو عبرت انگیز بنا دیتی ہے۔
انور سدید نے شبلی کی خطوط نگاری ان کی رومانی اسلوب کی آئینہ دار قرار دیا ہے۔ان کے خیال میں یہ خطوط ان کی جذباتی وارفتگی کو بھی پوری طرح منعکس کرتے ہیں۔ انور سدید غالب کے بعد شبلی کو اردو کا بلند مرتبہ مراسلہ نگار سمجھتے ہیں۔ ان خطوں کے حوالے سے مصنف نے بعض نئی باتیں لکھی ہیں:
شبلی کے خطوط، ہرچند مقصد کی ڈور میں لپٹے ہوئے ہیں، لیکن ان کے ہاں مقصد کی تکمیل جذباتی آسودگی ہی کا عنوان ہے۔ یہ خطوط ایک ایسے جمال پرست انسان کے ہیں، جو مایوسی سے ہم کنار نہیں ہوتا اور بیداری کے خوابوں کو بیان کرنے کا حوصلہ رکھنے کے علاوہ ان کی تعبیر دیکھنے کا بھی آرزو مند ہے۔ وہ اپنے خطوط میں مجسم مسرت و انبساط نظر آتے ہیں اور اچھی کتاب، اچھا لطیفہ اور خوب صورت جملہ ان کی رَگوں میں خون کی گردش تیز کر دیتا ہے۔عطیہ کے نام ان کے خطوط اسی مزاج کے عکاس ہیں۔
البتہ انھوں نے اس خیال کی تردید کی ہے کہ ’شبلی عورتوں کو خطوط لکھنے والے پہلے ادیب تھے‘۔ ان کی تحقیق کے مطابق، ’ان سے قبل واجد علی شاہ اس صنف میں اپنا سکہ قائم کر چکے تھے‘۔
صفحہ ۳۰۹ پر مصنف نے ’سفرنامہ‘ کی ذیل میں سفرنامۂ روم و مصر و شام کو شبلی کی علمی جستجو کا مظہر اور ان کی داخلی جستجو کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ انور سدید کا کہنا بجا ہے کہ کتاب کی جذباتی دردمندی پر اس کا علمی مرتبہ غالب آ گیا ہے۔
اس نہایت مختصر تحریر میں انور سدید نے مطالعہ شبلی میں جو نتائج برآمد کیے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس موضوع پر مفصل لکھتے تو تنقید شبلی میں کئی نئے در وا ہو سکتے ہیں۔
(۷)
تبسم کاشمیری کی رجحان ساز اردو ادب کی تاریخ، جسے بجا طور پر اردو زبان و ادب کی تواریخ کا سرمایہ قرار دیا جا سکتا ہے، ۲۰۰۳ء میں سنگ میل لاہور کی طرف سے منصہ شہود پر آئی۔ اگرچہ اس تاریخ کی حدود ابتدا سے ۱۸۵۷ء تک ہیں اور ظاہر ہے کہ شبلی کی ادبی خدمات کا تعلق بعد کے دَورسے ہے، تاہم مصنف نے شبلی نعمانی کی تصانیف شعر العجم اور موازنۂ انیس و دبیر کی بعض تنقیدی آرا سے استفادہ کیا ہے، اس وقت انھی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
کتاب کے باب نہم ’شمالی ہند میں نئی لسانی روایت کا آغاز اور محرکات‘ میں ایہام گوئی کی تحریک کے تحت دلّی کی ادبی فضا پر صائب اور بیدل کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس مقام پر ڈاکٹر تبسم نے لفظوں کے در و بست اور نشست و برخاست کے حوالے سے اُس وقت کے فارسی شعرا کے بارے میں شبلی کے اس بیان کو پیش کیا، یعنی ’قدما اور متوسطین کسی خیال کو پیچیدگی سے نہیں ادا کرتھے تھے۔ متاخرین کا یہ خاص انداز ہے کہ جو بات کہتے، پیچ دے کر کہتے‘،اسی طرح درد کی شاعری پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر تبسم شبلی کے اس بیان سے اپنی بات پر زور دیتے ہیں کہ ’وحدت الوجود بادۂ تصوف کا نشہ ہے‘۔
انیس و دبیر پر گفتگو کرتے ہوئے شبلی کو نظرانداز کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ شبلی سے اتفاق کریں یا اختلاف، انیس و دبیر پر بات مکمل ہی نہیں ہوتی، جب تک شبلی کے خیالات زیرِ بحث نہ آئیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے اب تک اس پر شدید ردّعمل منظر عام پر آ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی؛ چنانچہ ڈاکٹر تبسم کے ہاں بھی اس کتاب سے استفادے کی کئی ایک مثالیں سامنے آتی ہیں۔
