یہ دس اور گیارہ ستمبر کی درمیانی رات تھی۔دشمن وطن کو ہر
طرف سے منہ کی کھانی پڑ رہی تھی۔شاید ہی کوئی محاذ ہوگا جہاں دشمن کو اپنی
جارحیت کا جواب کٹھے دانتوں کی صورت نہ ملا ہو۔اس کے ڈنگ سے رنگ نکال دیا
گیا تھا۔کہیں سے یہ اطلاع ملتی کہ فضائی حملے کا خطرہ ہے تو ہمارا ائرڈیفنس
الرٹ فوراً چوکنا ہو جاتا۔جہاں دشمن کی زمینی نقل و حرکت کااشارہ ملتا ،
زمینی دستے فوراً اپنے جوہر دکھاتے اور پھر صورتحال یکسر تبدیل ہو
جاتی۔انہی حالات میں فضائیہ اور بری فوج باہمی تعاون و روابط کے ساتھ اپنے
اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
بین الاقوامی سطح پر بھارتی سفارتکار, ریٹائرڈ فوجی اور بیوروکریٹ عالمی
روابط میں تھے. روس کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے تھے. اتحادی ہونے کے واسطے
دیے جارہے تھے. مقامی میڈیا اور عوام بھارتی صلاحیتوں پر سوال اٹھا رہے تھے..
راجستھان سیکٹر ہاتھ سے نکل چکا تھا.. مشرقی پاکستان میں "کلائ کنڈا" پر
کامیاب حملے نے بھارتی کمانڈ کی کمر توڑ دی تھی. اسکواڈرن لیڈر شبیر حسین
سید کے زیر کمان کلائ کنڈا بیس پر کھڑے گیارہ طیارے تباہ کر دیے گئے تھے.
اس معرکے میں جنرل عزیز خاں (سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی) کے
بڑے بھائی فلائنگ افسر افضل نے شہادت کا اعلی' مقام پایا.. امرتسر, جام نگر,
آدم پور, ہلواڑہ, پٹھانکوٹ, گورداسپور کون کون سی جگہ تھی جہاں تباہی دشمن
کا مقدر نہ بنی ہو...
چونڈہ, بڑا پنڈ, درمان, شکرگڑھ, کون کون سی جگہ تھی جہاں بہادری کے قصے رقم
نہ ہوئے ہوں.. آبدوز غازی کی ہیبت بھی بھارتی بحریہ کے لئے ایک چیلنج تھی..
جنگ کے دوران متعدد ایسے مشن ہوتے ہیں جو کہ تمام مسلح افواج کو باہمی
تعاون سے سر انجا م دینے ہوتے ہیں۔ بری ،بحری اور ہوائی افواج باہمی روابط
اور تعاون سے اپنے مشن سرانجام دیتے ہیں۔ ایسے مشن ،،کلوز سپورٹ مشن ،،کہلاتے
ہیں۔ ا یسے ہی حالات میں سیالکوٹ سیکٹر میں خفیہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ
دشمن سیالکوٹ پر قبضہ کرنے کا مذموم ارادہ رکھتا ہے۔چراغ جب بجھایا جاتا ہے
تو بجھنے سے قبل وہ ایک بھرپور شعلہ اڑاتا ہے اور پھر بجھ جاتا ہے.. جنگ
میں ہارتے دشمن کا انداز بھی ایسا ہی ہوتا ہے.. وہ رات کا دوسرا پہر تھا ۔
ایسی صورتحال میں زمینی دستوں کے لیے یہ مشکل تھا کہ دشمن کے دستوں کی بھر
پور نشاندہی کر سکیں۔انکے لئے رکاوٹ بن سکیں یا مکمل طور پر انکا دفاع
کرسکیں۔سیالکوٹ کی جغرافیائی صورتحال اس نوعیت کی تھی کہ وہاں پر زرعی رقبہ،
جنگلات اور ندی نالے بہت زیادہ ہیں۔ایسے میں دشمن کہیں سے بھی چھپ چھپا کر
پیش قدمی کرسکتا تھا۔نہایت غور و خوض کے بعد یہ جنگی حکمت عملی اختیار کی
گئی کہ رات کے اس پہر علاقے میں روشنی کے گولے پھینکے جائیں اور ان گولوں
کی نشاندہی پر بم گرائے جائیں۔یہ دشمن کو دھمکانے ، ڈرانے اور پیش قدمی سے
باز رکھنے کا ایک حربہ تھا۔ایک خطرہ یہ تھا کہ ہماری بمباری ہمارے اپنے
دستوں کو نقصان پہنچانے کا سبب نہ بن جائے۔ رات کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں
اپنے دستوں کو حرکت میں لانا دشمن کو انکی نشاندہی کر سکتا تھا یا انکو
چوکنا کرنے کا سبب بنتا۔
پاک آرمی کی طرف کلوزسپورٹ مشن کے حوالے سے مسلسل اس اہم مشن کی حساسیت کا
