آج کے تھانے ظلم کے گھرانے

ہمارے ملک میں کیا تقریباًیہ پورے ایشیاء کی بد قسمتی ہے کہ اس میں لوگ اپنی فوج کو تو بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر پولیس کوگالیاں دیتے ہیں یہاں تک کہہ کچھ لوگ ناکے پر کھڑے پولیس افسران و ٹریفک کے افسران کو کہتے ہیں .....کھڑے ہیں۔ احمدخان چندھڑایک منجھے ہوئے پولیس آفیسر کا نام بھی میں نے سنا تھاچند دن پہلے ان کے حوالے سے ایک مضمون ایک اخبار میں پڑھا تھا کہ انہوں نے ایک اجلاس بلایا اور اس میں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلوں سے لاعلمی کا اظہار کیااحمد خان چندھڑ کو انگریز لارڈ مئیر کا حوالہ دیا مگرانہوں نے کچھ اونرآف بزنس بنائے تھے جو پاکستان کے وجود میں آنے سے آج تک معروضی حالات کو مدنظررکھ کرکچھ ایسا نہیں کیا جس سے لگے وہ انگریز ہیں مگراس نے بھی لوگوں کوڈرا دھمکا کے رشوت لے کے جھوٹے پرچے کرکے گھمبیرطریقے سے لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ہالی ووڈہو،لالی وود ہویا بالی وودہو سب نے پولیس کو کرپٹ دکھانا ہے مگرپولیس کوجیسے کوئی فرق نہیں پڑتااور آج لوگ اتنا چور ڈاکوؤں سے نہیں ڈرتے جتنا کہ پولیس سے ڈرتے ہیں حالانکہ ہماری حکومت کو ان کے خلاف ایکشن لینا چاہیے تاکہ لوگ امن محسوس کرسکیں اس پر حکومت کو کوئی پالیسی بنانی چاہیے میں چیف جسٹس آف پاکستان سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگرآپ نے ایسی کوئی پالیسی بنائی ہے تو اسے ضلعی سطح تک لے آئیں جن میں پولیس افسران،سول سوسائٹی، وکلاء، ججز،صحافی،تاجربرادری،کو ایجوکیشن والے تین تین روزہ ورکشاپ کرائیں اور جب یہ پنجاب،سندھ،پختونحواہ،بلوچستان اور مجوزہ سرائیکستان میں ہوجائیں تو پھر انہیں لوگوں میں سے سب کی مشاورت کے ساتھ ایک جگہ ورکشاپ کراکے اس پالیسی کو مرتب کیا جائے ۔جیسا کہ سول سوسائٹی میں دیہات اور شہرکے لوگ شریک ہیں کیونکہ شہر کے مسئلے دیہات والا نہیں سمجھ سکتا اور نہ دیہات والے کو شہروالوں کی مصیبتوں کا علم ہوتا ہے ۔ضلعی سطح پر جو ورک آؤٹ ہو اس میں پھر تحصیل سطح سول سوسائٹی اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے لوگ شام کیے جائیں تب جا کر یہ پالیس دیرپاہوسکتی ہے ان ورکشاپس میں پہلے تو DPOوغیرہ شامل نہ ہوکیونکہ پھر کچھ لوگ اپنی امان پانے کیلئے سچ نہ کہہ سکیں گے کیونکہ پھر یہی لوگ جھوٹے پرچے وغیرہ کروا کے تھانے کے چکرلگواتے ہیں یا اپنے کسی بدمعاش کوآشیرباد دیتے ہیں وہ ایسے لوگوں کو ٹارچرکرتارہتا ہے کوئی قتل ہو جائے ،کوئی ڈکیتی کی کاروائی کیلئے FIRلکھوانے آئے یا کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو تو یہ شریف کچھ بھی نہیں لیتے مگر کچھ دن بعد تفتیشی کے پر نکل آتے ہیں کیونکہ مخالف پارٹی سے مال مل گیا ہوتا ہے مخالف پارٹی پھر پیسے پہ پیسہ بہاتی ہے جس وجہ سے منشی اسی مظلوم کو دباؤ دیتا ہے کہ اگر صلح نہ کی تو تمہیں کسی نہ کسی کیس میں اندرکرادوں گا جتوئی کے علاقہ میں رزاق گجرکا نام جانے مانے والے کرپٹ پولیس آفیسرز میں شمار ہوتا ہے جب یہ جتوئی تھانہ میں بھرتی ہوا تو اس کے پاس موٹرسائیکل بھی نہیں تھی مگر کچھ ہی عرصہ میں اس نے اپنی گاڑی لے لی اور آج ہائی ایس،ڈالے ،بسوں یہاں تک کہہ کئی کاروبار میں حصہ دار بن چکا ہے جس کے ظلم سے علاقے کا شاید ہی کوئی بچ سکا ہو کئی بار صحافیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا مگر اسے کسی کا ڈر نہیں کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے اسے ڈی پی او کا آشیرباد ہے سچ کیا ہے اﷲ کی ذات جانتی ہے اس جیسے پتا نہیں کتنے ظالم معصوم لوگوں کا خون چوستے ہیں اب کافی روز سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ صحافی اتحاد کی صحافی تنظیم نے اس بدکردار پولیس افسرکے خلاف مہم چلا رکھی ہے اﷲ اسے انجام تک پہنچائے ۔ میں نے جو رپورٹ اکٹھی کی اس کے مطابق پولیس تھانوں میں کوئی عورت زیادتی کی درخواست دینے آئے تو ان بھوکے بھیڑیوں کی نیت بگڑ جاتی ہے اور اس سے ایسے ایسے سوال کرتے ہیں کہ سننے والے کی روح تک کانپ جائے مگر یہ بے ضمیرلوگ چسکے لیتے رہتے ہیں اور جب تک اس عورت کو خود زیادتی کا نشانہ بنا نہ لیں چین سے نہیں بیٹھتے پھر اسی عورت کو ڈرا دھمکا کر صلح کیلئے راضی کرلیتے ہیں ۔اگرتھانہ کلچر کو ٹھیک کرنا ہے تو اس کیلئے میری چند تجاویزہیں :1۔تھانہ میں مانیٹرنگ سخت ہونی چاہیے تاکہ رشوت سفارش کے بغیرلوگوں کو انصاف مل سکے 2۔پولیس افسران کو جو گاڑیاں دی ہوئی ہیں انکو پیٹرول دیا جائے کہ کتنے کلو میڑگاڑی چلی اورکہاں گئی تھی اس سے ان کی کرپشن رکے گی3۔مقدمہ درج کرنا پولیس کو لازمی قراردیا جائے 4۔کمپیوٹرسسٹم سے بھی تبدیلی نہیں آئی اس پر سخت عمل کی ضرورت ہے5۔کمپیوٹرسسٹم سے جھوٹے مدعی اندرجائیں گے تو یہ رواج ختم ہوجائے گا6۔پولیس کو منسٹریااعلیٰ افسران کا سفارشی کام کرنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ سفارش سے ہی برائی کی ابتدائی ہوتی ہے7۔نواز شریف کیلئے جیل میں الگ قانون اور عام آدمی کیلئے الگ قانون تو بغاوت توپھیلے گی8۔پولیس کو پابندکرنا چاہیے بغیروارنٹ کے کسی کے گھرداخل نہ ہوں9۔اگرکسی علاقے میں چوری ڈکیتی کی وارداتیں زیادہ ہوں تو اس علاقے کے SHOکے خلاف مقدمہ درج ہو اس سے امن قائم ہوگا10۔تھانوں کے باہر شکایت باکس بنائے جائیں جنہیں دیکھنے کا اختیار پولیس کو نہ ہو بلکہ حکومتی حکمرانوں کو ہو۔
جب ان چیزوں پر عمل ہو گا تب ہی جاکراصلی تبدیلی آئے گی سرائیکی وسیب میں ن لیگ آج تک اس وجہ سے جیتتی آئی ہے کیونکہ ن لیگ کے دور میں چور ڈکیت نہیں ہوتے اس کی وجہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے اعلان کیا ہوتاہے کہ ان پرپرچے نہیں انکا انکاؤنٹرکردو اسی وجہ سے امن وسکون رہتا ہے مگر اب حکومت تبدیل ہونے سے پورے پنجاب سمیت لاہور میں بھی چوری ڈکیتی کی وارداتیں تیزی سے بڑھ گئی ہیں ۔ پولیس میں بدقسمتی سے کوئی ایماندار افسرآجائے تو اس کے ہاتھوں کو مقامی ایم این اے اور ایم پی اے باندھ لیتے ہیں جس وجہ سے وہ ایک پالتو......بن کررہ جاتا ہے ایسی صورت حال میں پھر بوسن گیگ اور چھوٹوگینگ جیسی دہشت پیداکرنے والی گینگز سامنے آتی ہیں ان گروہ کو پولس اور ایم این اے ایم پی اے کی سرپرستی ہوتی ہے جن سے یہ لوگ بھتہ لیتے ہیں اور ان کو من مانی کرنے دیتے ہیں ۔میری عمر30سال سے اوپرہے مگرمیں نے کبھی بھی نہیں سنا کہ آج اغوا کا پرچہ درج ہوا ہے اور اغواہونے والا پولیس افسر،علاقے کا زمیندار یاجاگیردار تھا بس یہی پتا چلتا ہے کہ وہ مڈل کلاس کا کوئی آدمی تھا اور چوری ڈکتی بھی مڈل کلاس لوگوں کے گھرہوتی ہے جن کے پاس 2وقت کا کھانہ نہیں ہوتا وہ سکون سے رہتے ہیں اگرکسی نے ذرا محنت کرکے علاقے میں اپنا مقام رتبہ بنایاتو علاقے کے وڈیرے سے ہضم نہیں ہوتا اور اسکے گھرچوری ڈکیتی کروالیتا ہے اور دوبارہ وہ آدمی غربت کی چکی میں پستہ رہتا ہے ۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پولیس کے رویے اور تھانے کلچر کو تبدیل کریں تاکہ لوگ اس شعبہ کی بھی عزت کریں۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 196587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.