بدگوئی کا مفہوم:
’’ کوئی ایسی بات یا اشارہ جو کسی شخص کے سامنے اسے ایذا پہنچانے کی نیت سے
ادا کیا جائے یا جس سے مخاطب کو ناحق ایذا پہنچے یا بات اپنی نوعیت کے
اعتبار سے غیر شرعی یا غیر اخلاقی ہو ‘‘۔
قرآن کریم میں بدگوئی کی ممانعت:
قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا
اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی
صف میں شامل کیا گیا ہے ۔ ’’اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤاور
نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا
ہے ۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں‘‘۔(الحجرات)اسی طرح بد گو
انسان کو سورہ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے ۔’’ہر طعنہ زن اور
عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے ‘‘(الھمزہ)سورہ القلم میں بھی طعنہ
دینے والے شخص کے لئے وعید آئی ہے۔
حدیث میں بدگوئی کی ممانعت:
قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی بدگوئی کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے چنانچہ
ایک حدیث میں خوش خلقی کے بارے میں بیان ہوا ہے ۔تم میں سے بہتر وہ شخص ہے
جو تم سب میں زیادہ بااخلاق ہو۔(صحیح بخاری) اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان
ہوتا ہے ۔’’جو شخص اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ
اچھی بات کہے یا خاموش رہے ‘‘۔( صحیح بخاری)اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکہ بندے کو سب سے اچھی چیز کیا عطا کی گئی؟ فرمایا
خوش خلقی۔(سنن ابن ماجہ)
﴿بدگوئی کے مختلف انداز﴾
گالی دینا:
گالی کا مطلب کوئی دشنام ، بدزبانی یا کوئی فحش بات بولنا ہے ۔ بدگوئی کی
سب سے سنگین صورت حال یہی ہے کہ مخاطب کو گالی دی جائے ۔گالی دینے کے کئی
انداز ہیں جیسے کسی جانور سے منسوب کرنا، کسی غلط کردار سے موسوم کرنا، کسی
فحش فعل سے نسبت دینا، کسی کے گھر کی خواتین کے بارے میں غلیظ زبان استعمال
کرنا، کوئی فحش بات کہہ دینا وغیرہ۔ گالی کسی صورت میں بھی انسانی سوسائٹی
میں گوارا نہیں اور اس کی ہر مہذب فورم میں مذمت ہی کی جاتی ہے ۔ گالی دینے
کا بنیادی مقصد مخاطب کی توہین کرنا، بے عزت و ذلیل کرنا اور ایذا پہنچانا
ہوتا ہے ۔حالانکہ گالی دینے والے شخص کو جواب میں خود اس بے عزتی کے عمل سے
گذرنے کا احتمال ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ آخرت میں اس کے اکاؤنٹ سے نیکیاں
مخاطب کے اکاؤنٹ میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے ۔
حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان کو گالیا ں دینا فسق یعنی گناہ ہے ( صحیح بخاری)
ایک اور مقام پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ دو شخص جو ایک دوسرے
کو گالیاں دیتے ہیں ، وہ دونوں شیطان ہوتے ہیں جو کہ بکواس اور جھوٹ بولتے
ہیں(مسند احمد)اسی طرح آپ نے منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ بتائی ہے
کہ جب بھی وہ کسی سے اختلاف کرے تو گالیاں بکے( صحیح بخاری)ایک حدیث آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو
نماز روزے زکوۃ و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی
کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور
کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی
نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے
ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئیے جائیں گے اورپھر
اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا( صحیح مسلم)
گالی کی سب سے سنگین صورت یہ ہے کسی مسلمان کو کافر کہا جائے ۔ اس بارے میں
آپ کا ارشاد ہے: جس نے کسی کو کافر کہا یا اﷲ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ
وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔( صحیح مسلم)
لعنت کرنا:
بدگوئی کا ایک اور پہلو لعنت کرنا ہے ۔ لعنت کرنے کا مطلب کسی کو خدا کے
عذاب کی یا خدا کی رحمت سے محروم کرنے کی بددعا دینا ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی
ہے کہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اﷲ تجھے برباد کرے یا خدا تجھے غارت
کرے وغیرہ۔ یہ لازمی طور پر ایک سنگین بددعا ہے جس سے مخالف کے بارے میں
ہمارے عزائم کا اظہار ہوتا ہے ۔اگر کسی شخص پر بلاجواز لعنت کی جارہی ہے تو
یہ ایک سنگین گناہ ہے ۔اسی لئے حدیث میں لعنت کرنے کو مومن کے قتل کرنے کے
مترادف قرار دیا گیا ہے (صحیح بخاری)
لعنت کرنے والوں کے بارے میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب پروان چڑھتی ہے
اور آسمان کے دروازے اس پر بند کردئیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی جانب اترتی
ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں پھر دائیں بائیں جگہ
پکڑتی ہے جب کہیں کوئی گھسنے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس
