قدرت اللہ شہاب کا افسانہ یا خدا اردو ادب کی لا زوال
تحریروں میں بلا شبہ ایک گراں قدر اضافہ ہے۔شہاب صاحب نے اپنے اس افسانے
میں ایک ایسے تلخ پہلو کی نشان دہی کی ہے جس کی باز گشت آج بھی ہمیں سنائ
دیتی ہےِ۔چند صفحات پر مشتمل یہ افسانہ درحقیقت ایک دلخراش واقعے پر مبنی
ایسی کہانی ہے جسے افسانے کا موضوع بنا کر شہاب صاحب نے ہمیں ایک تلخ
صورتحال سے روشناس کروایا ہے۔
"یا خدا" بظاہر تو افسانے کا عنوان ہےلیکن شہاب صاحب کا تحریر کردہ یہ
افسانہ پڑھ کر یا خدا کی یہ صدا شہاب صاحب کے دل سے نکلتی محسوس ہوتی
ہے۔وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے بعد برضغیر کے مسلمانوں کے سارے خواب
چکنا چور ہو گۓ۔ اپنے ہی ہم وطنوں کے خون سفید دیکھ ہوتے دیکھ کر شہاب صاحب
نے یہ افسانہ تحریر کیا ۔یہی وجہ ہےکہ یہ افسانہ یا خدا شہاب صاحب کے جذبات
کی بھرپور ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔
افسانہ یا خدا کی کہانی دلشاد نامی ایک مظلوم لڑکی کی ہےجس نے غیروں کے ظلم
و ستم کو تو برداشت کر لیا لیکن پاکستان بننے کے بعد اپنوں کے لگاۓ ہوۓ زخم
اسے لہو لہان کر گۓ۔شہاب صاحب کے تحریر کردہ اس افسانے میں مختلف اسباق بھی
پوشیدہ ہیں۔افسانے کے آغاز میں امریک سنگھ نامی کردار کی بیوی اور بہن اذان
کی آواز سے ڈرتی ہوئ دکھائ دیتی ہیں۔اذان کی آواز انھیں اپنے اندر اترتی
محسوس ہوتی ہے اور وہ ہر لمحہ خوف کا شکار رہتی ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کے
شہاب صاحب افسانے کے آغاز میں ہی ہماری توجہ ایک المیے کی طرف کرواتے نظر
آتے ہیں۔وہ افسوس ناک المیہ یہ ہے کہ اذان کہ آواز ان اپنوں کے سینوں پر
کوئ اثر نہ چھوڑ سکی جنھوں نے دلشاد جیسی ہزاروں معصوم لڑکیوں کی عصمتوں کو
تار تار کر دیا۔
شہاب صاحب کے اس افسانے کو پڑھنے کے بعد اگر ایک نظر اپنے معاشرے پڑ ڈالی
جاۓ تو ہم پر یہ دردناک انکشاف ہوتا ہے وطن عزیزکے معرض وجود میں آنے کے
بعد بھی امریک سنگھ جیسے کئ کردار ہمارے درمیان موجود ہیں جو مناقفت کا
لبادہ اوڑھ کر نہ صرف امریک سنگھ والا کردار ادا کر رہیں ہیں بلکہ اپنے
ناپاک ارادوں سے ان غیور اور جری لوگوں کا سر عام مذاق بھی اڑا رہے ہیں
جنھوں نے اس عظیم وطن کی آبیاری اپنی جان اور مال کی قربانی دے کر کی ۔
مادر وطن کے حصول کے لیے راہ میں حائل ساری رکاوٹوں کو عبور کر کے آنے والی
دلشاد کے کردار کو موضوع بنا کر قدرت اللہ شہاب نے ان ہزاروں لوگوں کے
جذبات کی ترجمانی کی ہے جنھوں نے دلشاد ہی کی طرح نہ صرف غیروں کے ظلم کو
برداشت کیا بلکہ اپنوں کے ہاتھوں بھی وہ گہرے زخم کھاۓ جو ان کی ذات کا
ناسور بن گۓ۔دلشاد کی دل سوز داستان کے علاوہ مہاجر کیمپ میں موجود زبیدہ
کے دادا کی موت ،سردی سے بے حال برہنہ عورت کی اپنی مامتا کی خاطر دی گئ
قربانی جیسے مناظر کوشہاب صاحب نے اپنے افسانے میں جس انداز میں بیان کیا
ہے اسے پڑھ کر انسان کی روح تک کانپ اٹھتی ہے۔
دلشاد کی مدد کے بہانے آنے والے سیٹھ مصطفی خان سیمابی کا مکروہ چہرہ دکھا
کر مصنف نے ہمیں نہ صرف اپنے گربیان میں جھانکنے پر مجبور کیا ہے بلکہ
ہماری منافقت کا پردہ بھی سرعام فاش کیا ہے۔اس کے علاوہ افسانے کے ایک اور
کردارسیٹھ علی کا ایک اندھی لڑکی کی مجبوری سے فا ئدہ اٹھانا ،ملاح اور
سیٹھ کے مابین ہونے والی گفتگو یہ سب واقعات ناقابل فراموش ہیں۔مختصر یہ کہ
افسانہ یا خدا اردو ادب کا ایک لازوال افسانہ ہے جس میں شہاب صاحب نے
پاکستان کے حصول کے لیے مسلمانوں کی دی گئ ایسی قربانیوں کا ذکر کیا ہے جن
کا قرض ہم نہ آج تک اتار پاۓ ہیں اور نہ ہی آئندہ آنے والے وقت میں اتار
پاٰئیں گے۔
|