عورت گھر کی زینت

تحریر: مریم صدیقی، کراچی
اکثر خواتین کو گھر کی آرائش و زیبائش کا شوق ہوتا ہے ، وہ نت نئی چیزوں سے گھر کو سجانے اور سنوارنے میں مصروف رہتی ہیں۔ جب بھی بازار جاتی ہیں، گھر کی سجاوٹ کا کوئی نہ کوئی سامان لے آتی ہیں۔ گھر کو سجانا سنوارنا بے شک ایک عورت ہی کی ذمہ داری ہے اور وہی یہ کام احسن طریقے سے انجام دے سکتی ہے۔گھر کی ظاہری زیب و زینت اپنی جگہ اہم ہے لیکن کسی بھی گھر کی اصل خوبصورتی اس گھر کے افراد کی باہمی محبت ہوتی ہے اگر گھر اپنی باطنی خوبی سے عاری ہے تو ظاہری خوبی دل کے بہلاوے کے سوا کچھ نہیں۔

گھر کو اشیائے زیب و زینت سے آراستہ کرنے کے بعد بھی اگر رشتوں میں اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوتی، گھر ہر وقت میدانِ جنگ کا سا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے، گھریلو ناچاقیوں کے سبب گھر کا ماحول کھینچا کھینچا سا رہتا ہے، فریقین ایک دوسرے کو جھکانے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں ، دونوں میں سے کوئی انا کے ہاتھوں شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا تو ایسے رشتے جلد یا بدیر اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں۔ جیسے کسی بھی گھر کی آرائش و زیبائش کی ذمہ داری عورت کی ہوتی ہے کہ وہ کیسے اپنی ذہانت سے اپنی چادر میں رہ کر پاؤں پھیلاتے ہوئے اپنے گھر کو ظاہری طور پر جنت کا نمونہ بناتی ہے ۔ویسے ہی اپنے ازدواجی رشتے کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی عورت پرہی عائد ہوتی ہے کیوں کہ اﷲ نے عورت کے اندر محبت اور برداشت کا مادہ مرد کی نسبت زیادہ رکھا ہے۔

بعض خواتین اپنے اخراجات اس قدر بڑھالیتی ہیں کہ مرد کے لیے ان کے اخراجات کا بوجھ برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ایسے میں ناچاقیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں۔ عورت کی سمجھ داری اسی میں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودہ آمدنی میں قناعت اختیار کرے کہ ایسے اﷲ مال میں برکت عطا کرتا ہے۔کوئی بھی عورت اگر چاہے تو اپنے اخلاق اپنی محبت اور حسنِ سلوک سے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔بوقت ضرورت تھوڑا سا تحمل ہمیشہ کے پچھتاوے سے بہتر ہوتا ہے. پتھر کاجواب اینٹ سے دینے کے بجائے اگر وقتی طور پر خاموشی کا سہارا لے لیا جائے تو کئی طوفانوں کے رخ موڑے جاسکتے ہیں۔اگر آپ خود کو صحیح تصور کرتی ہیں تو پھر کسی وقت رسان سے اپنی بات دوسرے فریق کے سامنے رکھی جاسکتی ہے۔
عورت ہی ہمیشہ غلط ہو اور مرد ہمیشہ صحیح ایسا کہنا درست نہ ہوگا لیکن اگر عورت صحیح وقت پر سمجھ داری کا مظاہرہ کرے تو زندگی کی کئی مشکلات کا سامنا کرسکتی ہے۔جیسے گھر میں رکھے پودوں کی حفاظت کرنی پڑتی ہے کہ ان میں کیڑا نہ لگے، انتہائی نگہداشت کی جاتی ہے بالکل ایسے ہی یہ رشتہ ازدواج توجہ، محبت اور اعتماد کا محتاج ہوتا ہے۔ ہر پل توجہ کا طلب گار ہوتا ہے۔ اسے بداعتمادی، بے توجہی،بیگانگی کے کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے،سخت محنت کرنی پڑتی ہے تب کہیں جاکر ہم اس رشتے کی خوب صورتی کو محسوس کرتے ہیں۔

یہ رشتہ خون کا نہیں ہوتا لیکن اسی رشتے سے خون کے رشتے جنم لیتے ہیں چوں کہ یہی باقی رشتوں کی بنیاد قرار پاتا ہے تو ہمیں پہلے اس پر توجہ دینی ہوگی پہلے اس کو سنواریں گے تو اس سے جنم لینے والے رشتے اپنے آپ سنوار جائیں گے۔اگر اس رشتے کی عمارت دوستی کی بنیاد پر کھڑی کی جائے تو اس رشتے میں آنے والی کئی مشکلات کا حل دوستانہ طریقے سے نکالا جاسکتا ہے۔ رشتہ ازدواج کی کامیابی کی چابی دیانت داری، صبر تحمل اور محبت ہے۔ جو عورتیں اپنے رشتے کی زیب و زینت پر توجہ دیتی ہیں ان کے گھر خود بخود چمکنے لگتے ہیں، ان کے گھرکاآنگن خوشیوں سے مہکتا ہے تو بازار سے خریدی گئی اشیاء کی چکا چوند ماند پڑجاتی ہے۔ جب وہ حقیقی خوشیوں سے اپنے گھر کو سجا لیتی ہیں تو باقی سب چیزیں بے وقعت ہوجاتی ہیں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141974 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.