کی طرف جاتی ہے اگر وہ اس لعنت کا حقدار ہو ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی
ہے۔(سنن ابوداؤد)اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں کے بڑی تعداد میں
جہنم میں جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ وہ کثرت سے
لعنت کرتی ہیں۔( صحیح مسلم)
عیب جوئی کرنا:
عیب جوئی کرنے کا مفہوم یہی ہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرنا، ان کی کمیوں کو
ڈسکس کرنا ، نقص نکالنا،نکتہ چینی کرنا ، بلاجواز تنقید کرنا یا یا زبردستی
ان میں کوئی مفروضہ کمی کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے ۔چونکہ عیب جوئی کا
منطقی نتیجہ ایذا رسانی ہے ،جس کی قرآن میں ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔
’’بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی)
نہ کی تو ان کے لئے عذاب جہنم ہے اور ان کے لئے آگ میں جلنے کا عذاب ہے
‘‘(البروج)
اسی طرح حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش
کرو،کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس
کی عیب گیری کرتا اور جس کی عیب گیری اﷲ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے
گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔( جامع ترمذی)
الزام تراشی کرنا:
اس کا مطلب تہمت، بہتان، اتہام یا کسی کو قصور وار ٹہرانا ہے ۔ یہاں الزام
سے مراد کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے ۔
بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے ۔ خاص طور پر اگر یہ تہمت پاکدامن عورتوں پر لگائی
جائی تو لائق تعزیرہے اور ایسے شخص کو اسی کوڑوں کی سزا ہے اور ساتھ ہی ان
کی گواہی آئیندہ کے لئے ناقابل قبول ہے ۔ الزام لگانے کی اس کے علاوہ بھی
کئی صورتیں ممکن ہیں ۔ جیسے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانا،رشوت خوری کی
تہمت دھرنا، کفر کے فتوے لگانا وغیرہ۔ الزام تراشی بھی بدگوئی کی ایک قسم
ہے جس سے اجتناب لازمی ہے ۔
الزام لگانے کی ایک صورت یہ ہے کہ لگایا گیا الزام درست ہو۔ اس صورت میں
اگر نیت اصلاح کی ہے تو یہ بدگوئی نہیں ۔ اگر نیت تحقیر و ایذا رسانی کی ہے
تو یہ بدگوئی ہے ۔یوں بھی کسی کے منہ پر اس کی برائی کو بہت حکمت سے بیان
کرنا چاہئے ورنہ فساد کا اندیشہ ہوتا ہے ۔
مختلف طبقات میں بدگوئی کی نوعیت:
یوں تو بدگوئی ایک عام مرض ہے لیکن کچھ مخصوص طبقات میں خاص قسم کی بدکلامی
کی جاتی ہے جن پر روشنی ڈالنا ضروری ہے ۔
نوجوانوں میں بدگوئی:
نوجوانوں میں عام طور پر بدگوئی کے جو انداز زیادہ کامن ہیں ان میں ایک
دوسرے کو برے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، کسی چڑ کی بنالینا وغیرہ زیادہ
عام ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کا ہم مسئلہ فحش گفتگو بھی ہے ۔ عام طور پر
جنسیات پر مبنی لطیفے ، چٹکلے ، برے القابات ، گالیاں اور کلمات ایک دوسرے
کے سامنے بولے جاتے ہیں ۔
خواتین میں بدگوئی:
خواتین کی بدزبانی کے طریقے عام طور پر کسی پر طنز و تشنیع، طعنے
بازی،متعلقات جیسے کپڑوں، زیورات، میک اپ وغیر پر نکہ چینی اور ایک دوسرے
پر بلا جواز الزام تراشی پر مبنی ہوتے ہیں۔خواتین میں عام طور پر بدگوئی کا
سبب حسد، جلن اور عدم برداشت ہوتا ہے ۔
مردوں کی بدگوئی:
مرد حضرات عام طور پر توتڑاک، گالم گلوچ، فحش القابات وغیرہ کے ذریعے اس
عمل کو انجام دیتے ہیں۔اسی طرح مرد حضرات کی بدگوئی کے اہم موضوعات میں
دفتری اختلافات، روڈ ایکسڈنٹ پر لڑائی، زمین کا مسئلہ یا کسی عورت پر جھگڑا
وغیرہ شامل ہیں۔
مذہبی حلقوں میں بدگوئی:
مذہبی حلقے میں علماء اور ان کے مقلدین دونوں شامل ہیں۔ علما ء کی بدگوئی
میں ایک دوسرے پر کفر کے بلا جواز فتوے لگانا، مخالفین کو منافق ، زندیق
وغیرہ کہنا شامل ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے کو ان القابات سے پکارا جاتا ہے جس
سے مخالف چڑنے پر مجبور ہوجائے جیسے کسی کو وہابی، بریلوی ، بدعتی وغیرہ
کہنا۔ دوسری جانب ان علماء کے مقلدین اپنے علماء کی تقلید میں ان سارے
القابات کو مزید نئے ناموں کے ساتھ بازاری زبان میں بیان کرسکتے ہیں۔
بدگوئی کے اسباب:
بدگوئی کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
٭تکبر٭نفرت اور کینہ٭منفی سوچ٭حسد٭ زیادہ بولنے کی عادت٭ احساسِ
کمتری٭انتقام و بدگمانی ٭ غصہ٭تحمل کی کمی٭مخاطب کے جذبات سے لاعلمی۔۔وغیرہ
بدگوئی سے بچنے کے طریقے:
بدگوئی سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ سبب معلوم کیا جائے جس کی
بنا پر بدگوئی کی جارہی ہے اور پھر اس سبب کے مطابق علاج کیاجائے ۔ مثال کے
طور پر اگر بدگوئی کا سبب غصہ ہے تو اس ہر قابو پایا جائے ، اگر سبب بہت
زیادہ بولنا ہے تو کم بولنے کی مشق کی جائے۔۔ وغیرہ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہلک بیماری سے اپنی حفظ وامان میں رکھے۔(آمین ثم
آمین،بجاہ سید المرسلین)
|