ڈاکٹر تبسم نے کتاب کے باب انیس ’مرثیہ: لکھنؤ کی مذہبی ثقافت کا ایک مظہر‘ میں انیس و دیبر کا موازنہ کرتے ہوئے دبیر پر شبلی کے اعتراضات کا ذکر کیا اور ان کا خلاصہ پیش کر کے سید عابد علی عابد کے مقدمہ موازنہ سے ان کا جواب دیا اور دلیل میں ایک طویل اقتباس درج کیا؛ لیکن وہ خود عابد علی عابد سے متفق نہ ہو سکے اور اپنے تاریخی شعور اور مؤرخانہ نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے شبلی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ لکھتے ہیں:
کسی شاعر کی فنی عظمت کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ اپنے تخلیقی سرمایے کے ساتھ کس حد تک نئے ادوار میں داخل ہو کے آگے جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے اگر دبیر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بیسویں صدی کے آغاز ہی سے اس کے قدم ادبی تاریخ کے سفر میں لڑکھڑانے لگتے ہیں۔
شبلی نعمانی کے تنقیدی خیالات سے استفادہ اور دبیر سے متعلق ان کے خیالات کی خاموش تائید سے ڈاکٹر تبسم کے ہاں شبلی کے تنقیدی افکار کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
(۸)
اردو زبان و ادب کی ایک اہم تاریخ، جسے ڈاکٹر جمیل جالبی کا ایک شاندار علمی کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے، تاریخِ ادبِ اردو ہے، جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ مجلس ترقی ادب لاہور کی جانب سے اس تاریخ کی جلد اوّل ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی، دوسری ۱۹۸۲ء میں، تیسری جون ۲۰۰۶ء میں اور تیسری جلد ۲۰۱۲ء میں منصہ شہود پر آئی۔
جلد اوّل میں شبلی کی شعر العجم کا ایک حوالہ ہے، جلد دوم میں شعر العجم اور مقالاتِ شبلی سے ایک ایک، جلد سوم میں موازنہ انیس و دبیر سے دو اور جلد چہارم میں موازنہ انیس و دبیر کا حوالہ ’میر ببر علی انیس‘ میں نو مرتبہ اور ’مرزا سلامت علی دبیر‘ میں تین دفعہ دیا گیا ہے۔
اب تک علامہ شبلی نعمانی پر سب سے جامع مقالہ زیرِ نظر تاریخ کی چوتھی جلد میں ملتا ہے، جو کتاب کے صفحہ ۱۰۵۹ سے ۱۱۰۷ کو محیط ہے اور ۱۱۳؍حوالوں سے مزین ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس باب کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے؛ یعنی ’تمہید، حالاتِ زندگی، عطیہ فیضی، شخصیت و مزاج‘، ’شبلی کی تصانیف‘(علم الکلام اور شبلی، شبلی اور تاریخ نویسی، ادب اور تنقید، شبلی کی نثر نگاری اور طرزِ ادا) اور ’شبلی کی شاعری‘۔
مقالے کے پہلے ذیلی عنوان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی ابھی تک امین زبیری اور وحید قریشی کے زیرِ اثر ہیں،و رنہ مقالے کی ابتدا میں عطیہ فیضی کا نام ٹانکنا کچھ ایسا ضروری نہیں تھا کہ جس کے بغیر شبلی نعمانی کی شخصیت مکمل نہ ہوتی۔ اگر شبلی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے عطیہ واقعی اہم ہیں تو سرسید، علی گڑھ، ندوۃ العلما اور دارالمصنّفین کا تذکرہ بھی اسی جگہ ہونا چاہیے تھا، کیونکہ شبلی کی شخصیت پر ان سب کے عطیہ فیضی سے زیادہ اثرات ہیں۔
