خاکوں کا جواب ہولوکاسٹ نہیں 

کسی بھی برائی کا جواب برائی سے دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ برائی کا جواب اچھائی سے دیا جائے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نادانستگی میں گستاخ رسول یا یہودیوں کی مظلومیت کا پرچار کرنے سے بہتر ہے کہ ہم خود تھوڑی سی محنت کریں اور دین اسلام کا اصل روپ سوشل میڈیا پر لوگوںکے سامنے پیش کریں۔

ہالینڈ کے ملعون سیاستدان گیرٹ وائلڈر نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے احتجاج، مصنوعات کے بائیکاٹ اور جان کے خوف کے باعث گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کردیا۔گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے دنیا بھر میں احتجاج کیا جارہا تھا، پاکستان میں بھی اسمبلیوں میں قرار دادیں پیش کی گئیں، تحریک لبیک پاکستان نے مارچ شروع کیا، دیگر جماعتوں نے بھی مظاہروں کا پروگرام ترتیب دیا، حکومت نے سخت موقف اپنایا اور اس معاملے کو او آئی سی سمیت اقوام متحدہ میں اٹھانے کا بھی عزم کیا۔پیارے نبی ﷺ کی ناموس کے حوالے سے جس نے جس درجے کا بھی کام کیا وہ قابل تحسین ہے۔

یہ بھی اچھا ہوا کہ یہ مقابلے منسوخ کرکے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو آزمائش سے بچا لیا گیا کیوں کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ تر اس مسئلے کو لوگ صرف اپنی مخالف جماعتوں کو نیچا دکھانے کے لیے اٹھا رہے تھے ، ایک صاحب کے فیس بک پیج پر جہاں یہ بحث چل رہی تھی ہم نے درخواست کی کہ جو لوگ یہاں ناموس رسالت کے چیمپئن بن رہے ہیں وہ صرف یہ بتا دیں کہ گزشتہ دس برسوں میں ناموس رسالت کے حوالے سے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک یا کسی بھی دینی جماعت کے اس حوالے سے ہونے والے کتنے پروگرامات ( ریلی، مظاہرہ ، جلسہ ، جلوس) میں شرکت کی ہے؟ چار دن گزرنے کے باوجود ( یہ تحریر لکھتے وقت تک) ابھی تک ناموس رسالت کے فیس بکی چیمپئنز میں سے کسی نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس سے واضح ہوا کہ ہمارا ایمان کس درجے کا ہے؟ ہم اسلام ، قرآن اور نبی اکرم ؐ کا نام ِ مبارک بھی صرف اور صرف سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک واقعہ یہاں بیان کرنا چاہوں گا ۔ جنرل مشرف کے دور میں جب توہین قرآن کا معاملہ اٹھا، ایک دینی سیاسی جماعت کی جانب سے نمائش چورنگی (کراچی) پر مظاہرےکا اعلان کیا گیا۔ میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچا، وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے، میں سبیل والی مسجد سے نمائش کی طرف جارہا تھا تو ایک صاحب میرے ساتھ چلنے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ بھائی یہ اس مظاہرے میں کتنے لوگ ہوں گے اس وقت؟‘‘ میں نے اپنے اندازے سے جواب دیا کہ کم و بیش بیس ہزار کے قریب لوگ ہوں گے۔ اس نے حیرت سے پوچھا صرف بیس ہزار؟ میں نے بات بنانے کی کوشش کی کہ نہیں شاید تیس کے قریب ہوںگے۔ اس پر ان صاحب نے جواب دیا وہ ہم سب کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ ان صاحب نے کہا ’’ بھائی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں قرآن کی بے حرمتی پر احتجاج کے لیے صرف تیس ہزار لوگ آئے ہیں؟ میرا تعلق جیے سندھ سے ہے میں اس پارٹی کا کارکن نہیں ہوں، میں تو صرف قرآن کی وجہ سے اس مظاہرے میں شرکت کے لیے آیا ہوں، میرا خیال تھا کہ یہاں دس بیس لاکھ لوگ ہوں گے لیکن افسوس کہ قرآن کے نام پر صرف اتنے لوگ ہی احتجاج کے لیے آئے ہیں۔‘‘ اس واقعے کو سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ معلون گیرٹ وائلڈر نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کردیا ورنہ یہاں لاکھوں لوگ آزمائش میں پڑ جاتے لیکن اللہ نے ہم سب کو آزمائش سے بچا لیا۔

گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے جہاں سوشل میڈیا پر بھر پور احتجاج کیا گیا وہاں بعض نادان مسلمانوں کی جانب سے نادانستگی میں ملعون گیرٹ وائلڈر کی تشہیر بھی خو ب خوب کی گئی، لوگ گیرٹ وائلڈر کی تقریر کو روکنے کے بجائے خود ہی پھیلا رہے تھے اور طریقہ بہت سادہ سا تھا یعنی ’’ کون مسلمان ہے جو اس معلون پر لعنت بھیج کر آگے نہیں بڑھائے گا۔‘‘ اب یہ پیغام سن کر ناموس رسالت کے فیس بکی چیمپئن سستے ثواب کے چکر میں خود ہی اس ملعون کی تقاریر کو وائرل کررہے تھے ، خود ہی اس کی تشہیر کررہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک نئی چیز یہ دیکھنے کو ملی کہ پتا نہیں کس بزرجمہر نے یہ کہہ دیا کہ گستاخانہ خاکوں کا جواب ہولو کاسٹ کی تصاویر ہیں، اس لیے ہولو کاسٹ کی تصاویر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں ۔ اس کے بعد فیس بک پر اچانک ہولوکاسٹ کی تصاویر نمودار ہوئیں، وائرل ہوئیں، فیس بک کے دانشوروں نے یہاں بھی گھر بیٹھے ثواب حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ، کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہولوکاسٹ تو یہودیوں کا گھڑا ہوا افسانہ، ان کا بنایا گیا ایک ڈرامہ ہے۔ اس کے ذریعے انہوں نے دنیا بھر کو بے وقوف بنایا ہوا ہے، اس کی بنیاد پر وہ خود کو مظلوم ثابت کرتے ہیں۔اس طرح ہم نے ناموس رسالت کے نام پر یہودیوں کی بھی خوب تشہیر کی اور ان کو دنیا بھر میں خوب مظلوم ثابت کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس سوشل میڈیا پر گستاخانہ خاکوں کے جواب میں صرف یہی چیزیں رہ گئی ہیں؟ کیا ہم پیارے نبی ﷺ کی رحمت، شفقت، بچوں سے محبت، عفو و درگزر، دشمن کی بیٹی کے سر پر بھی چادر ڈالنے، بد ترین دشمن کو بھی معاف کرنے کی کوئی ایک نظیر بھی سوشل میڈیا پر نہیں لگا سکتے؟ کیا ہم اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق، ان کے ساتھ حسن سلوک، ان کے ساتھ بے نظیر انصاف کی باتیں شئیر نہیں کرسکتے؟اگر غیر مسلم اسلام کو متشدد مذہب کہتے ہیں تو کیا ہم دلیل سے اس کا جواب نہیں دے سکتے؟کیا ہم سیرت نبوی ؐ سے اس حوالے سے کوئی واقعہ بھی شئیر نہیں کرسکتے؟ کیا ہم دنیا کو نہیں بتا سکتے کہ جس عظیم پیغمبر ؐ کی توہین وہ کررہے ہیں انہوں نے انسان تو بڑی بات ہے جانوروں تک کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے؟

سب ہوسکتا ہے۔یہ سب کام ہم بہت آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے اب انتظار نہ کریں بلکہ آج ہی سے یہ کام شروع کردیں ، بالخصوص ہمارے وہ بھائی جن کو انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں میں مہارت حاصل ہے وہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی پوسٹ بنا کر لگائیں تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ امام الانبیاء ؐ کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔دوسرا کام یہ کریں کہ گستاخ ممالک کی مصنوعات کا مقاطقہ ( بائیکاٹ ) جاری رکھا جائے۔ اگرچہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے فی الوقت منسوخ ہوگئے ہیںلیکن ملعون گیرٹ وائلڈر نے ایک ٹوئیٹ میں پاکستانی وزیر خارجہ کو کہا ہے کہ اس کا مشن ختم نہیں ہوا اور وہ مزید تیاری کے ساتھ یہ کام کرے گا، اس لیے یہ سمجھ لیں کہ مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا ، اس لیے مقاطعہ بھی جاری رہنا چاہیے، دنیا پرستوں کے دنیاوی مفادت پر ضرب لگے گی تب ہی انہیں احساس ہوگا اور ان کو بات سمجھ آئے گی۔

آخری بات یہ کہ کسی بھی برائی کا جواب برائی سے دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ برائی کا جواب اچھائی سے دیا جائے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نادانستگی میں گستاخ رسول یا یہودیوں کی مظلومیت کا پرچار کرنے سے بہتر ہے کہ ہم خود تھوڑی سی محنت کریں اور دین اسلام کا اصل روپ سوشل میڈیا پر لوگوںکے سامنے پیش کریں۔

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1451674 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More