تسلیم و رضا

دنیا میں سب سے زیادہ مصائب، پریشانیاں اور آزمائشیں خالق کائینات اپنے پیغمبروں پر بھیجتا ہے تا کہ بقیہ انسان انکی استقامت ، صبر او ر اولوالعزمی کو مشعل راہ بنا کر عارضی دنیا میں چند لمحوں کے مسافروں کی مانند ایسی بے رغبتی سے زندگیاں گزاریں کہ عالم ِ آب و گل کی کسی بھی چیز کی محبت انکو اپنے بنانے والے کی یاد سے کسی لمحے غافل نہ کر سکے۔آپ کسی بھی پیغمبر کی زندگی کو لے لیں انکی زندگی کا ایک ایک لمحہ مصائب و آلام کی ایسی روداد بیان کرے گا جس سے انسان کی روح کانپ جاتی ہے مگر ہر ایک کی زندگی میں برداشت ، حوصلہ اور حلم غالب دکھائی دے گا جو صرٖ ف ان چنیدہ لوگوں کا ہی امتیاز ہے بقیہ انسان چاھے کوئی بھی ہو ایسے حوصلے اور صبر و برداشت کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔اﷲ کے پیغمبر نے خواب دیکھا جسیقرآن نے یوں بیان کیا ، ترجمہ۔ اے میرے لخت جگر میں نے نیند (خواب)میں دیکھامیں تجھے زبح کر رھا ہوں بتا تیری کیا رائے ہے ۔بیٹے نے جواب دیا اے میرے ابا جی آپ کو جو حکم ملا ہے اسے فوراَ کر گزریے اگر اﷲ نے چاہا تو میں ثابت کروں گا کہ میں صابرین کی جماعت سے ہوں ۔(القرآن) سید نا ابراہیم علیہ السلا م اپنے مقدس ہاتھوں میں چھری اور رسی لے کر اپنے ناز و نعم میں پلے بیٹے کو لے کر کھلے میدان کی طرف چل پڑے جسے70سال رب زوالجلال کی بارگاہ عالیہ میں ماتھا رگڑ کر گڑگڑا کر آہ و زاری کر کے حاصل کیا تھا اور پھولوں سے زیادہ نرم و نازک یہ بچہ اب گیارہ سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا جبکہ باپ کی عمر سو سال سے زیادہ ہو چکی تھی ۔باپ اور بیٹے کے تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی کے اس عجیب و غریب منظر کو آسمانوں و زمین کے رب نے عرش سے فرش تک تمام پردے چاک کر کے آسمانی مخلوقات کی دید کے لیے کھول دیا جو انگشت بدندان دو انسانوں کے اپنے خالق و مالک کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے اس روح پرور منظر کو دیکھ کر سکتے میں آگئے۔ نہ کوئی آہ و زاری نہ ماتم نہ بین نہ کوئی دہائی نہ سینہ کوبی بلکہ انتہائی وقار اور طمانیت کے ساتھ چلتے ہوئے باپ بیٹا میدان میں پہنچ گئے ، بیٹے نے باپ سے کہا کہ ابا جی میری قمیض اتار دیں کیونکہ مجھے کفن پہنانے کے لیے آپ کے پاس کوئی کپڑا نہیں ہے ۔ سو سال سے زائد عمر کے ضعیف باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیاتا کہ چھری چلاتے وقت اسکی معصوم نگاہوں سے جدائی کے صدمے سے دوچار باپ کی نگاہیں مل کر شفقت پدری کے سمندر میں جزبات کی طغیانی نہ لے آئیں ۔ ابراہیم نے چھری چلانے سے پہلے صرف ایک بار آسمان کی جانب نگاہیں اٹھا کر وہ جملے بولے جو اس قربانی و ایثار کی اصل روح ہے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ بھی اسی لیے اﷲ پاک نے یہ قصہ اپنی لاریب کتاب میں بیان کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا میرے رب میں ستر سال جس بیٹے کے لیے تیری بارگاہ عالیہ میں التجائیں کیں ہیں آج وہ گیارہ سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے اگر تیری نگاھ میں اسکی محبت اتنی شدت اختیار کر چکی کہ یہ میری اور تیری محبت میں حائل ہو گئی ہے تو اس کا گلا کاٹ کر آج میں اسکو ہمیشہ کے لیے درمیاں سے ہٹا دیتا ہوں اور تجھ سے التجا کرتا ہوں تو مجھ سے راضی نامہ کر لے اور اگر تو میری آزمائش کرنا چاہتا ہے تو مجھے ثابت قدمی و استقامت نصیب فرما ۔ یہ جملے سنکر آسمان کی مخلوقات سجدے میں گر گئیں اور گڑگڑا کر رحیم وکریم رب سے اسماعیل کو بچا لینے کی التجائیں کرنے لگیں۔ آسمانوں پر فرشتوں کی چیخ و پکار اور آہ و زاری ہے جبکہ زمین پر حضرت ابراہیم پورے خلوص کے ساتھ چھری چلانے میں مصروف ہیں مگر وہ چھری جس سے کئی اونٹ ، دنبے ، مینڈے زبح ہو چکے آج اس جلد پر نہیں چل رہی جس سے نرم و نازک کائینات میں کوئی پھول ہے نہ کلی ۔چھری کی نوک کو جنبش دے کر بھی پورا زور لگایا مگر اسماعیل کے مقدس گلے کا ایک بال بھی نہ کٹا ، اسی اثنا میں عزیز و حکیم رب کی رحمتنے جوش مارا او ر ایک مینڈا جسکا نام حافظ ابن کثیر اور طبری نے "جریر "بتایا ہے دے کر سید الملائکہ جبریل امین کو روانہ کر دیا جنھوں نے ابراہیم کو مخاطب کرنے کے لیے با آواز بلند کہا اﷲ اکبر اﷲ اکبر تاکہ خلیل اﷲ کو چھری چلانا بند کر دیں مگر چھری چلانے کی سعی میں مصروف ابراہیم نے چھری چلانا جاری رکھتے ہوئے کہا لا الہ اﷲ وﷲ اکبر یعنی اپنی بے بسی کا اظہار کیا کہ چھری میرا کہنا نہیں مان رہی بے شک اﷲ کے حکم کے بغیر ایک زرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا خلیل و جبریل کے الفاظ سن کر حضرت اسماعیل نے چھری کے نیچے سے کہا اﷲ اکبر و ﷲ الحمد۔ آسمانوں کے رب کو یہ کلمات اتنے پسند آئے کہ ہر سال ۹ زہالحج کی عصر سے لیکر ۳۱ زوالحج کی عشا ء تک مسلمانوں کے لیے ہر نماز کے بعد یہ کلمات بلند آواز سے پڑھنا واجب کر دیے۔