ابتدائی حصے میں بالعموم حیاتِ شبلی، مکاتیبِ شبلی، سفرنامہ روم و مصر و شام، خطوطِ شبلی سے کام لیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ حصہ بہت مفصل ہے اور اس سے شبلی کے سوانح، شخصیت اور ذہنی و فکری ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، لیکن اس میں تقدیم و تاخیر کا لحاظ کم ہی رکھا گیا ہے؛ بالخصوص عطیہ فیضی سے تعلق اور گزندِ پا کا واقعہ زمانی اعتبار سے اپنے اپنے مقام پر نہیں۔ شبلی کی شخصیت سازی پر لکھتے ہوئے بھی مختلف خیالات کو یکجا کر دیا گیا ہے اور اس میں حسن تربیت کا خیال نہیں رکھا گیا۔
اوّل اوّل جملہ تصانیف کا مختصراً تعارف کرایا گیا ہے، جس کے بعد ان تصانیف کا مختلف شعبوں کے اعتبار سے الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے۔ ’علم الکلام اور شبلی‘ بجاے خود ایک اعلیٰ تنقیدی مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔ بلاشبہ یہ مضمون اپنے موضوع پر ایک ایسی تحریر ہے، جس پر اضافہ بہت مشکل ہے۔ اس حصے میں شبلی کی تمام کلامی کتب (علم الکلام، الکلام، الغزالی اور سوانح مولانا روم) کا بہت اچھا تجزیہ کیا گیا ہے۔ علم الکلام، الکلام کے حوالے سے راے قائم کرتے ہوئے مصنف نے اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
اس میں شک نہیں کہ موجد کی حیثیت سے مولانا نے غلطیاں بھی کی ہیں، مگر اس سے ان کی جدت اور اوّلیت کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ ۔۔۔ یہ بات مسلّم ہے کہ علم الکلام اور الکلام اردو میں اپنی قسم کی پہلی تصانیف ہیں اور انھیں مذہب کو جدید روشنی میں قائم رکھنے کی اہم ترین کوششوں میں شمار کرنا چاہیے۔
جالبی الغزالی اور سوانح مولانا روم کو علم الکلام کی کتابیں قرار دیتے ہیں اور ان کی سوانحی حیثیت سے مطمئن نہیں ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، امام غزالی جدید علمِ کلام کے موجد ہیں اور اس لیے اس کتاب میں وہ اپنی توجہ علمِ کلام پر مرکوز رکھتے ہیں۔ ۔۔۔ اگر الغزالی کو سوانح کے معیار سے دیکھا جائے تو اس میں مسلمانوں کے سب سے اہم فلسفی امام غزالی کے علم اور ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیا گیا، اس لیے جدید سوانح نگاری کے معیار پر یہ پوری نہیں اُترتی۔
محسوس ہوتا ہے کہ مولانا روم کی مثنوی کا مطالعہ کرتے ہوئے علمِ کلام ان کے ذہن پر اس درجہ سوار تھا کہ وہ فارسی شاعری کا اعلیٰ مذاق رکھنے کے باوجود، مثنوی کی جادو بیان شاعری کو نہیں دیکھ پائے اور اس میں سے علمِ کلام نکال کر رہ گئے، جو اس میں ضرور ہے، لیکن شاعری کے جادو پر فوقیت نہیں رکھتا۔
جمیل جالبی کو شبلی کی تاریخ نویسی پر بھی کئی ایک اعتراضات ہیں۔ ان کے خیال میں ’تاریخ نویسی میں بھی مذہب و ملت سے ان کی گہری دلچسپی نمایاں رہتی ہے اور ان کی تاریخ بھی علمِ کلام کے دائرے میں رہتی ہے‘ اور یہ کہ ’ان کی تاریخی تصانیف میں مخالف رایوں پر بحثیں ملتی ہیں اور اکثر ’تاریخ‘ غیر جانب دارانہ رویہ پیش کرنے کے بجاے دفاعی استدلال پیش کرتی ہے‘۔وسری جانب یورپی تاریخی کتب کے مطالعات کی وجہ سے شبلی سے جو توقعات رکھتے ہیں، وہ پوری نہیں ہوتیں؛ چنانچہ تقریباً سات صفحات پر محض یہی سمجھا سکے کہ ’ان کی تاریخی تصانیف پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ عقیدہ کی بِنا پر جو بات ان کے دل میں بیٹھ گئی ہے، وہ اس کے خلاف بات پر استدلال کرنے میں لگے ہوئے ہیں‘۔
