عام تاثر تو یہی ہے کہ منصف روزمرہ دوڑ دھوپ سے دور کم
سخن ہوتے ہیں کہ ملاقات کا وقت طے ہو بھی جائے تو سکوت کی پپڑی توڑتے توڑتے
جاں ہلکان ہو جاتی ہے۔ 73سالہ جسٹس (ر) میاں اﷲ نواز خان البتہ ان ’’آداب‘‘
سے بہت حد تک دور ہیں ۔ در پہ کوئی دربان نہ فکرپہ کوئی قید‘ خوشبو کی طرح
گردو پیش کو معطر کرتی ہوئی بے ساختگی ،متانت‘اورسنجیدگی ،سادگی کا سواد اس
پر اضافہ کہیے۔ آزاد عدلیہ کی تحریک ہماری قومی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے۔
میاں اﷲ نواز اس واقعہ کو عملی شکل دینے والوں میں سے ایک نمایاں کردار ہیں۔
مشہور برطانوی مصنفہ اور ڈرامہ نگار Enid Bagnold نے لکھا تھا۔
’’Judges don,t age;Time decorates them.‘‘
منشا انصاف کی فراہمی ہو اور آئین و قانون سے گہرا لگاؤ بھی،تو بھلے
ناموافق ہوائیں کتنی ہی تیز ہوں۔ آنے والا ہر لمحہ سچے منصفوں کو اجاگر
کرتا اور ان کی پذیرائی میں اضافہ کرتا ہے۔ وقت نے یہی سلوک سابق چیف جسٹس
لاہور ہائیکورٹ (ر) میاں اﷲ نواز سے روا رکھا ہے۔
جسٹس(ر) میاں اﷲ نواز کے آباؤ و اجداد حضرت بہاؤالدین زکریا ؒ ملتانی کے
دور میں بیکانیر سے ہجرت کر کے کہروڑ پکا آئے۔ آپ کے والد میاں اﷲ بخش نے
پاکستان بننے سے دو سال قبل امیر بہاولپور کی زمین مستاجری پر لے کر کاشت
کاری شروع کر دی۔ قیام پاکستان کے وقت اﷲ نواز 9 برس کے تھے۔ ان کے ذہن میں
آج بھی ہندومسلم فسادات کی تلخ یادیں جاگزیں ہیں۔ ان کے بقول ’’وحشت اور
درندگی میں دونوں قوموں کا پاگل پن عروج پہ تھا۔ میں نے ایسے کئی لوگوں کو
کسمپرسی کے عالم میں دیکھا‘ فسادیوں نے جن کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے تھے۔
اﷲ نواز کے دادا بھی وکیل تھے اگرچہ انہوں نے ایل ایل بی نہیں کیا تھا۔
ریاست بہاولپور میں ایک امتحان ہوتا تھا جسے پاس کر کے لوئر کورٹس میں
وکالت کی جا سکتی تھی اسے مختار قانونی کہتے تھے۔ مڈل کے بعد زیریں عدالتوں
میں پریکٹس کے لیے انہوں نے وہ امتحان پاس کیا تھا۔
جسٹس (ر) اﷲ نواز کے والد زمیندار تھے، ساتھ ہی ساتھ سیاست دان بھی۔ وہ
ریاست بہاولپور کی صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے۔ علاقہ کی80 فیصد زمین
جاگیرداروں کی ملکیت ہونے کے باوجود سیلف میڈ اﷲ بخش کی کامیابی روشن مثال
تھی۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے اس الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے
39 میں سے 16 ممبران عام آدمی تھے۔ میاں اﷲ نواز کے خیال میں ’’جمہوریت کے
لیے دو چیزیں لازمی ہیں۔ شفاف الیکشن اور غیر جانبدار انتظامی مشینری ۔ ان
کے مطابق ملک نیا نیا بنا تھا اس لیے وہاں الیکشن آج سے زیادہ شفاف اور
آزادانہ ہوئے۔ اس صورت حال سے ممتاز دولتانہ سمیت جاگیردار اشرافیہ اور
سیاستدان خوفزدہ ہو گئے۔ مشرقی پاکستان سے ہندو چلے گئے تھے۔ ان کے جانے سے
جو سیاسی خلا پیدا ہوا‘ اسے عام آدمی نے پر کیا۔ وہاں کی اسمبلی میں سارے
