عبدالحمید المعروف حمید جہلمی
حمید جہلمی کا اصل نام عبدالحمید تھا لیکن آپ نے شہرت حمید جہلمی کے نام سے
پائی ۔ آپ پنجاب کے تاریخی شہر جہلم کے نواحی گاؤں "کوٹھرہ " میں 26 اپریل
1926ء کو میاں سیف علی کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ کا تعلق آزاد کشمیر
سے تھا ۔آپ کے والد میاں سیف علی معاشی اعتبار سے تجارت پیشہ تھے اور تجارت
کے لیے ہی افریقی ملک کینیا ( نیروبی) میں قیام پذیر رہے ۔وہاں آپ ڈرائی
فروٹ کا کاروبار کرتے تھے ۔19 ویں صدی کے اوائل میں انہیں کاروباری معاملات
کے لیے برطانیہ بھی جانا پڑا ۔بعد ازاں دو بھائیوں کی پے درپے وفات کی بنا
پر میاں سیف علی کو سب کچھ چھوڑ کر وطن واپس لوٹنا پڑا ۔میاں سیف علی کے
ایک بھائی( محمد رفیق) نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا اور بہادری کے ایسے
جوہر دکھائے کہ حکومت برطانیہ کی جانب سے انہیں ملکہ وکٹوریہ کا تمغہ عطا
کیاگیا جبکہ وفات پانے دوسرے بھائی (محمد دین) مشن سکول جہلم میں استاد کی
حیثیت سے تعینات تھے ۔
وطن واپس آکر میاں سیف علی نے تازہ پھلوں کا کاروبار شروع کیا پھر لکڑی کی
تجارت سے وابستہ ہوگئے ۔اس وقت جہلم کی تجارتی منڈی میں میاں سیف علی واحد
مسلمان تاجر تھے ۔ 19ویں صدی کی تیسری دھائی میں جہلم شہر اور گرد و نواح
میں بہت بڑا سیلاب آیا ۔یہ سیلاب میاں سیف علی کے کاروبار کو تباہ کرگیا ۔
معاشی حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ دوبارہ سنبھل نہ سکے اور میاں سیف علی کا
انتقال ہوگیا ۔
صرف 15 سال کی عمر میں حمید جہلمی یتیم ہوگئے ۔اس کم عمری میں آپ کو نہ صرف
اپنی تعلیم مکمل کرنی تھی بلکہ چھ بہن بھائیوں کی پرورش اور معاشی دیکھ
بھال کا فریضہ بھی انجام دینا تھا ۔نازو نعم میں پلے ہوئے ایک 15 سالہ بچے
کے لیے یقینا یہ ایک صبر آزما اور مشکل مرحلہ تھا۔ جس سے وہ بحسن خوبی نبرد
آزما ہوئے ۔حالات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ حمید جہلمی نے اپنا مطالعہ
بھی وسیع کیا اور مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھیں ۔ اوائل عمری میں ہی آپ نے
کھیوڑہ ( جہلم ) میں مزدور رہنما کی حیثیت سے مزدوروں کی رہنمائی کی ۔لیکن
اس کے ساتھ ساتھ بطور نمائندہ جہلم شہر کے خاص واقعات کی رپورٹیں تیار کرکے
لاہور میں نوائے وقت اخبار میں بھجواتے رہے ۔ جاندار رپورٹنگ کو دیکھ کر
نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے آپ کو لاہور آنے کی دعوت دی
لاہور میں آپ کی آمد ہی شعبہ صحافت میں شمولیت کا باعث بنی ۔ کچھ عرصہ بعد
آپ مولانا ظفر علی خان کے اخبار روزنامہ " زمیندار" سے منسلک ہوگئے ۔بعدازاں
امروز میں پچاس سال تک صحافتی خدمات انجام دیتے رہے۔
ممتاز صحافی زاہد عکاسی ماہنامہ "نیا زمانہ " میں حمید جہلمی کے بارے میں
لکھتے ہیں -: "کبھی صحافت ایک ایسا شعبہ تھا جس میں کام کرنے والے دوسروں
کو تو شہرت کے آسمان پہنچا دیتے تھے اور خود تمام عمر گم نامی میں رہتے ۔
اس وجہ سے اس پروفیشن کو Anonymous جاب کہا جاتا ہے ۔ اس زمانے میں لکھنے
والے اپنے مضمون پر یا تو قلمی نام دیتے تھے یا پھر اگر اصل نام دیتے تو
اپنی تصویر کبھی شائع نہیں کرتے تھے ۔ حمید جہلمی اسی صحافت کا ایک درخشندہ
