معاشرے میں طلاق کا اس قدر رجحان کیوں...؟

ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاق کی وجہ کہیں مرد کی انا تو کہیں عورت میں عدم برداشت ، کہیں بے صبری تو کہیں والدین کی اولاد پر اپنی مرضی کو مسلط کردینا ، اور کہیں لڑکی اور لڑکے کے آپس کے گھریلو معاملات و تعلقات کا بگاڑ اس پاکیزہ رشتے کو بے مول بنا رہا ہے۔۔ اور ان سب کے عوض نتیجہ یہی نکال لیا جاتا ہے کے طلاق ہی ایک واحد حل ہے۔

آج ہمارے اردگرد ایسی کہانیاں کثیر تعداد میں موجود ہیں جنہیں طلاق ہو گئی ہے اور وہ اپنے گھروں میں دوبارہ سے بیٹھی ہیں۔

ایسی صورت حال میں ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ جو طریقے اپنا رہے ہیں وہ مثبت نہیں ہیں بلکہ اس سے ایک منفی سوچ اور کردار جنم لے رہے ہیں جو مستقبل میں اپنی جڑیں مضبوط کر کے ایک ایسی شکل اختیار کر لیں گے کے جس سے بچنا مشکل اور نئی نسل کے لیے بہت سی غلط حرکات کرنا آسان ہو جائے گے۔

نکاح جیسے عظیم سنت پیارا رشتہ چند اعمال پر کیسے پامال ہورہا ہے اور طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے معاشرے میں کیوں جنم لے رہا ہے ؟

ایک اسلامی ریاست میں تو اسکا جڑنا اور ٹوٹنا اتنا معمولی نہیں ہونا چاہیے ، اس فعل سے نہ تو ایک عام اور معمولی سا گھر یا ٹھیلے والا محفوظ ہے نا تو کوئی اداکار یا کھلاڑی اور نا ہی ہمارے سیاستدان محفوظ ہیں۔۔

جب کے حدیث شریف کا مفہوم ہے
" اﷲ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا جو طلاق سے بڑھ کر اسے نہ پاسند ہو "

اور ایک اور حدیث میں آتا ہے کے " طلاق اگرچہ جائز ہے مگر جائز کاموں میں اﷲ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے تو وہ طلاق ہے "

پھر قرآن مجید میں سورہ بقرہ ,سورہ نساء , سورہ مائدہ اور سورہ طلاق میں ہر پہلو ہر صورت کی وضاحت بھی دے دی کے طلاق کی قسمیں بھی بتائی اور طریقہ بھی اور بہت زور دے کر قرآن میں بیاں کیا کے تین طلاق بیک وقت دینا عورت کے ساتھ ظلم اور سخت گناہ ہے۔

مگر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی پسند کی آیات ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور پھر طلاق جیسے نازک معاملے کا مزاق بناتے ہیں۔

بیشک اﷲ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں نہ بنے تو تو راہیں الگ کرلی جائیں اگرچہ طلاق آخری چار ہے مگر اس میں جلد بازی نہ کی جائے اور قرآن کے مطابق اسکے وقت اور عورت کے مخصوص ایام کا خاص خیال رکھا جائے ۔

جبکہ ایک اور حدیث میں اﷲ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ہیں کے لڑکے اور لڑکی کے گھر والے ایک جگہ جمع ہوں اور معاملات کو حل کرنے کی نیت سے بیٹھیں اور جب تک صلح نہ ہو جائے نہ اْٹھیں۔

اﷲ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں ،
" ایک چیز تمھیں پسند نہیں ہو مگر اﷲ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو "

قرآن کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ جیسے ممکن ہے "بیوی خوبصورت نہ ہو وہ اسی بات کو ہی بنیاد بنا لے یا بہت سی باتیں مرد کو اپنی بیوی کی ابتدائی دنوں میں اچھی نہ لگتی ہوں تو ایسی صورت میں مرد کو چاہیے کے وہ اپنا تعلق منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے بلکہ موقع دے پھر مرد خود دیکھ لے گا کے اسکی بیوی کی اگر چہ صورت اچھی نہیں مگر وہ بہت سی خوبیاں بہر حال رکھتی ہے"