ممبران لوئر مڈل کلاس سے آئے۔ یہ لوگ ذہین‘ محنتی اور ریاستی نقشے سے واقف
تھے۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان میں 80 فیصد جاگیرداروں نے کامیابی حاصل کی۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد فوجی اشرافیہ
اور بیورو کریسی اقتدار پر قابض ہو گئی۔ 1956ء کے آئین کی دو مرتبہ ریڈنگ
ہو چکی تھی۔ ان لوگوں نے تیسری ریڈنگ پر شب خون مارا۔ غلام محمد نے اسمبلی
توڑ دی۔ مغربی پاکستان کے جاگیرداروں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان لوگوں
نے ہر وہ کام کیا جس سے آئندہ الیکشن کے جمہوری اور منصفانہ ہونے کا امکان
ختم ہو ۔ گھوڑے نچانے والے پردھانوں نے بالآخر محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا
دیا۔ میں محترمہ کا پولنگ ایجنٹ رہا۔ الیکشن منصفانہ ہوتے تو انہیں 75 فیصد
ووٹ ملتے۔ جی معین الدین نے گھر میں بیٹھ کر انتخابی نتائج تیار کئے۔‘‘
’’بچپن میں،میں ڈاکٹر بننے کا خواہش مند تھا مگر والد گرامی مجھے وکیل
بنانا چاہتے تھے۔ 1962ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کے بعد ایک سال
جسٹس اخلاق حسین کے ساتھ کام کیا۔ معروف صحافی نسیم زہرا کے والد جسٹس
اخلاق جیساماہرِ قانون کم ہی ہو گا۔ وہ ڈسپلن کے معاملے میں انتہائی سخت‘
محنتی اور پیار کرنے والے انسان تھے۔جسٹس سلام دوسرے استاد تھے جو سادگی کا
مرقع تھے۔کوئی تلخی نہ رنج،ان کا کہنا تھا کوئی وکیل فیس لیے بغیرعدالت میں
پیش نہ ہو،البتہ کوئی غریب آ جائے تو وہ موقف میں نرمی لے آتے۔ بہاولپور سے
میں نے اُس وقت اپنی جماعت تحریک استقلال کے پلیٹ فارم سے پی این اے کے ٹکٹ
پر نوابزادہ صلاح الدین کے مقابلے میں الیکشن میں بھی حصہ لیا۔ 1975ء سے
1988ء تک میں نے بہاولپور میں پڑھایا۔ 1988ء میں مجھے لاہور ہائیکورٹ کا جج
بنایا گیا۔ 2000ء میں چیف جسٹس مقرر ہوا۔ اسی سال ریٹائرمنٹ ہوئی۔‘‘
’’جسٹس( ر) اﷲ نواز کے بقول ’’ہر معاشرے میں جینیاتی طور پر پانچ دس فیصد
لوگ اچھے ہوتے ہیں اور اتنے ہی برے بھی۔ باقی لوگوں کو اچھا یا برا ماحول
بناتا ہے۔ قائداعظم ایماندار اور کھرے انسان تھے۔ان کی وفات کے بعد جو لوگ
مسلط ہوئے، وہ جلد کروڑ پتی بننے کے خواہاں تھے۔ Kleptocracy کے مقابلے میں
آزاد اور مضبوط عدلیہ ضروری ہے۔ عدلیہ آزاد تو ہوئی ہے‘اب دیکھنا ہے یہ
آزادی کتنی دیر برقرار رہتی ہے۔ عدلیہ ریاست کا مضبوط ترین اور کمزور ترین
ادارہ ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ مضبوط ہو ورنہ معاشرہ نہیں چل سکتا۔ میڈیا کی
حمایت اور لوگوں کی ہمت و قربانی ہی اسے آزاد رکھ سکتی ہے۔ کوئی دینی یا
سیاسی جماعت تو اسے آزاد نہیں دیکھنا چاہتی۔ جسٹس میاں اﷲ نواز کا کہنا ہے
کہ کلپٹوکریسی کے سبب لوگوں کا محنت کرنے پر یقین ختم ہو چکا ہے۔ یہ برتن
بیچ کر زندہ ہیں تو حکومت پرائیوٹائزیشن کے ذریعے یہی عمل دوہرا رہی ہے۔
