یہ تو نہیں کہاجاسکتا ہے کہ کفار نے ہمیشہ کے لیے نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے سے ارادہ ترک کردیاہے لیکن یہ ضرور
ہوا ہے کہ ہالینڈ میں ہونے والے خاکوں کا مقابلہ بالآخر کینسل ہوچکا ہے ۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑتے ہیں کہ فلاں حکومت نے کیا کیا تو ہماری حکومت نے
کیا کیا اور نہ ہی ہم اس بحث میں پڑتے ہیں کہ فلاں اسلامی ملک کی عوام نے
یہ کیاوہ کیا وغیرہ وغیر ہ مگر یہ ہے کہ جس نے اس گستاخی کو رکوانے کے لیے
جتنا حصہ ڈالا ہے اﷲ پاک اسے اس کا بہت بہترین اجر دیں گے مگر خلوص شرط
ہے۔۔۔اس مقابلہ کو رکوانے کے لیے ایک طریقہ جس کی تشہیر بے حد کی گئی وہ
ہالینڈ کی مصنوعات کا بائیکاٹ ۔۔۔گو کہ تشہیر کے مقابلے میں بائیکاٹ کم
کیاگیا ہے اور صرف سوشل میڈیا پر مصنوعات کے بائیکاٹ کے اشتہارات ہی لگا کر
اکتفا کیا گیا مگر پھر بھی کم ہی سہی لوگوں نے مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہے ۔یہاں
سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ صرف تھوڑ ے سے مسلمانوں
نے کیا مگر ان کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیں اگر یہی بائیکاٹ پوری امت مسلمہ کرتی
تو بات کہاں سے کہاں ہوتی ۔بہر حال یہ حقیقت ہے کہ کفار دنیا کے مال و متاع
کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور یہ بھی مسلمانوں اور کفار کے درمیا ن فرق کی ایک
قسم ہے کہ مسلمان دنیا کی زندگی کو صرف چند دن کا کھیل سمجھتا ہے اور اس کے
لیے آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے جب کہ کفار کے لیے یہ دنیا ہی ساری کل
کائنات ہے ،اسی وجہ سے کفار دنیا کے مال واسباب کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔لہٰذا
کفار کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کے پاس ان کی مصنوعات کا
بائیکاٹ نہایت مؤ ثر ہتھیار ہے اگر اس پر مسلمان اتفاق کریں تو ورنہ تو
ہماری لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ ہم میں سے بیشتر کو تو یہ پتاہی نہیں تھا
کہ ہالینڈ میں کفار نے کیاقبیح ارادہ کیا ہواتھا ۔
اتفاق واتحاد کے ساتھ ساتھ ہمیں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کو
جاننا بے حد ضرور ی ہے جس کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بے
حد ضروری ہے ۔عموماًیہ کہا جاتا ہے کہ کفار کی ان ریشہ دوانیوں کی ایک وجہ
یہ بھی ہے کہ انھیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں علم
نہیں ہے ۔چلیں چند لمحوں کے لیے ہم اس بات کومان لیتے ہیں تو سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ کیا ہمیں یا ہمارے عزیزواقارب خاص کر اولاد کو سیرت مصطفی صلی
اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ پتا ہے ؟ کیا ہم جہاں دوسرے فضول و بے فضول
کاموں کو اہمیت اور وقت دیتے ہیں کیا ہم روزانہ سیرت رسول عربی صلی اﷲ علیہ
وسلم کی کتب کے چند الفاظ پڑھنے کے لیے وقت متعین کرتے ہیں یا عزیزواقارب
کو اس کی تلقین کرتے ہیں ؟جب ہم خود اس معاملہ میں پیچھے ہیں توہم کیوں
کفار سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہمار ے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت
مطہرہ کا مطالعہ کرکے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بنیں گے ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی زندگی اعلیٰ اخلاق کا وہ نمونہ تھی کہ جس کو دیکھ کر غیر مسلم کیا
جانی دشمن بھی اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے ۔اسی حوالے سے رسول پاک صلی اﷲ
