☆☆" اوڑھنی "☆☆( چوتھویں قسط)۔

تنویر نوجوانوں کو باغ میں اکیلے چھوڑ کر کمرے میں آکر اپنی آرام کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ اس نے آرام کرسی کو ہلکا ہلکا جھولنا شروع کیا، اس کے ذہن نے ایک بار پھر ماضی کی سیڑھیاں اترنی شروع کردیں ۔
آج لال حویلی بقعہ نور بنی ہوئی تھی ۔ تنویر شیروانی پہنا چھوٹا سا دلہا لگ رہا تھا۔ حویلی کی ساری مامائیں اس پر صدقے واری ہو رہی تھیں ۔ باغ میں نائی دیگیں کھڑکا رہا تھا۔ آج تو بے بے نے بھی بنارسی غرارہ پہنا ہوا تھا۔ باو جی نے سفید اچکن، گھوڑا بوسکی کی شلوار اور طرے والا قلہ زیب تن کیا ہوا تھا۔ آج باو جی کا سینہ فخر سے پھولا ہوا تھا۔ اڑوس پڑوس کے ہندو اور سکھ گھرانے بھی تقریب میں شامل تھے ۔آخر کار ان لوگوں کے ساتھ سالوں کی محلے داری اور دلی محبتیں تھیں ۔مردانے میں حقے گڑگڑائے جارہے تھے۔ ہر آنے والا تنویر کے لئے تحفہ لے کر آتا ۔موقع ہی ایسا تھا کہ کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں آنا چاہتا تھا۔ تنویر نے آج قرآن پاک حفظ مکمل کیا تھا، ساتھ ساتھ ترجمہ اور تفسیر بھی مکمل کرلی تھی۔ تنویر نے آج عمر کے تیرھویں سال میں قدم رکھا تھا۔خالص خوراک اور کھلی آب و ہوا کے باعث تنویر کی مسیں ابھی سے بھیگنی شروع ہوگئ تھیں ۔ تنویر کی خوشی کی آج وجہ یہ بھی تھی کہ لدھیانہ سے آج اس کے چچا جان شہاب بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان کے گھر آئے ہوئے تھے ۔تنویر کو ان کی دس سالہ بیٹی سکینہ روز اول سے ہی پسند تھی ۔وہ دونوں اچھے دوست تھے، مگر جیسے جیسے بچپن رخصت ہورہا تھا، دونوں طرف شرم کا پہرہ نظریں جھکا دیتا۔
آج کی تقریب میں تنویر کی قرات کے بعد مولوی صاحب کے کان میں باوجی نے سرگوشی کی تو مولوی صاحب نے تنویر اور سکینہ کی نسبت کا اعلان کردیا ۔حاضرین نے تالیاں بجائیں ۔تنویر کے جسم کا خون سمٹ کر اس کے منہ پر آگیا تھا۔
جب وہ بے بے کے بلانے پر زنان خانے گیا تو بے بے اور چچی امی نے اس کا منہ چٹ چٹ چوم لیا ۔تنویر لجایا شرمایا باہر بھاگا تو گھر کی ماماوں نے گھیر لیا ۔
عصمت ماما بولیں:
نوشے میاں! آج تو نئے جوڑے آپ کے اور سکینہ بی بی کے ہاتھ سے ہم سب لینگے ۔
سکینہ بھی سرخ کرتا اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس گھونگھٹ نکالے چچی کے ہمراہ جوڑے اٹھائے اس کے برابر آ کھڑی ہوئی ۔سکینہ اس کو جوڑا پکڑاتی اور وہ ماماوں کو بانٹتا جاتا۔ ہزار کوشش کے باوجود وہ سکینہ کی جھلک بھی دیکھنے میں ناکام رہا تھا۔چچی امی نے اس کے کان میں سرگوشی کی:
تنویر میاں! دلہنیا کا چہرہ اب آپ کو نکاح کے بعد آرسی مصحف کے دوران ہی دیکھنے کو ملے گا۔
تنویر شرم سے بوکھلا کر مردانے کی طرف دوڑ پڑا ۔زنانے سے قہقہوں کی بازگشت اس کا پیچھا کرتی رہی ۔
(باقی آئندہ )۔
 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 262803 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More