اخبارات کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے
کہ وطن عزیز میں بچے انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج بھی
مائیں اپنے جگر گوشوں کو ایدھی سینٹر کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں۔ والدین
بچوں سمیت خود کشی کرنے کو تیار ہیں ، ماں اپنے بچوں کو سربازار نیلام کرنے
پر تلی ہوئی ہے۔ اور کہیں باپ اپنے بچوں کو قتل کر کے خودکشی کر چکا ہے اور
یہ بات پوری قوم کیلئے اور حکمرانوں کیلئے بالخصوص لمحہ فکریہ ہے کہ ماں جو
اپنے بچے کے پاؤں میں کانٹا تو دور کی بات اس پر سورج کی دھوپ تک برداشت
نہیں کر سکتی ، اس کی تمام تر نافرمانیوں اور زیادتیوں کے باوجود اسے اپنی
آغوش محبت میں سمیٹنے کیلئے بیتاب رہتی ہے آج اپنے معصوم جگر گوشوں کو
بیچنے پر مجبور ہے۔ لیکن ہماری بے حسی ہے کہ اس طرف کوئی سوچنے کی کوشش ہی
نہیں کر رہا۔یہ تو عمومی صورتحال ہے اگر ایک ایک پہلو پر غور کیا جائے تو
اندازہ ہوتا ہے کہ شاید بچے معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ ہیں۔ بطور خاص
تعلیم کے حوالے سے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔دیہی علاقوں میں جہاں
پاکستانی آبادی کا بڑا حصہ رہتا ہے تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔
شہروں میں بھی تعلیم کا دہرا معیار اس قدر رواج پا چکا ہے کہ امیر اور غریب
کے درمیاں خلیج ہر آنے والے دن کے ساتھ وسیع ہوتی جا رہی ہے۔بچے والدین سے
وقت مانگتے ہیں جو والدین کیلئے دینا آج کے جدید دور میں مشکل ترین کام ہے
،خاص کر والد کیلئے ہمارے ہاں مرد حضرات کام کے سلسلہ میں صبح سویرے ہی گھر
سے نکل جاتے ہیں اور رات کو دیر سے گھرلوٹتے ہیں ،والد کی کئی کئی دن بچوں
کے ساتھ جاگتے میں ملاقات ہی نہیں ہوپاتی صبح سویرے بچے سورہے ہوتے ہیں اور
رات واپسی پر بھی سوچکے ہوتے ہیں۔فکر روزگار نے ہمیں اپنے بچوں سے اس قدر
دور کردیا ہے کہ ہم ان کی پرورش کیلئے انہیں اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنا کہ
ان کو درکار ہوتا ہے۔ پانچ سے چھ سال کی عمرکے بچوں کیلئے گھر ہی پہلا
مدرسہ ہوتا ہے جہاں بچے والدین سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔چلنا ،بولنا ،اٹھنے
،بیٹھنے کا طریقہ اور ہر طرح کا رویہ اختیار کرنابچے اپنے والدین سے سیکھتے
ہیں۔والدین کی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ذمہ دار رویہ اختیار کریں
گھر کے پر سکون ماحول میں پرورش پائیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک ہی
چھت کے نیچے پرورش پانے والے تمام بچے ایک جیسا مزاج اختیار کریں ،والدین
کیلئے ایسی صورتحال یقیناًباعث اطمینان ہوتی ہے کہ اگر ان کے بچے رقابت کی
بجائے مل جل کررہنا پسند کریں۔تاہم یہاں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے
کیونکہ بچوں میں اعتماد کارشتہ قائم رکھنا یقیناًمشکل ہے لیکن ابتدائی عمر
یعنی پانچ سے چھ سال کی عمر سے ہی بچوں کی اخلاقی ذہنی اور تعلیمی تربیت کے
ساتھ ساتھ ذمہ دار رویہ اختیار کرنے کی تربیت بھی دی جائے تو کافی فائدہ
ہوسکتا ہے۔ یہ بہترین اور نہایت اہم وقت ہوتاہے۔کیونکہ پانچ چھ سال کی عمر
کے بچے زیادہ تر گھر میں والدین کے پاس ہی رہتے ہیں اس لئے اس عر صے میں
بچوں کی تربیت کی زمہ داری بھی ساری کی ساری والدین پر ہی ہوتی ہے۔بد قسمتی
سے والدین جب بچوں کے سامنے مثبت اور یکساں رویہ نہیں رکھتے تب بچوں کو
مثبت اور یکساں رویہ قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب والدین ہی بچوں پر توجہ
نہیں دیتے تو پھر بچے عجیب و غریب عادتیں اپنا لیتے ہیں جھوٹ بولنا،دوسروں
کو دھوکہ دینا، خود کو الگ تھلگ رکھنا والدین کی عدم توجہی کا ہی نتیجہ ہے
۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کو خوفزدہ نہ کیا جائے بلکہ ان کے اندر اعتماد
پیدا کیا جائے اور جتنا ہو سکے بچوں کو سمجھایا جائے۔ پانچ سے چھ سال کی
عمر کے بچوں کی تربیت اگر سچ اور مثبت حکمت عملی کے ذریعے کی جائے تو
اساتذہ بھی بچوں کو بہتر انداز میں تعلیم دے سکتے ہیں۔ چھوٹی عمر کے بچے کو
والدین کہتے ہیں چپ کرجاؤ نہیں تو جن آجائے گا تواکثر بچے اس بات سے خوفزدہ
رہنے لگتے اور اپنے ہی گھر میں ڈرتے رہتے ہیں ،اگر رات کے وقت بجلی بند
ہونے کی وجہ سے اندھرا ہوجائے تو بچے بری طرح ڈرکر زور زور سے رونے لگتے
ہیں ،اس ڈر کو ہم لاکھ کوشش کے باوجود بھی بچوں کے دل سے نہیں نکال
سکتے۔غور کریں ہماری چھوٹی سی غلطی ہمارے بچوں کو ساری زندگی کیلئے خوفزدہ
کردیتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی نفسیات سے واقفیت حاصل کی جائے
اور بچوں کے ذہن میں کسی بھی چیز کا خوف بٹھانے کی بجائے ان کی بات آرام سے
سن کر ان کو سمجھایا جائے کہ بیٹا فلاں چیز آپ کیلئے نقصان دہ ہے اس سے
بچیں تب جا کر ہم بچوں کو ان کی درست سمت کا تعین بتا سکتے ہیں۔
(ذراسوچئے)
|