مصلی یا مسلی
ھمارے ملک میں ایک تہذیب "مصلیوں "یا"مسلیوں" کی بھی پل رہی ھے۔جنہیں پکھی
واس ۔چنگھڑ ۔اوڈھ۔راج۔خانہ بدوش یا مخلتف ناموں سے پکارا جاتا ہے
یہ لوگ بھکاری۔تماشہ باز۔پھیری والے ۔بندر ناچ۔اور مٹی کاغذ کے کھلونے بیچ
کر گزر بسر کرتے ہیں۔
ان کے پختہ مکان ہیں نہ ہی زمین جائیداد کے یہ مالک ھوتے ہیں سکولوں میں
جاتے ھیں نہ ہی ان کو مساجد و مدارس میں دیکھا گیا ھے۔
ان کی آبادی کروڑوں میں ہے ملک کے بڑوں شہروں کے مضافات سے لے کر قصبوں تک
ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
حکمران اور ایک خاص طبقہ اور انکی NGOsعموما علماء۔مساجد ۔اور مدارس کے
نظام و نصاب کے پیچھے پڑی ھوئی ھے۔ان کو ڈاکٹر انجینئر سائنسدان بنانا
چاہتی ہے ۔حالانکہ دین کا عالم بننا بھی ایک الگ شعبہ ھے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کب حکمران اور یہ ایلیٹ طبقہ ان مصلیوں کو "main
stream "میں لائے گا۔ان کا نظام و نصاب اور تہذیب کو ترقی دیکر ڈاکٹر
انجینئر سائنسدان بنائے گا ؟
کب تک یہ تہذیب در در دھکے کھا کر پلتی رہے گی؟
آپ کے علم میں ھو گا جرائم اور فساد میں استعمال ھونے والی انسانی نسل انہی
مصلیوں کی ھے۔مجرم جاگیردار وڈیرے سبھی ان کو پالتے اور اور موقع محل پہ
استعمال کر کے پھینک دیتے ھیں۔
آخر کب تک؟ مصلی مصلی رہے گا؟کوئی یہ کہے کہ مصلی آگے بڑھ اور پڑھ نہیں
سکتے تو یہ اس کی سوچ ھے۔صابر علی لاھور کے مضافاتی جھگیوں سے نکلا اور
امریکہ کو آنکھیں دکھا آیا۔وہ بھی مصلی ھے آپ اس کی ویڈیو اور بائیوگرافی
پڑھ سکتے ھیں۔ |