جمیل جالبی نے شبلی کی تاریخی تصانیف کو دو دو حصوں میں منقسم قرار دیا ہے،یعنی ایک حصے میں واقعات یا حالاتِ زندگی اور دوسرے میں اخلاق و عادات اور کارناموں کی تفصیل۔ وہ پہلے حصے کو قدما کے انداز سے قریب سمجھتے ہیں، جب کہ دوسرے حصے کو جدید طرز سے؛ البتہ الفاروق کو ’تاریخ نگاری کا شاہکار‘ تسلیم کرتے ہیں۔
یہ حصہ شبلی کی تاریخ نویسی پر تنقید سے زیادہ اعتراضات سے بھرا ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے، جالبی کسی طور شبلی کی تاریخ نویسی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، چنانچہ ہر پیراگراف میں وہ کوشاں ہیں کہ کسی طرح شبلی کی مؤرخانہ حیثیت کو کم سے کم کیا جا سکے۔
اس مقالے کا ایک اَور جاندار حصہ ’ادب اور تنقید‘ ہے، جس میں موازنۂ انیس و دبیر، شعر العجم، مقالات اور مکاتیب میں شبلی کی تنقیدی آرا کی روشنی میں شبلی کی انتقادی صلاحیتوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’حالی انگریزی معیارِ ادب کو اپنا کر اس میں مشرقی طرزِ تنقید کو ملاتے ہیں، ان کے برخلاف شبلی مشرقی معیارِ تنقید کو بنیاد بنا کر اس میں مغربی فکر کا امتزاج کرتے ہیں‘۔
جمیل جالبی بھی انیس کی طرف داری کے حوالے سے معترض ہیں، تاہم ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ’شبلی انیس کی طرف داری کی وجہ سے موازنہ میں تو کامیاب نہیں ہیں، لیکن خود انیس کا مطالعہ عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہے‘اور یہ کہ ’آج شبلی کی یہ تصنیف میر انیس و مرزا دبیر کے موازنہ کے طور پر اہمیت نہیں رکھتی، لیکن اس کی اصلی اہمیت یہ ہے کہ اس میں جس طرح کلامِ انیس کا تنقیدی مطالعہ کیا گیا ہے، وہ نیا اور اچھوتا ہے‘۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے شعر العجم کے جملہ مندرجات پر جامع گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا یہ کہنا بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ’شعر العجم میں سن،تاریخ،حالات و واقعات کی صحت سے زیادہ شاعروں اور اصنافِ سخن کے تنقیدی جائزہ پر زور دیا گیا ہے۔ یہی تنقیدی مطالعے شعر العجم کی جان ہیں‘اور یہ کہ ’شعر العجم میں مختلف زاویوں سے اضافے کیے جا سکتے ہیں، مگر فارسی شاعری کا ذوق پیدا کرنے اور فارسی شاعری کی روایت کے اصول جاننے کے لیے شبلی سے بہتر رہبر مشکل سے ملے گا‘۔
شبلی کی تنقیدات میں ان کے مقالات کی افادیت سے بھی انکار نہیں۔ ڈاکٹر جالبی نے مقالات کے حوالے سے چند اشارات میں ان کی تنقیدی حیثیت کا تعین کر دیا ہے، لکھتے ہیں:
ایک یہ کہ ’تاریخ‘ ان کے مزاج کا جزوِ اعظم ہے، دوسرے ’اسلامی جذبہ‘ ان کے خون کے ساتھ گردش کر رہا ہے، تیسرے یہ کہ علم و ادب کے تعلق سے مسائلِ حاضرہ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور چوتھی بات یہ کہ وہ نئے سے نئے موضوع یا مسئلہ کو بغیر کسی ابہام کے، اپنے منفرد طرز میں ادا کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔
پہلی اور دوسری خصوصیت کو جالبی کا تکیہ کلام قرار دینے کے باوجود، درج بالا آرا کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ شبلی کی تنقیدی حیثیت کے بارے میں ان کا یہ کہنا حرفِ آخر قرار دیا جا سکتا ہے:
’شبلی کے ہاں اصولِ تنقید تفصیل کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور عملی تنقید میں بھی مذاقِ سخن اس طرح نمایاں ہوتا ہے کہ شعر و ادب کا ایسا ستھرا ذوق کہیں اَور مشکل سے دِکھائی دیتا ہے۔ ۔۔۔ ان کی ادبی تنقید میں فکری عناصر بھی نمایاں ہیں اور کلامی مزاج کے باوجود تنگ دِلی اور شدت کا پتا نہیں چلتا۔