باصلاحیت لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں یا جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔جہاں تک
وکالت کے شعبے کاتعلق ہے۔ صرف 5 سے 10 فیصد وکلا پوری تیاری کے ساتھ عدالت
آتے ہیں۔ 30 سے 60 فیصد درمیانے درجے کا کام کرتے ہیں۔ وکلاء کے لیے باہر
مارکیٹ نہیں جبکہ یہاں ان کے حوالے سے معاش کا نظام مربوط نہیں۔ لوگ تنخواہ
نہیں دیتے‘ اسی وجہ سے پروفیشن اچھی طرح ترقی نہیں کر رہا۔‘‘
جسٹس (ر)میاں اﷲ نواز کہتے ہیں ’’ ہمارے عوام پرامن اور خوشحال زندگی بسر
کرنے کے پوری طرح اہل ہیں مگر جاگیردار اشرافیہ انہیں ایسا کرنے کا موقع
نہیں دیتی۔ 1999ء میں، میں امریکہ گیا تو ہارورڈ کے پروفیسر نے یہ انکشاف
کر کے مجھے حیران کر دیا کہ پاکستانی سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کے
ڈیڑھ سو ارب ڈالر غیرملکی بینکوں میں موجود ہیں۔ حالت یہ ہے کہ باہر کا
وزیر آکر کہتا ہے چولستان کے دس لاکھ ایکڑ ہمیں دے دو۔جاگیر دار اشرافیہ اس
کام کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا محاسبہ ہو گا تب ہی حالات بہتر
ہوں گے ۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں ہماری چوری نہ پکڑو‘ ان کی پکڑو اور
دوسرے کہتے ہیں ناں ناں ان کی پکڑو، ہماری نہیں۔ ایسے ماحول میں جو بھی
فیصلہ ہو گا یہ کہیں گے ،ہمارے خلاف ہوا ہے۔ جب ریاست کے باقی ادارے کام نہ
کر رہے ہوں تو عدلیہ کافرض ہے کہ وہ یہ کام کرے۔ باہر کے بینکوں میں اربوں
ڈالر لوٹ مار کے پڑے ہوں تو عدلیہ سوموٹو کیوں نہ لے؟ حکومت نے جونیئر
افسروں کو پروموٹ کر کے گریڈ 22 میں ترقی دی ۔ کورٹ نے رولز کے مطابق ان
تقرریوں اور ترقیوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ طارق مسعود کھوسہ جیسے لوگوں کو
آگے لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لوٹ مار کی تحقیق کریں ۔ باہر کے ممالک میں
دولت جمع کرانے والے سارے سیاستدانوں کے اثاثے واپس آنے چاہئیں۔ چلی‘
نائجیریا‘ انڈونیشیا‘ فلپائن میں ایسا ہو سکتا ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟
میاں اﷲ نواز اس تصور کے بھرپور حامی ہیں کہ جج حلف اٹھاتے وقت اپنے اثاثوں
کا اعلان کریں۔ ان کے خیال میں اگر ججوں کے اوپر احتساب کا موثر نظام ہونا
چاہئے کیونکہ انسان سے فرعون بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ جج کو آئینی
وقانونی طریقوں سے حد کے اندر رکھنا ضروری ہے کیونکہ کسی کی ذات یا عہدے
میں قوت کا ارتکاز ہو جائے تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘‘
عذرا نواز‘ فاروق نواز‘ محمود نواز‘ عامر نواز‘ انجم نواز‘ ناصر نواز اور
راحیل نواز کے شفیق باپ میاں اﷲ نواز فلاحی کاموں کے لیے اپنے والد گرامی
کے نام پر ٹرسٹ رجسٹرڈ کرانے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کے نزیک قرآن پاک
انسانی جبلتوں کے توازن کا عمدہ ترین نقشہ پیش کرتا ہے۔ یہی ان کی پسندیدہ
کتاب بھی ہے۔ جسٹس میاں اﷲ نواز سے گفتگو آخری مراحل میں تھی کہ ایک سادہ