ستارہ تھے جو پچھلے دنوں گم نامی کی حالت میں ہی اس دنیا سے سدھار گئے ۔
حمید جہلمی 87 برس کے تھے وہ بھارت کے سابق وزیر اعظم اے کے گجرال کے کلاس
فیلو اور جہلم ہی کے عالمی شہرت ریلوے مزدور یونین لیڈر مرزا ابراہیم کے
ساتھی تھے ۔ان کی دوستی اقبال شیدائی اور صفدر میر کے بھائی اصغر علیم کے
پروفیسر محمد سرور سے بھی تھی ۔
حمید جہلمی نے صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغازمولانا ظفر علی خان کے اخبار "
زمیندار" سے کیا تو اس دوران وہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے کی پاداش میں
پس زنداں بھی رہے ۔جب قیام پاکستان کے بعد ٹریبون کی بلڈنگ سے" امروز "
اخبار شروع ہوا تو آپ اس کے ادارتی سٹاف میں ملازم ہوگئے ۔ اس طرح انہیں
مولانا چراغ حسن حسرت ٗ احمد بشیر ٗ احمدندیم قاسمی ٗ فیض احمدفیض ٗ صفدر
میر ٗ عبداﷲ ملک ٗ حمیداختر ٗ حمید ہاشمی اور حمید شیخ کی قربت بھی حاصل
ہوئی ۔ روزنامہ امروز میں وہ ایک عرصہ تک "پس منظر "اور " امروز فردا" کے
عنوان سے لکھتے رہے ۔پھر امروز میں ادبی صفحے کے بھی انچارج تھے۔
حمید جہلمی ایک عرصہ تک ایڈیٹوریل نوٹ بھی لکھتے رہے وہ چاہتے تو اس اخبار
کے ذریعے خود کو شہرت کے آسمان پر بٹھا سکتے تھے لیکن انہوں نے کسی مضمون
یا فیچر پر اپنا نام کبھی نہیں دیا ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے
صحافتی کیریئر میں ایک بھی چھٹی نہیں کی ۔امروز اخبار سے ریٹائر ہونے کے
بعد جہلمی صاحب روزنامہ پاکستان میں بطور جائنٹ ایڈیٹر ملازم ہوگئے ۔ ان
دنوں یہ اخبار اکبر بھٹی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا ۔انہوں نے اپنی بہترین
منصوبہ بندی اور ادارت کی بدولت روزنامہ پاکستان کی اشاعت 90 ہزار تک پہنچا
دی ۔پھر حکومتی پالیسیوں اور گرفت میں آکر روزنامہ پاکستان بند ہوگیا تو آپ
گھر بیٹھ گئے ۔ جب یہ اخبار مجیب الرحمان شامی کی ادارت میں دوبارہ شائع
ہوا تو آپ کو دوبارہ اخبار سے وابستہ ہونے کی دعوت دی گئی لیکن آپ نے اس
پیشکش کو قبول نہ کیااور گوشہ نشین ہوگئے" ۔
پاکستان کے ایک ممتاز صحافی جناب منو بھائی نے حمید جہلمی کی رحلت پر اپنے
تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ "خاموشی سے رخصت ہوجانے والے بزرگ اخبار
نویس حمید جہلمی ہندوستان کے ایک سابق وزیر اعظم اے کے گجرال کے ہم جماعت
ہونے کے علاوہ کالا گوجراں ضلع جہلم کے عالمی شہرت یافتہ مزدور رہنما
مرزاابراہیم ٗ آزاد ہند فوج کے سربراہ سبھاش چندر بوس کے پیش رو اقبال
شیدائی اور عبیداﷲ سندھی کی طرز فکر کے ترجمان پروفیسر محمدسرور کے بے تکلف
دوستوں میں شمار ہوتے تھے ۔حمید جہلمی پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے
تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے جرم میں قید و بند کی سزائیں بھگت چکے تھے ۔
صحافتی زندگی کا آغاز انہوں نے مولانا ظفر علی خان کے اخبار "زمیندار" سے
کیا تھا اور 1948 میں جب میاں افتخار الدین نے پروگریسو پیپرز لمٹیڈکی
بنیاد رکھی تو وہ روزنامہ امروز کے ادارتی سٹاف میں شامل ہوگئے جس سے وہ
نصف صدی تک منسلک رہے۔وہ علمی اور ادبی ماحول بھلایا نہیں جاسکتا جس میں
