تحریر:ام محمد عبداﷲ، جہانگیرہ
نانا جان یہ دیکھیں، شہریار نے قالین پر ایک لمبی چھلانگ لگائی۔ یہ بھی
دیکھیں اور یہ دیکھیں شہریار اپنے تئیں خوب جوش وخروش کے ساتھ چھلانگیں لگا
لگا کہ اپنے نانا جان کو متاثر کر رہا تھا۔ وہ عید کی چھٹیاں منانے کے لئے
اپنے ننہیال آیا ہوا تھا اور بہت خوش تھا۔ ارے بھئی واہ، بہت خوب نانا جان
آٹھ سالہ نواسے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بولے۔ وہ بھی اپنے اس چھوٹے
مہمان کی آمد سے خود میں جوانی اور تازگی محسوس کر رہے تھے۔ آپ کو پتا ہے
میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا؟ شہریار اب نانا جان کے بازو کے ساتھ جھولنے لگا
تھا۔ کیا ؟ نانا جان نے محبت سے اس کا گال چھوا۔ میں بڑا ہو کر سپائڈر مین
بنوں گا۔ ہائیں !نانا جان کو تو جیسے کرنٹ سا لگا۔ بڑا ہوکر شہریار کیا بنے
گا؟ انہوں نے بے یقینی سے نواسے کی طرف دیکھا جیسے تسلی کرنا چاہتے ہوں کہ
وہ ابھی ابھی کیا کہہ رہا تھا۔ نانا جان سپائڈر مین یہ دیکھیں میری
قمیض،سینڈل اور گھڑی۔ انہوں نے دیکھا سب پر سپائڈر مین کی مختلف تصویریں
بنی تھیں میرے شہریار کا رول ماڈل اور ہیرو سپائڈر مین ہے۔ نانا جان گویا
شدید صدمے کی حالت میں شہریار کو دیکھنے لگے۔
آئندہ چند دنوں تک وہ اسے جرات کی ایک داستاں سناتے رہے۔ محمد محمود عالم (ایم
ایم عالم) ہماری ملی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش اور زندہ و جاوید کردار
ہیں۔ ان کا بچپن کتاب دوست بچپن تھا۔ نصابی ،ہم نصابی اور کھیل کے میدان
میں ہمیشہ نمایاں رہنے والا یہ بچہ فضا میں پرواز کرتے جہازوں کو بہت شوق
سے دیکھا کرتا اور پورے یقین کے ساتھ کہتا، ’’ایک دن میں بھی ہوا میں پرواز
کروں گا‘‘۔ ان کی ذہانت کے پیش نظر انہیں ڈاکٹر، انجینئر بن کر عیش و آرام
کے ساتھ زندگی گزارنے کے مشورے ملتے لیکن وہ مسکرا دیتے۔ عیش و آرام کے
ساتھ زندگی گزارنا ان کا مقصد حیات نہ تھا۔ ان کا نصب العین تھا ملک و قوم
کا دفاع۔ 2 اکتوبر 1953کو انہیں پاک فضائیہ میں کمیشن ملا۔ انہوں نے یہاں
کئی کامیاب کورس کیے۔ یہ ہوائیں ،فضائیں ان کے سامنے مسخر تھیں۔ وہ کسی
شاہین کی مانند بلند سے بلند تر پرواز کی طرف بڑھتے۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے
یہ آفاق ان کی پرواز سے مسخر ہونے کو بے قرار ہیں۔
کافر کی یہ پہچان کے آفاق میں گم ہے۔
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
6 ستمبر 1965 کو بھارت کی بزدل فوج نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر اچانک
حملہ کر دیا۔ بزدل اور عیار فوج نہیں جانتی تھی کہ ہم نے دامن میں ایم ایم
عالم جیسے گوہر نایاب سمیٹ رکھے ہیں۔ 7 ستمبر 1965 کو بھارت کے دس ہنٹر
طیارے سرگودھا کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے لئے بھیجے گئے۔
سرگودھا کے ائیر بیس پر پاک فضائیہ کی دفاع کی ذمہ داری اسکواڈرن لیڈر ایم
ایم عالم کے ذمے تھی۔ دشمن کے طیارے دیکھ کر ان کے رگ و پے میں نئی طاقت
