تحریر:ڈاکٹرمریم ناز،ہارون آباد
قلم اٹھاتی ہوں مجروح سا احساس لکھتی ہوں
میں کاغذ پر سیاہی سے فقط افلاس لکھتی ہوں
آج سے میں جو لکھنے جارہی ہوں وہ کچھ نیا نہیں مگر اتنا پرانا نا ?و جائے
کے وقت کے ہاتھ صرف پچھتاوا رہ جائے جی میں ھے کچھ ایسا لکھوں جس کو پڑھ کر
آپ سبھی کی آنکھیں نم ہوں ہم سوچنے پر مجبور ہوں کے وقت بدلہ ھے یا ہم ؟؟
دل اور زبان کچھ کہنا چاہیں مگر کہہ نا پائیں۔۔۔ سارے لفظوں کے کپڑے اتار
کر۔۔اک اک مصرعے کا احتساب و۔۔ اور وہ لکھوں جو میں دیکھ چکی ہوں۔جو میں
دیکھتی ہوں۔۔
مگر مجھے پتہ ھے۔۔ ہم راتوں کو نیٹ پر گندی فیلمیں تو دیکھ سکتے ہیں۔۔۔کسی
بے گناہ کو چار چار درندوں سے زیادتی کا شکار ہوتا دیکھ کر آنکھیں بند کر
کے مزے لے کر کروٹ بدل لیتے ہیں۔۔ مگر سچ پر اٹھے قلم کو سچ مانے کی بجائے
لکھنے والے پہ تنقید شروع کر دیتے ہیں۔۔۔
کے۔۔۔۔۔
آپ عورت ہو۔۔۔۔
آپ کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔۔
۔۔۔ پوسٹ ڈیلیٹ کریں۔۔۔
برقع پہنیں گھر بیٹھیں۔۔
میں۔ پوچھنا چاہتی ہوں۔۔کے نیٹ کے اس فاسٹ دور میں کیا ہم سے کچھ پوشیدہ
ھے۔۔۔؟
کیا ہمارے بچے اس غلیظ جراثیم کی دنیا سے محفوظ ہیں۔۔؟؟
ایک۔ زمانہ تھا۔۔ صرف پورے محلے میں ایک گھر میں ٹی _وی ہوا کرتا تھا سارے
بچے بڑوں کی نگرانی میں اس بلیک،اینڈ وائٹ کو دیکھ کر خوش ہو لیا کرتے
تھے۔۔
بڑوں کو بچوں کی سر گرمیوں کا پتہ ہوتا تھا۔۔۔
ہم۔ بچوں کو بڑوں کی۔ عزت اور احترام سیکھا دی جاتی تھی۔اور حدیں ماؤں کو
پتہ ہوتیں تھیں۔۔مگر آج ہم۔ بڑے مان سے کہتے ہیں
۔۔ہم۔ لبرل ہیں۔۔۔
اکیسویں صدی میں ہیں۔۔
ہم نے محلہ نہیں کمرے بھی الگ الگ بنا لیے ہیں۔
بچوں کو انٹرنیٹ کی حوالے کر کے بے خبر سو رہتے ہیں۔اچانک کسی افتعاد
،حادثے پر واویلا مچا دیتے ہیں۔۔کب ،کیسے ،کیوں ہوا۔۔ خدا راہ ہم جدید کی
دوڑ میں بہت کچھ پیچھے چھوڑ آئیں ہیں۔۔۔ہمارے آباو اجداد کی بہت سی
نہیں۔۔بلکہ مکمل وراثتوں کو درگور کر چکے ہیں۔۔۔اس لیے ہم عدم تحفظ فراہم
کرنے اور لینے کا شکار ہو چکے ہیں۔آج جب ہم عورت کی مظلومیت پر لکھتے
ہیں۔تو کہا جاتا ھے یہ فحش گوئی ھے۔۔ مگر سو لوگوں کے اگے اس عو رت کو ننگا
کر کے سرے بازاروں گھمایا جاتا ھے تب کوئی اک لفظ کہنے والا نہیں ہوتا۔۔۔۔
پتہ نہیں ہم کس تبدیلی کی طرف جا رہے ہیں جہاں ہمارا شعور پیدا ہونے سے
پہلے ہی مر چکا ھے۔۔۔۔ بشکریہ پریس لائن انٹرنیشنل |