فیض احمد فیض ٗ مظفر علی خان ٗ احمد علی خان ٗ احمد ندیم قاسمی ٗ صوفی غلام
مصطفی تبسم ٗ ظہیر بابر ٗ خواجہ آصف ٗ آئی اے رحمان ٗ حمید اختر ٗ عبداﷲ
ملک ٗ صفدر میر ٗ احمد بشیر ٗ اے بی ایس جعفری ٗ محمدادریس ٗ ظفر اقبال
مرزا ٗ سیدامجد حسین ٗ انور میر کارٹونسٹ ٗ چاچا ایف ای چودھری ٗ برکی ٗ
اکمل علیمی ٗ اسرار احمد اور سلیم عاصمی جیسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی
سعادت نصیب ہو ۔
حمید جہلمی پی پی ایل کے " حمید ین" کا لازمی حصہ تھے جو حمید ہاشمی ٗ حمید
اختر ٗ حمید جہلمی اور حمید شیخ پر مشتمل تھے اور سارے کے سارے اس دنیا سے
چلے گئے ۔ جہلمی صاحب کا یہ نمایاں اعزاز تھا کہ انہوں نے مولانا چراغ حسن
حسرت ٗ احمد ندیم قاسمی اور ظہیر بابر جیسے ایڈیٹروں کے تحت ان کے حسن
ادارت کو قریب سے دیکھا اور مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ قاسمی صاحب ٗ ظہیر بابر
اور حمید جہلمی اپنے تحریر کردہ اداریوں کے اوراق خوش نویسوں تک جانے سے
پہلے میری نظر سے گزارنا ضروری سمجھتے تھے تاکہ "کا کے کی" کی غلطی کا
احتمال نہ رہے ۔ان سے سب سے میرا تعلق خاطر زندگی کے آخری لمحوں تک برقرار
رہا اور یہی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے " ۔
روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر چودھری خادم حسین لکھتے ہیں کہ "حمید جہلمی
امروز اخبار کے بعد روزنامہ پاکستان میں بھی اداریہ نویسی کے جوہر دکھاتے
رہے ۔آپ کا شمار ایسے اساتذہ میں تھا جو زبان کے بہت پکے اور اس حوالے سے
لحاظ نہ کرنے والے تھے ۔ ہم جیسے جونیئر رفیقوں کو سکھاتے اور سمجھاتے تو
ڈانٹ بھی دیتے تھے کئی بار ایسا بھی ہوا کہ تعریف کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی
کردی ۔ حمید جہلمی ایک نصیحت بہت کرتے تھے کہ اردو بہت وسیع زبان ہے جس میں
الفاظ کی کمی نہیں اس لیے تحریر میں الفاظ کو دہرانا نہیں چاہیے بلکہ اس کا
مترادف لکھنا چاہیئے ۔ہم کوشش تو کرتے ہیں لیکن اکثر جلد بازی میں یہ غلطی
کرجاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی لفظ پہلے لکھا تو تین چار سطروں کے بعد پھر لکھ
دیا حالانکہ اس معنی کے کئی اور الفاظ بھی ہیں ۔مرحوم خود شرافت کے
علمبردار تھے کسی کا برا نہیں چاہتے اور نہ ہی کرتے تھے اپنے کام سے کام
رکھتے ٗ سیاست سے بھی بالاتر تھے البتہ رائے دیتے وقت اپنے موقف پر سختی سے
قائم رہتے ۔"
حمید جہلمی کو فوٹو گرافی کا بھی شوق تھا اس کو باقاعدہ پیشہ کے طور پر تو
انہوں نے نہ اپنایا لیکن اس پر پوری طرح طبع آزمائی ضرور کی ۔تصویروں بنانے
کے بعد گھر میں ہی ڈویلپ کرتے ۔جس کے لیے انہوں نے پورا ساز و سامان جمع
کررکھا تھا ۔اپنے مووی کیمرے سے خاموش فلمیں بھی بناتے۔ جن کے نمایاں کردار
ان کے اپنے بچے اور محلہ دار ہوتے ۔ یہ فلمیں تیار ی کے لیے انگلینڈ بھیجی
جاتی تھیں پھر پراجیکٹر کے ذریعے گھر کی دیوار ہی ان فلموں کی نمائش ہوتی
۔ایسی فلمیں دیکھنے والے افراد گھر کے ہی ہوتے ۔ آپ نے گھر میں ایک
لائبریری بھی قائم کررکھی تھی جس میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہوتی ۔
حمید جہلمی بطور صحافی لبنان ٗ ترکی ٗ چین اور انگلینڈ بھی گئے ۔ آپکو