بھر گئی۔ وہ پلٹ کر جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا کی مثال بن کر فضا میں اڑے۔
ان عظیم لمحوں کی داستان ان کے دوست امتیاز احمد بھٹی ان الفاظ میں بیان
کرتے ہیں۔ ’’سات ستمبر کی صبح تین بجے پہلا حملہ اور دوسرا دوپہر کے بعد
سرگودھا پر کیا گیا۔ ہمیں فوری طور پر تیاری کا حکم ملا۔بھارتی فوج چھ چھ
جہازوں پر مشتمل فارمیشن میں حملہ کرتی تھی، جن میں سے چار جہاز حملے کے
لیے استعمال ہوتے تھے جبکہ بقیہ دو جہاز ان چار جہازوں کے دفاع کے لیے۔ ہم
نے حملہ شروع کیا تو کڑانہ پہاڑیوں پر ایک انڈین جہاز میرے حملے کی زد میں
آیا۔ میں اس پر گولیاں برسانے لگا تو میں نے دیکھا بھارتی جہاز کے عین نیچے
ایم ایم عالم کا جہاز تھا جس پر میں نے فوری طور پر فائرنگ کا ارادہ بدل
دیا، تاہم ایم ایم عالم نے انڈین جہاز کو میزائیل مار کر تباہ کر دیا۔ کچھ
آگے تولائیاں کے مقام پر انڈین جہازوں پر مشتمل ایک اور فارمیشن سے ہماری
مڈبھیڑ ہوگئی جو کہ حملہ کے لیے سرگودھا کی طرف بڑھ رہی تھی۔ایم ایم عالم
نے اپنا جہاز ان کے پیچھے لگا دیا اور ان پر ہلہ بول دیا جب کہ میں دیکھتا
ہی رہ گیا، انہوں نے دشمن طیارے مار گرائے‘‘۔
بعد میں معلوم ہوا کہ اس روز ایم ایم عالم نے محض تیس سیکنڈ میں دشمن کے
پانچ طیارے تباہ کر کے عسکری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا
ہے۔ بعد میں یہ ریکارڈ مشہور عالمی جریدے ’’گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ کا
بھی حصہ بنا۔ انہیں اس عظیم کارنامے پر ستارہ جرات عطا کیا گیا۔ انہوں نے
مجموعی طور پر دشمن کے نو ہنٹر طیارے تباہ کیے تھے۔ اس جنگ میں ان کا
ناقابل فراموش کردار اور جذبہ حب الوطنی ہم سب پاکستانیوں کے لیے مشعل راہ
ہے۔
اس داستان جرات نے شہریار کے ننھے سے دل کو خوب متاثر کیا۔ اس وقت بھی
شہریار پاک فضائیہ کیپ سر پر رکھے نانا جان کے ساتھ بہت شوق سے ایم ایم
عالم ائیر بیس کی تصاویر دیکھ رہا تھا۔ نانا جان میں بڑا ہو کر اقبال کا
شاہین بنوں گا۔ میں ایم ایم عالم کی طرح نئے عسکری ریکارڈ قائم کروں گا۔
میں اپنی سرحدوں کی،فضاؤں کی حفاظت کروں گاان شاء اﷲ۔ نانا جان نے شفقت سے
اس کے سر پر ہاتھ پھیرااور وہ سپائڈر مین کا کیا ہوا؟ نانا جان نے مسکرا کر
اس کی طرف دیکھا۔ نانا جان! دیواروں اور چھتوں کے ساتھ لٹکتا، بیماریاں
پھیلاتا دنیا کے سب گھرو ں میں سب سے کمزور گھر سپائڈر کا ہے۔ مجھے سپائڈر
مین نہیں بننا، مجھے مضبوط بننا ہے ،خود بھی
اور مجھے مضبوط بنانا ہے اپنے پیارے وطن کو۔
مجھے اپنے پیارے وطن کو اسلام کا مضبوط قلعہ بنانا ہے۔ شہریار ٹھہرے ہوئے
لہجے میں متانت کے ساتھ بول رہا تھا جیسے وہ ابھی سے پاک فضائیہ کا نڈر
جانباز بن چکا تھا۔ ان شاء اﷲ نانا جان خوشی اور جوش سے بولے۔سوال یہ نہیں
کہ بچے کیا بننا چاہتے ہیں؟ سوچنے اور کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم انہیں کیا
بنانا چاہتے ہیں؟ سپائڈر مین یا ایم ایم عالم ڈورے مون یا میجر عزیز بھٹی
شہید۔ |