آج سارے لڑکے لڑکیاں عصر کے وقت ہی شاہ زیب ولا کی بارہ
دری میں اکٹھے ہوگئے تھے ۔تنویر کو نماز میں مصروف دیکھ کر سب سر جھکا کر
خاموشی سے بیٹھ گئے۔ فضا میں صرف پنکھوں کی آواز اورفوارے کے پانی کا
ارتعاش تھا۔ تنویر نے سلام پھیرا تو سب لڑکے لڑکیوں نے باآواز بلند کہا :
اسلام و علیکم ددو!
تنویر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی ۔آج تو شاہ زیب کسی وجہ سے جلد گھر
آگیا تھا، بارہ دری پر رش دیکھ کر وہ بھی آگیا۔ سب کو بیٹھا دیکھ کر وہ بھی
تنویر کے پیروں میں بیٹھ کر اس کے پیر دبانے لگا۔ اکثر لڑکے لڑکیاں ورطہ
حیرت میں غوطہ زن تھے کہ اتنا بڑا بزنس ٹائیکون اپنے باپ کے پیر دبا رہا
تھا۔
دادا ابا نے حقہ گڑگڑایا اور بولے:
آکا بھیا اور سبتین بھیا کی شادی ایک خواب کی طرح مجھے لگی تھی علاقے بھر
کے غریبوں میں اناج اور کپڑے بانٹے گئے۔ان غرباء میں ہندووں ،سکھوں یا
مسلمانوں کی تمیز نہیں رکھی گئی تھی۔ باوجی کہتے تھے :
پتر ! بھوکے کا پیٹ ایک ہی سوال کرتا ہے۔ مسلمان،ہندو یا سکھ کی بھوک مختلف
نہیں ہوتی۔ ۔
ہمارے باوجی تیل مہندی ،مایوں کے خلاف تھے کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف
ہندوانہ رسومات تھیں ۔مگر حویلی کی عورتوں کو زنان خانے میں خوشی منانے کی
اجازت تھی۔ دونوں بھائیوں کے نکاح مسجد میں ہوئے کیونکہ باو جی لڑکی والوں
پر ایک گلاس پانی کا بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہتے تھے ۔رخصتی کے وقت بنارس
میاں کے گلے لگا کر کہا:
بنارس میاں! ہم بہوئیں نہیں بیٹیاں لے کر جارہے ہیں ۔اللہ تعالی نے ہمیں
بیٹی کی نعمت نہیں دی تھی آج آپ نے ثریا اور شکیلہ کو ہمییں دے کر ہمیں
مالامال کردیا ۔
باوجی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، میری اپنی آنکھیں جھلملا گئیں ۔
گھر پہنچ کر بے بے نے مجھے زنان خانے میں بلایا۔ میں نے اپنی دونوں
بھابھیوں کو آداب کیا اور کتابوں کا ایک ایک سیٹ شادی کے تحفے کے طور پر
دیا ۔میری دونوں بھابھیاں ماشااللہ چندے آفتاب اور چندے ماہتاب تھیں
۔بنارسی غراروں، منقش طلائی زیورات اور حنا لگائے وہ واقعی حوریں لگ رہئ
تھیں ۔میرے دل کو یقین ہوا کہ اب میرے دونوں بھائی سیاست چھوڑ کر گھرگرہستی
کی فکر میں مبتلا ہوجائنگے۔
اگلے روز ولیمہ تھا، میرے باوجی نے انگریز جنرل سے لے کر تمام معززین شہر
کو دعوت دی ہوئی تھی ۔اس دن دس قسم کے پکوان لال حویلی میں پکے ۔اتنے
ضرورتمندوں کے دامن بھرے گئے کہ ہر شخص کے منہ پر نوبیاہتا جوڑوں کے لئے
دعائیں تھیں ۔
اس دن زنان خانے کے پائیں باغ میں میرا سامنا سکینہ سے ہوگیا ۔سفید غرارہ
میں ملبوس موتیے کی کلیاں چنتی، وہ مجھے بڑی الوہی سی لگی ۔میرے کھنکارنے
پر اس نے گھونگھٹ نکال لیا اور میری آواز دینے کے باوجود وہ زنان خانے میں
بھاگ گئی ۔
تنویر کی آنکھیں بند تھیں ایسے لگتا تھا وہ ماضی کو جی رہا تھا۔حاضرین محفل
پر سکوت طاری تھا ایسے لگتا تھا کہ وہ ٹائم مشین کے ذریعے ماضی میں پہنچ
گئے ہیں ۔موزن نے دور مغرب کی اذان شروع کی، حاضرین پر چھایا طلسم یک بارگی
ٹوٹ گیا۔
اب آنے والے دنوں میں تنویر کی آپ بیتی کیا کیا موڑ اختیار کرئے گی ۔پڑھتے
ہیں اگلی اقساط میں ۔
( باقی آئندہ )۔
|