انگلینڈ میں روزنامہ مشرق کی طرف سے ملازمت کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے وطن
میں رہنے کو ترجیح دی ۔
آپ نے پچاس کی دھائی میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی خاتون تسلیم اختر
سے شادی کی جو رشتے میں ان کی عزیز ہ تھی ۔اﷲ تعالی نے تین بیٹے اور تین
بیٹیوں سے نوازا ۔جو تعلیم اور تربیت کے حوالے سے آپ کی توجہ کا ہمیشہ مرکز
رہے ۔آپ ایک عرصہ تک مو ہنی روڈ عقب مزار حضرت داتا گنج بخش ؒ میں رہائش
پذیر رہے جو اس وقت رہائش کے اعتبار سے لاہور کا بہترین رہائشی علاقہ تصور
کیاجاتا تھا ۔ 1977ء میں آپ اپنی فیملی سمیت ریواز گارڈن کے ذاتی گھر میں
منتقل ہوگئے اور اسی گھر میں3 مئی 2012ء کو 86 سال کی عمر میں وفات پائی ۔
آپ نہ صرف ایک کہنہ مشق ٗ بیدار مغز اور باکردار صحافی تھے بلکہ آپ نہایت
شریف النفس انسان بھی تھے ۔آپ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ پنجاب کے
مردم خیز خطے جہلم سے تعلق رکھنے کے باوجود آپ اہل زبان کی طرح اردو لکھتے
تھے ۔بسا اوقات ان کے اسلوب بیان پر تو اہل زبان بھی رشک کرتے تھے ٗ سیاسی
اور غیر سیاسی موضوعات پر آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور اس کااظہار ان کے
مستقل کالموں میں ہوتا تھا ۔ نوجوان صحافیوں کی تربیت اور رہنمائی میں وہ
خصوصی دلچسپی رکھتے تھے ۔ زبان و بیان کی اصلاح کی جانب توجہ دیتے اور
نوجوان صحافیوں کو بتاتے کہ خبر یا مضمون کا مسودہ کیسے تیار کیاجاتا ہے ۔
زبان میں روزمرہ اورمحاورے کااستعمال کس طرح کرنا ہے۔حمید جہلمی نے جن تین
بڑے اور نامور ایڈیٹروں کے ساتھ امروز اخبار میں کام کیا وہ بھی زبان کے
معاملے میں بہت حساس اور محتاط تھے چراغ حسن حسرت ٗ احمد ندیم قاسمی اور
ظہیر بابر کی ادارت کا زمانہ سنہری دور تھا جس میں ان حضرات کے زیر سایہ
حمید جہلمی جیسے ایڈیٹر ابھر کے سامنے آئے اور اردو صحافت پر انمٹ نقوش
چھوڑ گئے ۔اﷲ تعالی مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔بے
شک آجکل ایسے بااصول اور باوقار لوگ دنیا میں ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔یہاں
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن دنوں حمید جہلمی روزنامہ پاکستان کے ادارتی
نگران تھے انہی دنوں میرے کالم بھی روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے شروع
ہوئے تھے جن کی اشاعت حمید جہلمی کے ماتحت کام کرنے والے سنئیر رپورٹر اختر
حیات اور سعید بخاری کی مرہون منت تھی ۔ ان دونوں افراد کی بدولت ہی مجھے
حمید جہلمی صاحب سے بالمشافہ ملاقات کا موقعہ میسر آیا میں جب روزنامہ
پاکستان کے دفتر گیا وہ نہایت خاموشی سے اپنے کام میں مصروف دکھائی دیئے
۔حسن اتفاق سے سعید بخاری بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں جو حقیقی معنوں
میں انسان دوست اور دوست شناس تھے جن کی ذہنی تربیت جناب حمید جہلمی صاحب
نے کی تھی ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ایک سایہ دار درخت تھے جن
کے سائے عافیت میں بے شمار انسانوں نے پناہ لیے رکھی اور آج وہ صحافتی دنیا
میں باوقار اور بلند مقام حاصل کرچکے ہیں ۔ |