کنٹرولڈ جمہوریت

بھٹو دور میں حالات یہ تھے کہ کچھ شیطانیوں کے سبب ملک ٹوٹ چکا تھا۔عوام بپھری ہوئی تھی۔مجرموں کا تعین کیا جارہا تھا۔تکہ بوٹی کردینے کی سوچ پائی جاتی تھی۔ کرتا دھرتا گھبرائے ہوئے تھے۔ان کا نشہ ہرن ضرور ہوا۔مگر اکڑ نہیں جارہی تھی۔نہ اپنی کوتاہی تسلیم کررہے تھے نہ کسی قسم کی معذرت پر آمادہ۔تبھی بھٹو صاحب کی خدمات لینے کاخیال آیا ۔مقصد تھا کہ رائے عامہ کو تبدیل کیا جاسکے۔نفرت کے زور کو تھمایا جائے۔قوم نارملائز کیا جائے۔اس وقت جو جزبات کچھ اداروں او رافرادکے خلاف ہیں۔انہیں زائل کیا جاسکے۔ بھٹو صاحب ایک درست انتخاب ثابت ہوئے ۔ہفتوں بعد ہی عوام سقوط ڈھاکہ بھول گئے۔نہ ملک ٹوٹنے کا غم رہا۔نہ ملک توڑنے والوں سے نفرت سب کچھ جاتارہا۔بھٹو صاحب بچے کھچے پاکستان کے باسیوں کو ایک عجب دنیا میں لے گئے۔جہاں کے خواب بڑے رنگین تھے۔وہاں کی رونقیں بڑی دلکش ۔بے بناہ شغل میلے ۔بھٹو صاحب خود بھی اپنی طلسماتی دنیا میں غرق ہوگئے۔ انہیں اصل کہانی کے کچھ حصے کی سمجھ تب آئی جب ان کی حکومت ختم ہوئی۔باقی باندہ حصے انہیں تخت دار تک پہنچنے تک پتہ چلتے گئے۔

تحریک انصاف کی ساری توجہ اب پنجاب کے بلدیاتی اداروں پر ہے۔یہاں نوازشریف کے متوالوں کا غلبہ ہے۔وزیربلدیات کو خوف ہے کہ جس طرح بلدیاتی اداروں کو فنڈ جاری ہوچکے۔یہ فنڈ لیگی متوالے کہیں تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو فیل کرنے میں نہ لگاپائیں۔وہ جتنی جلد ی ہوسکے یہ ادارے توڑ کر کسی ایسی بناوٹ کے نئے بلدیاتی اداارے بنانا چاہتے ہیں جو تحریک انصاف کو سپورٹ کریں اور مسلم لیگ ن کی راہ روکیں۔اس صوبے میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوچکی۔اب یہاں کے بلدیاتی ااداروں میں بھی اپنی برتری قائم کرنے کے لیے کام کراہے ہیں۔یہی نہیں تحریک انصاف تمام صوبائی محکموں۔اداروں اور کارپوریشنز میں اپنے مخالفین کا صفایا کرکے اپنے تابع افراد پہنچانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

عمران خاں کو جب اقتدار ملا تو حالات کچھ اور ہیں۔یہ وہ ایام ہیں جب نوازشریف سسٹم سے بغاوت میں آخری حد تک پہنچ گئے۔اندازہ نہ تھا کہ کوئی جمہوری قیادت اتنی مستقل مزاج اور نڈر ثابت ہوگی۔بھیڑ بکریوں کے عادی لوگوں کو پہلی بار کوئی لوہے کا چنا ملا۔انہیں راہ راست پر لانے کے لیے جو جتن کیے بے کار رہے۔مقدموں کے ڈراوے دیے گئے ۔وہ پیچھے نہیں ہٹے۔جعلی احتجاج کروائے گئے۔یہ ڈٹے رہے ۔ پانچ رکنی بینچ سے دوتہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم کو نااہل کرواکے گھر بھجوایا گیا۔یہ پھر بھی رام نہ ہوئے ۔انہیں رسوا کرنے کے لیے بھی آخری حد تک جایا گیا۔ان کی رائے ونڈ رہائش گاہ کو اپنے خدام کی فو ج بھجواکر گونواز گو کے نعروں سے لرزایا۔۔لندن کی رہائش گاہ پر کرائے کے مظاہریں بھجوائے گئے۔رسواکرنے کی انتہا کی گئی۔نوازشریف نہیں مانے۔آخری ہتھیا رجیل بھجوانا تھا۔یہ جیل میں بھی اپنی للکار پر قائم ہیں۔یہ ہیں وہ حالات جب عمران خاں کو اقتدار دیا گیا۔بھٹو کی طرح عمران خاں سے بھی ہنر مندیاں مطلوب ہیں۔ایسی فنکاریاں کہ لوگ اصل ایشوز کو نظر انداز کرکے ان سہانے خوابوں میں غرق ہوجائیں جو عمرا ن خاں دکھائیں گے۔تحریک انصاف نیا پاکستان بنارہی ہے۔تبدیلی آجانے کی بات کررہی ہے۔مدینے کی ریاست قائم کرنے کی نوید دے رہی ہے۔بڑے بڑے خواب کھائے جارہے ہیں۔

عمران خاں زیادہ سے زیادہ کنٹرول چاہتے ہیں۔وہ تمام اداروں ،شعبوں اور کارپوریشنز میں اپنے بندے لانے کی کوشش میں ہیں۔ان کا پروگرام اختیارا ت کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر تبدیلی لانا ہے۔ان کی پلاننگ بظاہر بڑی زبردست ہے۔ مگر اس کے باوجود تبدیلی کے امکانات زیاد ہ نظر نہیں آتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس راستے پر چل کر یہاں تک پہنچے ہیں۔وہ راستہ تبدیلی کی طرف بالکل نہیں جاتا۔جن کندھوں پر سوار ہوکر یہ سفر طے کرپائے یہ کندھے تبدیلی کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔انہیں کاٹھ کے گھوڑے پسند ہیں جو سرنگوں رہتے ہیں۔جتنا چاہے بھکا لیا۔جہاں چاہے ساکت کرلیا۔تبدیلی کی یہاں بالکل گنجائش نہیں یہ لوگ کٹھ پتلیاں پالنے کے عادی ہیں۔انہیں طاقت وور اور اہل عقل برداشت نہیں ۔عمران خاں اپنے تئیں اختیارات سمیٹتے چلے جارہے ہیں مگر یہ سب اختیارات تبدیلی کے لیے غیر متعلقہ ہیں۔ اصل اختیارات تک انہیں کبھی نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ جوں ہی وہ ادھر آئے انہیں اٹھا باہر کیا جائے گا۔اصل اختیارات کی خوہش کرنے والوں کے لیے حکومت میں کچھ جگہ نہیں۔عمران خاں جھوٹے خواب دیکھ کر اپنے اقتدار کا مزہ کرکرا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرپائیں گے۔انہیں کنٹرولڈ جمہوریت کے ایک ادنی ٰ سے مہرے ہونے کے سواکچھ نہیں تصور کیا جارہا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.