شبلی کی متنوع موضوعات سے متعلق تحریروں میں ان کی انفرادیت تلاش کی جائے تو وہ ان کا اسلوبِ نگار ہے، چنانچہ ڈاکٹر جالبی نے ان کی نثر نگاری اور طرزِ ادا کی خصوصیات کو پانچ اجزا کا مرکب قرار دیا ہے، یعنی قدیم طرزِ انشا، جدید سادگی و صفائی، استدلالی رنگ، شاعرانہ انداز اور فن کاری۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
ان کی زبان علم کے سرمایے سے مالامال ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان و ادب کا بہترین حصہ ان کی تخیل کی ملکیت میں آ گیا ہے۔ شبلی اس اعتبار سے اردو نثر کے وہ فن کار ہیں، جو نثر میں حسن پر کر کے اسے آرٹ بنا دیتا ہے۔ ان کا ذہنی منطقی ترتیب کا پروردہ ہے۔ استدلال ان کا مزاج ہے، اسی لیے شبلی کے ہاں جملے کی ساخت بھی پوری طرح مرتب ہے۔ اسلوب کا نقص ہمیشہ منطق کا نقص ہوتا ہے، شبلی کا طرزِ ادا اس نقص سے مبرّا ہے۔
مقالے کا آخری جزو ’شبلی کی شاعری‘ مجموعی طور پر مقالے کا کمزور ترین حصہ قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس میں شبلی کی اردو اور فارسی شاعری پر مفصل گفتگو نہیں کی جا سکی؛ البتہ شبلی نے مقالے کے پہلے ذیلی عنوان میں عطیہ کے نام کو شامل کیا تو آخر صفحے پر عطیہ کو فراموش نہ کر سکے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی عطیہ کے بغیر علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت اور ان کے فکر و فن کو سمجھنے پر تیار نہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کا یہ مقالہ اپنے اندر بہت سی خوبیوں کے باوجود شبلی کی شخصیت اور ان کے فکر و فن کے بارے میں بعض تعصبات سے عبارت ہے۔ مقالے کے مختلف حصوں میں توازن قائم نہیں رکھا جا سکتا اور بعض آرا جابجا دخل اندازی کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ دَورانِ مطالعہ احساس ہوتا ہے کہ مقالہ نگار شبلی کے مذہبی لگاؤ، ان کے کلامی مزاج اور عطیہ فیضی سے تعلق کی تکون سے باہر نہیں نکل سکا۔ شبلی پر ہونے والے اب تک کے تحقیقی، تنقیدی اور فکری کام کے بعد زیرِ نظر تاریخ میں ایک بہتر مقالے کی توقع کی جا سکتی تھی، جو بوجوہ پوری نہ ہو سکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو زبان و ادب کی تواریخ میں سے رام بابو سکسینہ، حامد حسن قادری، ڈاکٹر ابوسعید نورالدین، ڈاکٹر سلیم اختر،سید احتشام حسین، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہاں کسی نہ کسی درجے پر شبلی کی شخصیت اور فکر و فن پر تنقیدی جائزہ ملتا ہے۔ شبلی پر رام بابو سکینہ کے ہاں ابتدائی تنقیدی جملے خاصے اہم ہیں، بعد ازاں ڈاکٹر سلیم اختر، سید احتشام حسین اور ڈاکٹر انور سدید کے ہاں بھی مختصر گفتگو ملتی ہے؛ البتہ مولانا حامد حسن قادری اور ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہاں علامہ کی شخصیت اور علمی و ادبی فتوحات پر مفصل اور جامع تحقیقی و تنقیدی تبصرے ملتے ہیں۔ ان میں صرف حامد حسن قادری کے ہاں ایک متوازن رویہ ملتا ہے اور انھوں نے علامہ شبلی نعمانی پر لکھتے ہوئے غیر جانب دارانہ اور معروضی نقطہ نظر اپنایا ہے۔
د
 

ڈاکٹر خالد ندیم
About the Author: ڈاکٹر خالد ندیم Read More Articles by ڈاکٹر خالد ندیم: 15 Articles with 45043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.