کہا جا رہا تھااور جب اس مشن کو عملی طور پر ترتیب دیاجا رہا تھاتو کسی
ایسے ہواباز کا انتخاب ضروری تھا جو اس علاقے سے باخبر ہو۔ سکواڈرن لیڈر
رئیس اے رفیع کو پہلا مشن اُڑنا تھا جبکہ فلائٹ لیفٹننٹ اختر بطور نیوی
گیٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ریڈیو ٹرانسمیٹر پر زمین پر موجود
رابطہ آفیسر کو صورتحال سے باخبر کیا گیا۔اس سے مطلوبہ معلومات وصول کی
گئیں اور پھر اس خطرناک مشن کیلئے حکمت عملی وضع کی گئی۔یہ نہایت خطرناک
صورتحال تھی اگر صبح ہونے کا انتظار کیا جاتا تو دشمن کے مذموم عزائم -----
جارحانہ طریقہ کار اور بدنیتی پر مبنی ارادوں کا انجام سیالکوٹ کی سرزمین
کو خطرے میں ڈالنا تھا اور اس کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔ایک نالہ
جو کہ دشمن کی نقل و حرکت کے لئے مرکز خیال کیا جا رہا تھا اس کو بمباری کے
لئے چنا گیااور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کے ایک طرف پاکستانی دستے موجود ہیں
اس لیے نہایت مہارت کے ساتھ بمباری کی جائے۔ ایک لمحے کی لاپرواہی اپنے
سپاہیوں کے لئے تباہی کا باعث بن جاتی. اس غلطی سے دشمن کو ملنے والا فائدہ
اورارض پاک کا نقصان ناقابل تلافی تھا.
سکواڈرن لیڈر رئیس اے رفیع، اپنے ساتھی نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹننٹ اختر کے
ہمراہ پشاور سے B-57 طیارے میں اُڑے تاکہ مقررہ کردہ ہدف کو نشانہ بنایاجا
سکے۔دھڑکتے دلوں اور پر خطر حالات میں انہوں نے اہداف پر روشنی کے گولے
پھینکے اور پھر اپنے بم گرادیے۔ان کی اس کاروائی کا نتیجہ پر خطر تھا۔ایک
انجانا خوف تھاکہ کہیں یہ بم اپنے دستوں کو نقصان نہ پہنچادیں ۔دشمن کی
صفوں کو پچھاڑنے کا تجربہ تو انوکھا ہوتا ہے مگر اپنوں کے لہو کی تڑپ کس سے
برداشت ہوتی ہے ۔یہی سوچ ان ہوا بازوں کے لئے وجہ پریشانی تھی۔ سکواڈرن
لیڈر رئیس اے رفیع، اپنے ساتھی نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹننٹ اختر کے ہمراہ
متعدد بمبنگ مشنوں میں حصہ لے چکے تھے ۔بم گرانے کا یہ تجربہ انوکھا تھا۔
بم گرانے کے بعد سکواڈرن لیڈر رئیس نے ایک جذباتی انداز میں مشن کی کامیابی
کیلئے زمین پر موجود رابطہ افسر سے استفسار کیا۔اور پھر ملنے والی خبر نے
ان جانبازوں کے چہروں پر خوشیوں کے بادل بکھیر دیے۔بم اپنے اہداف پر لگے
تھے۔رابطہ افسر بھی خوشی و جذبات کے ملے جلے احساسات کے ساتھ انکو مبارکباد
دے رہا تھا دشمن کی اس کاروائی کو روکنے کیلئے دوسرے نمبر پر موجود ہواباز
نے بھی اپنے بم گرائے اور پھر یہ کاروائی صبح تک جاری رہی۔ علی الصبح پاک
فضائیہ کے F-86 طیاروں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور براہ راست نظر
آنے والے اہداف کو تباہی و بربادی کا سبق سکھایا ۔دشمن کو پیچھے ہٹنا پڑا.
چونڈا سیکٹر اب بالکل محفوظ تھا.. سیالکوٹ محفوظ تھا.. ٹینکوں کے ڈھانچے
بکھرے ہوئے تھے.. مقامی لوگوں کی مدد سے دشمن کے مارے جانے والے فوجیوں کو
اٹھایا اور دفنایا جارہا تھا.. دشمن سے رابطہ کیا جارہاتھا کہ آؤ اپنے لاشے
لے جاؤ..
اسکواڈرن لیڈر رئیس اے رفیع اور فلائیٹ لیفٹیننٹ اختر تو محض دو ہیروز
ہیں.. ایسے ہزاروں اللہ کے شیر تھے.. ایسے سینکڑوں شہید تھے.. ایسے درجنوں
مجاہد تھے جنکو شناخت نہ مل سکی.. مگر انکا خون اس وطن کے دفاع کے کام آیا.