سی خاتون کمرے میں آئیں اور سلام کر کے خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ میاں
اﷲ نواز نے بتایا کہ یہ ان کی شریک حیات اور ماموں زاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا
امیر بیگم بالکل بھی پڑھی لکھی نہیں لیکن جس سلیقے اور خلوص سے انہوں نے
زندگی بھر میرا ساتھ دیا۔ بچوں کی عمدہ طریقے سے تربیت کی‘ وہ روشن مثال
ہے۔ یہ خودہر روز تہجد کے وقت اٹھتی ہیں۔ نماز اور قرآن پاک پڑھ کر مجھے
جگاتی ہیں۔ اپنے ہاتھ سے ناشتہ بنا کر مجھے دیتیں اور دفتر روانگی کے لیے
میرا سارا سامان نہ صرف تیار کرتی ہیں بلکہ اسے گاڑی میں رکھنے بھی خود ہی
جاتی ہیں۔ میں اس پر خلوص رفاقت پر جی جان سے اپنی شریک حیات کا معترف
ہوں‘‘۔
جسٹس میاں اﷲ نواز مزید کہتے ہیں کہ ہر ریاست میں بالعموم دو قوتیں ہوتی
ہیں۔ مرکز گریز ا ور مرکز کی حامی۔ اچھی ریاست ان دونوں کو ہم آہنگ کرتی
ہے۔ ارتکاز قوت کے بجائے پاکستان میں صوبوں کو اختیارات مل جاتے تو یہ
Blend ہو جاتا۔ اُس وقت نیوجرسی کی آبادی 40 ہزار اور نیویارک کی دو کروڑ
تھی۔ نیو جرسی نے کہا ہم امریکہ کے ساتھ ہیں مگر آپ ہمیں نہ توڑیں۔ ایسا ہی
کیا گیا۔ اس وقت امریکی قوم مختلف قومیتوں کا گلدستہ ہے۔ پاکستان میں
اشرافیہ کے ہاں ارتکاز قوت ہے اور وہ جاگیرداروں کی دوست ہے۔ جاگیرداراور
بیورو کریٹ‘ لاہور‘ کراچی کا ہو یا جنوبی پنجاب کا‘ اسے ڈر ہے صوبوں کی
تقسیم سے مقامی لوگ مقابلے پر آ جائیں گے۔ بہاولپور‘ ملتان‘ ہزارہ سمیت سب
علاقوں کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ انہیں طاقت کے زور سے نہیں۔
اختیارات دے کر اپنا ساتھی بنائیں۔ کعبۃ اﷲ میں میری ملاقات گورنر سٹیٹ
بینک بنگلہ دیش سے ہوئی تو انہوں نے روتے ہوئے کہا۔ ہم نے آپ سے اختیارات
مانگے‘ آپ نے آزادی دے دی۔
1954 کے بعد ہماری عدلیہ آزاد نہیں رہی۔اس کا کردار ایک ماتحت ادارے کاسا
ہو رہا۔عدلیہ آزاد ہوتی تو 1956 کا دستور ختم ہوتا نہ1958کا مارشل لا
لگتا۔مشرقی پاکستان بھی الگ نہ ہوتا۔جسٹس منیر لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے
پھر وہ چیف جسٹس بنے ۔انہیں غلام محمد نے فیڈرل کورٹ کا جج بنایا ا ور پھر
جتنے جج تھے فیڈرل کورٹ کے‘ ان کے اوپر لا کر چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ یہ ایک
سازشی ٹولہ تھا جس کی قیادت غلام محمد کر رہے تھے۔ اس میں چودھری محمد علی‘
مشتاق احمد گورمانی اور سکندر مرزا شامل تھے۔ جس معاشرے میں رعونت ہو‘ وہ
جانوروں کی مثال ہے۔ یہ نہ ہو تو چیف جسٹس تو رہے ایک طرف ،چپڑاسی بھی مزے
میں زندگی بسر کرے۔حیوانی جبلت آجائے تو انسان شیطان صفت ہو جاتا ہے۔ جسٹس
منیر کی مثال سامنے ہے۔ وہ بہاولپور میں شہنشاہ اکبر کی طرح شکار کھیلنے
جاتے۔ والد بتاتے ہیں کہ ان کے قافلے کے لیے دس من دودھ سرکاری طور پر مہیا
کیا جاتا۔ جسٹس منیر کے بعد ان کے ساتھیوں نے رہا سہا نقشہ بھی بگاڑ ڈالا۔ |