اس قصے میں جہاں اﷲ کے پیغمبروں کے جزبہ ء ایثار کی ایمان افروز جھلک ہزاروں سال بعد بھی عقل و خرد کو ورطہ ء حیرت میں ڈالتی نظر آتی ہے وہاں انسانوں کو ایک بہت بڑا پیغام بھی دیتی ہے کہ اﷲ ہی ہر چیز کا مالک و خالق ہے اور کائینات کی ہر چیز پر اس کا کامل قبضہ ہے کہ ایک پتہ بھی اسکی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا چاہے بڑی سے بڑی طاقت ہی زور کیوں نہ لگا لے ۔ زرا غور کیجیے اﷲ کے ایک پیغبمر کی مرضی ہے کہ میں بیٹے کو زبح کر دوں بیٹے کی مرضی ہے میں زبح ہو جاؤں ، دونوں کے خلوص میں کوئی شک نہیں نیت بھی ٹھیک ہے مگر اﷲ کے دو برگزیدہ ترین بندوں کی مشترکہ مرضی کو ماننے سے چھری نے انکار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پوری مخلوق اﷲ کے سامنے بے بس اور بے کس ہے اور پوری مخلوق مل کر بھی کچھ نہیں کر سکتی اگر اﷲ نہ چاہے ۔ حضرت ابراہیم وہ منفرد انسان ہیں جنکی رگوں میں اﷲ کی واحدانیت و الوہیت اسقدر سرائیت کر گئی تھی کہ جب بیٹے تھے تو اﷲ کے لیے باپ کو چھوڑ دیا ، جب جوان ہوئے تو اﷲ کے لیے آسمان سے باتیں کرتے آگ کے شعلوں میں خوشی سے کود گئے جب خاوند بنے تو اﷲ کے لیے بیوی اور معصوم بچے کو صحرا میں بے یار و مدد گار چھو ڑ دیا اور جب باپ بنے تو اﷲ کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری چلا کر انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ ایمان کے مقابلے میں جان مال اولاد ماں باپ کچھ اہمیت نہیں رکھتے ۔اسی لیے حضرت ابراہیم خلیل اﷲ کو " موحد اعظم" کا منفرد خطاب ملا اور امکی نسل سے چودہ ہزار انبیا بشمول خاتم النبین پیدا ہوئے۔ بے شک عقیدہ ء توحید باری تعالیٰ اﷲ کے خزانوں میں سب سے قیمتی نعمت ہے جسکو اﷲ نے موحد بنایا سمجھ لیں اسکو سب کچھ مل گیا چاھے گدا ہی کیوں نہ ہو اور جسکا عقیدہ ء توحید خالص نہیں چاہے اسے پوری دنیا کی بادشاہت اور قیامت تک زندگی بھی مل گئی وہ بہت ہی بڑے خسارے میں رہا کہ مشرک سے بڑا زلیل دنیا و آخرت میں کوئی نہیں ۔ دوزخ و جنت کا فیصلہ تو صرف اور صرف عقید و ء توحید پر ہو گا ،نیک اعمال بعد کی بات ہے۔ آئیے حج کے اس مقدس مہینے میں عظیم باپ کے عظیم بیٹے کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ دعا کریں کہ اﷲ ہم سب کے دلوں سے شرک و بدعت کا زنگار اتار کر ہمارے قلب و زہن کو اپنی واحدانیت اور الوہیت کی لازوال روشنیوں سے منور کرے آمین یا رب العالمین
 

DR ABDUL HAMEED HAMID
About the Author: DR ABDUL HAMEED HAMID Read More Articles by DR ABDUL HAMEED HAMID: 14 Articles with 12266 views Professor Doctor of Biosciences, Quaid e azam University Islamabad.. View More