علیہ وسلم کی زندگی سے دو واقعات زینت ورق کررہا ہوں :
حضرت بلال ؓ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپؓ پہلی مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم سے کیسے ملے؟جس پر حضرت بلال ؓ فرماتے ہیں کہ میں مکہ کے لوگوں کو بہت
ہی کم جانتاتھا ۔ کیوں کہ غلام تھا اورعرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک
عام تھا ان کی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کا م لیاجاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا
وقت نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کے لوگو ں سے ملوں، لہٰذا مجھے حضور پاک صلی
اﷲ علیہ وسلم یااسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا ۔ایک دفعہ
مجھے سخت بخار نے آلیا ،سخت جاڑے کاموسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ اور بخار نے
مجھے کمزور کرکے رکھ دیا ۔ لہٰذا میں نے لحاف اوڑھا اورلیٹ گیا ۔ادھر میرا
مالک جو یہ دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں ،وہ مجھے لحاف اوڑھ
کے لیٹا دیکھ کے آگ بگولا ہوگیا ۔اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طور پر میری
قمیض بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں
بیٹھ کے جَو پیس۔اب سخت سردی، اوپر سے بخار اوراتنی مشقت والا کام ، میں
روتا جاتاتھا اور جَو پیستا جاتا تھا ۔کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی
، میں نے اندرآنے کی اجازت دی تو ایک نہایت متین اور پر نور چہرے والاشخص
اندرداخل ہوااور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟جواب میں ،میں نے کہا جاؤ اپنا
کام کرو، تمھیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں ،یہاں پوچھنے والے بہت
ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتاہے۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ جملے سن کر چل
پڑے، جب چل پڑے تومیں نے کہا کہ بس؟ میں نا کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں
مداوا کوئی نہیں کرتا ہے۔حضورصلی اﷲ علیہ وسلم یہ سن کر بھی چلتے
رہے۔۔۔حضرت بلال ؓکہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص
کوئی مدد کرے گاوہ بھی گئی ۔لیکن حضرت بلالؓ کو کیامعلوم کہ جس شخص سے اب
اس کاواسطہ پڑاہے وہ رحمت اللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔حضرت بلالؓ کہتے
ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آگیا اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ
کاپیالہ اوردوسرے میں کھجوریں تھیں ۔اس نے وہ کھجوریں اوردودھ مجھے دیا اور
کہا کھاؤ پیو اورجاکے سو جاؤ۔میں نے کہاتو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِیسے تو
مالک صبح بہت مارے گا۔ انھوں نے کہاتم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا ۔حضرت
بلال ؓسو گئے اور حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلا م
کے لیے چکی پیسی۔ حضرت بلال ؓ کہتے ہیں کہ صبح مجھے پسے ہوئے جو دیے اورچلے
گئے ۔دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا،دودھ اور دوا دی اور ساری رات چکی پیسی ۔۔ایسا
تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک میں( حضرت بلا لؓ) ٹھیک نہ ہوگئے ۔۔۔یہ تھا وہ
تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی حضرت بلا لؓ کو
صحابی رسولؐ بعد میں عاشق رسول ؐپہلے کہا جاتاہے ۔
مکہ مکرمہ میں ایک بوڑھی عور ت اپنے گھر کاسامان باندھے دروازے کے باہر
بیٹھی ہوئی تھی اس نے سن لیاتھا کہ مکہ مکرمہ میں ایک جادو گر آیا ہواہے جس
