کسی زمانے میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا اس نے اپنے بیٹوں
کو بلا کر کہا کے فلاں کھیت میں میں نے ایک خزانہ دفن کیا ھے مگر وہ خزانہ
تب کھودنا جب میں اس دنیا سے رخصت ھو جاؤں۔ اچانک بوڑھے باپ کی طبیعت ناساز
ہو گئی اور اگلے دن ہی وہ چل بسے۔ بیٹوں نے اس کے وفات کے تیسرے دن اسی
کھیت کو کھودنا شروع کیا مگر خزانہ نہ ملا تو انھوں نے اس میں فصل بو دی۔
کہانی کا مقصد یہ ھے کے جب باپ زندہ تھا تو اولاد اس لالچ میں باپ کی خدمت
کرتی رہی کہ بعد میں کچھ مل جائے گا۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ کچھ دن پہلے ایک خبر آنکھوں سے گزری کہ حکومت
سرکاری ملازمین کی پینشن ختم کر رہی ہے۔ اگر سرکاری ملازم فوت ہو جاتا ہے
تو اس کی پینشن اس کی بیوی کو ملتی ہے اس طرح بچے ماں باپ کا خیال رکھتے
ھیں۔ تبھی تو بعض گھرانوں میں بڑے بوڑھے جو سرکاری ملازمین ھیں وہ اولڈ
ہاوس سے بچے ہوئے ہیں ورنہ پاکستان کا ہر اولڈ ہاؤس ان بڑوں سے بھرا
ہوتامگر لگتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے جب پینشن نہیں ہوگی تو اولڈ ہاوس میں
جگہ دیکھنی پڑے گی۔
ہمارے حکمران کو تو قرضے کی پڑی ہیں مگر یہ علم نہیں کہ ماں کے ساتھ حساب
کتاب میں برکت نہیں رہتی۔
یہاں بھی تو عوام کو لوٹا جا رہا ہے کے ڈیم عوام کے پیسوں سے بن رہا ہے
پودے عوام کے پیسوں سے لگ رہے ہیں اور پینشن بھی عوام کی ہی جا رہی ھیں۔
ایک یہی ان کی خدمت کا سلہ بھی تھا وہ بھی چھینا جا رہا ہے۔
عوام کا پیسہ اور حکومت کا پیسہ چور کھا گئے اور بھگت رہی ہے عوام۔ پہلا
سٹیپ ان کی پراپرٹی سے سٹارٹ کرنا چاہئے نا کہ عوام کی تنخواہ سے۔ |