سیالکوٹ کے ایک گاؤں کندن پور کے بوائز ہائی سکول میں کلاس روموں کے سامنے
ایک قبر ہے جس میں 1965 کی جنگ کا گمنام ہیرو چین کی نیند سورہا ہے,
گاؤں کے وہ افراد جو جنگ کے عینی شاہد ہیں گمنام سپاہی کی بہادری کے قصے
سناتے ہیں, وہ بتاتے ہیں کہ ایک سپاہی نے کیسے دُشمن کا راستہ روکا اور
کھلی جارحیت سے باز رکھا, اگر وہ اکیلا سپاہی اپنی جان کا نذرانہ پیش نہ
کرتا تو گاؤں کے کہیں افراد مارے جاتے,
اُس گمنام سپاہی کی قبر پر کوئی کتبہ نہیں, اُس کا نام کیا ہے, کس ماں کا
بیٹا تھا, کس بہن کا بھائی تھا, کس بوڑھے باپ کا واحد سہارا تھا, کہاں کا
رہنے والا تھا, آج تک معلوم نا ہوسکا, گاؤں والے بزرگ جو
عینی شاہد تھے آج بھی اس کڑیل جوان کی بہادری کو دہراتے ہیں. جو دشمن کے
سامنے اکیلا ڈٹا ہوا تھا..
لاہور بی آر بی نہر کے کنارے
ایک گمنام قبر پہ لگے اس کتبے کی تحریر..ہر وہ شخص پڑھے جسے لگتا ہے کہ وہ
بغیر کسی کی کوشش اور قربانی کے چین کی نیند سوتا ہے. جسے لگتا ہے کہ دشمن
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا آسان کام ہے. جو یہ سمجھتا ہے کہ اپنے
بیوی بچوں والدین ..بہن بھائیوں دوستوں سے دور جانا اور پھر تکلیفوں کے
ساتھ وطن کی مٹی کی حفاظت کوئ عام سا کام ہے تو وہ اس کتبے کو دو بار
پڑھیں. سوچیں کہ اس گمنام شہید کی بیٹی نے اسکا کتنا انتظار کیا ہوگا. ماں
کی آنکھیں کبھی نہیں سوکھی ہونگی. باپ کی کمر مذید جھک گئی ہوگی. اور شاید
اسکی بیوی ساری عمر اسکے انتظار کی سزاوار رہی ہوگی... اس کی قبر پر لگے
کتبے پر تحریر ہے....
"پاکستان فوج کے اس جانباز نے اپنے بے شمار ساتھیوں کے ساتھ اپنا آج قوم کے
کل کے لئے قربان کر دیا.اس کا جسم 16 ستمبر 1965کی صبح بی آر بی نہر میں
تیرتا ہوا ملا جسے برکی بریگیڈ کے چند توپچیوں نے نہر سے نکالا.شہید کو
شناخت نہ کیا جاسکا.توپخانے کے کمانڈر کرنل محمد نواز سیال نےاپنی نگرانی
میں اسی نہر کے کنارے دفن کر دیا جسکی حفاظت کی خاطر اس نے جان قربان کی
تھی. کوئ نہیں جانتا وطن کا یہ جانثار کون تھا؟کہاں کا رہنے والا تھا؟یہ
پاکستان کی ہر ماں کا بیٹا, ہر بہن کا بھائ اور .ہر بیٹی کا باپ ہے"
قرآن مجید کی ایک آیت کے ترجمہ کا مفہوم ہے کہ : ’’(حق بات یہ ہے کہ) اﷲ نے
مومنوں سے اُن کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں، وہ اﷲ
کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں‘‘۔ (التوبہ:۱١١)
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہےمطلوب ومقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائ
لاہور کینٹ میں آباد شہدا کا قبرستان بھی ایسی ہی ایک جگہ ہے جس میں
برگیڈیئر احسن رشید شامی شہید، کیپٹن صغیر حسین شہید سمیت قیام پاکستان سے
لیکر اب تک شہید ہونے والے بہت سے مجاہدین کی قبریں ہیں. سو کے قریب ایسی
کچی قبروں پر نظر پڑی جن پر کسی بھی قسم کا کتبہ نہیں. قبرستان کے ملازم سے
پتہ چلا کے یہ سو کے قریب قبریں گمنام مجاہدین کی ہیں. شہادت کے بعد یا تو
ان مجاہدین کے چہرے پہچاننے کے قابل نہیں رہے یا پھر انکے گھر والوں کا کچھ
پتہ نہیں چلا. اسی قبرستان میں بنی ہوئی کچی مسجد بھی ہے.
پاک فضائیہ نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحییتوں کے بل بوتے پر ایک نئی تاریخ رقم
کی اور دشمن پاکستان کو نہ بھولنے والا سبق سکھایا۔ یکم ستمبر سے لیکر سترہ
ستمبر ہر لمحہ.. دنیا کی ایک نئ, کمزور اور مسائل کا شکار مملکت اور عددی
طور پر کم فضائیہ نے اپنے سے بڑے دشمن کو جو سکھایا وہ شاید کچھ اس طرح
تھا!
جو بہادری کے کیڑے کبھی سر میں کلبلائیں ،
تو یہ جان لینا کہ سنی تھی یہ صدائیں
کھبی بھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب ۔۔۔۔۔
میری سرحدوں کی جانب کبھی بھول کر نہ آنا
(سکوارڈن لیڈر زاہد یعقوب عامر) |