سے ملتا ہے اس کادین چھین لیتاہے اس نے سوچاشہر میں رہتی ہوں کہیں ایسا نہ
ہو اس سے ملاقات ہواوروہ میرادین مجھ سے چھین لے اس لیے مجھے گھر چھوڑ
دیناچاہیے، گھر کے تھڑے پرسامان رکھ کر بیٹھی ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
کاگزر وہاں سے ہوا بوڑھی عور ت نے دیکھا تو آواز دی بیٹا یہ سامان اٹھاکر
میرے سر پر رکھ دو۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سامان اٹھایاتو کافی وزنی تھا
بوڑھی عورت کودیکھا تو بہت کمزور تھی توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت ادب
سے فرمایا سامان وزنی ہے اگرچاہوتو جہاں آپ نے جانا ہے میں وہاں چھوڑ دیتا
ہوں اس پراس بوڑھی عورت نے کہااس سے بڑی مہربانی اور کیاہوگی ۔حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم نے سامان اٹھایا ہواہے اور بوڑھی عور ت ساتھ چل رہی ہے اوراس سے
باتیں بھی کرتے جارہے ہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بڑھیا سے پوچھا کہ
وہ مکہ مکرمہ چھوڑ کر کیوں جارہی ہیں بوڑھی عور ت نے کہامیں نے سنا ہے کوئی
جادو گر آیا ہے جو لوگوں کادین لوٹ لیتا ہے میں نے ساری زندگی بتوں سے وفا
کی ہے میرے آباؤ اجداد نے بتوں سے وفاکی ہے میں چاہتی ہو ں آباؤ اجداد
کادین چھوٹ نہ جائے وہ جادوگر کہیں مل نہ جائے ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ
سن کر خاموش رہے ، اس عورت کواس کی منزل تک پہنچایا اورسامان اس عورت کے
سپرد کرکے واپس پلٹنے لگے تواس بوڑھی عورت نے آواز دی بیٹا اپنا نام
توبتاؤلوگ پوچھیں گے کہ مکہ مکرمہ کیوں چھوڑ آئی ہوتو بتاؤں گی ایک جادوگر
کے دکھ سے چھوڑ کر آئی ہوں تو لوگ کتنا براکہیں گے تو میں ان لوگوں کو یہ
بھی بتاؤ ں گی جس مکہ مکرمہ میں وہ جادوگر رہتاہے وہاں اتنا اچھا نوجوان
بھی رہتا ہے تو لوگوں کے سامنے تیرا نام لیاکروں گی تیری ہمت تیری خدمت
گزاری کے قصیدے پڑھا کروں گی ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بوڑھی عورت کی بات سن
کر مسکرائے اورفرمایا اے بڑھیا آپ جس جادوگر کے ڈر سے مکہ مکرمہ چھوڑ کر
آئی ہیں دیکھ وہ میں ہی ہوں اور ساتھ ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بوڑھی
عورت سے نقل مکانی کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کی معافی مانگی۔ بڑھیا بولی
کیاسچ آپ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جی
میرا نام ہی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہے توبوڑھی عور ت چھلکتی ہوئی آنکھوں سے
بول اٹھی بیٹا محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم )تیراجادو مجھ پر چل گیا ہے چل مکہ
مکرمکہ واپس پہنچادے۔
یہ وہ اخلاق کا نمونہ ہے جس کی وجہ سے بے شمار جانی دشمن بھی آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے دیوانے ہوئے ۔موجودہ دورمیں اب اس سیرت طیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی تبلیغ و ترویج کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے کی بھی اشد ضرور ت مگرسوال
یہ ہے کہ کون یہ کرے ؟کیا وہ جن کے بارے میں ابن انشاء نے دائرے کی تعریف
کچھ یوں کی: ’’دائروں کی کئی اقسام ہیں۔ایک دائرہ اسلام کا بھی ہے ،پہلے اس
میں لوگوں کو داخل کیاجاتا تھا اب عرصہ ہواداخلہ بندہے صرف خارج کیاجاتا
ہے‘‘
اسی طرح اس سیرت کو سیکھ کر اس کواپنی زندگی کے سانچے میں کون ڈھالے گاکیا
وہ جن کی تعریف ابن انشاء نے یوں کی:’’پہلے لوگ خود کو اسلام کے سانچے میں
ڈھالتے تھے اب اسلام کواپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں نتیجے میں
بہت سااسلام سانچے سے باہر رہ جاتاہے‘‘
|