ہم اکثر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ازدواجی زندگی بہت خوشگوار گزر رہی ہوتی ہے اور آپس میں محبت بھی حد درجہ ہوتی ہے مگر کسی وجہ سے جزبات بے کابو ہو جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے پھر اس عمل کے بعد لوگ رجوع کے غلط طریقے اپناتے ہیں جیسا کہ پاکستانی ڈرمے بھی ایک طویل وقت سے ان پہلوں کی عکاسی کر رہے ہیں گزرتے حال ہی میں ختم ہونے والے ڈرامہ "نبھا" میں دیکھایا گیا کہ کس طرح لڑکی کو مجبور کردیا گیا اور ماں کا آخری وقت تک جب کہ دوسرے شوہر سے نکاح برقرار رہا ماں کا منہ بنا ہی رہا۔۔

اس سے قبل ڈرامہ"فیصلہ" اسی صورت کی عکاسی کرتا ہے پھر رجوع کا جو طریقہ اس ڈرامے میں دیکھایا گیا کے والد نے کس درجہ اور آخری حد تک اپنی کوشش جاری رکھی بیٹی کے پہلے شوہر سے کاروباری تعلقات اور ملاقاتیں جاری رہیں مختلف کوشش وقتاً فوقتاً کرتے رہے یہاں تک کہ دوسری شادی خاصی پیلنیگ کے ساتھ بھنا جے سے کروادی حلالے کی نیت سے۔

یہ سب عوام کے لیے تو قابل قبول ہو سکتا ہے مگر اسلام میں اسکا تصور ہمیں کہیں نہیں ملتا کے حلالہ کی غرض اور اس نیت سے شادی کی جائے اور پھر دوسرے مرد سے طلاق لے کر پہلے شوہر سے نکاح کرلیا جائے اور پھر وجوہات بیان کی جاتیں ہیں کہ غصے میں دے دی , نشے میں دے دی تو بھئی طلاق تو کوئی ایسا عمل ہے بھی نہیں کے تحمل سے اطمینان سے یا تسلی سے بیٹھ کے کیا جائے یقیناً حالت سازگار ہونگے معاملات تلخ ہونگے یا کوئی رنجیش ہوگی تبھی یہ فعل بند کر گزرے گا یہ اسکا ارادا کیا جائے گا برہال طلاق کسی بھی طریقے سے دی جائے طلاق واقعہ ہو جائے گی۔۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کے اکثر ماؤں کا بھی بیٹوں پر دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ازدواجی تعلق نبھا نہیں کر رہا ہوتا یا مشترکہ خاندانی نظام اور اسکی ذمہ داریاں یا اسکے مسائل مرد اور عورت کے تعلق میں بگاڑ کی وجہ بنتا ہے یا شادی میں بگاڑ کی وجہ اکثر ہم لڑکے اور لڑکی کی عمر ، تعلیم اور مزاج کا معقول ہونا نہیں دیکھتے ، گھر اور کاروبار کے اعتبار سے بھی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔

حال ہی میں میری ایک عدد دوست نے میسج کیا بتاتی ہیں ہیں کہ میں پھر گھر آگئی ہوں میں حیرت کی جگہ یہ سوال کیا کہ اب کیا ہوگیا کہنے لگی برداشت کی حد ختم ، میں نے کہا ابھی پچھلی بار بڑے حوصلے سے گئیں تھی پھر یوں اچانک ؟ کہنے لگی برادری نے بیٹھ کر فصیلہ کرادیا ہے میں نے کہا خیر تو ہے کیسا فیصلہ کہنے لگی طلاق ہوگئی ہے میں نے اِنَّا لِلہ پڑھا اور صبر کی تلقین کردی۔

رابعہ کی شادی کو پانچ سال ہوئے تھے انیس برس کی عمر میں چالیس سالہ کزن سے شادی کردی گء تھی جس سے رابعہ کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے، کمائی شکل و صورت اچھی تھی مگر نشے اور شک کے کیڑے نے رابعہ کی زندگی برباد کردی جسکا آئے دن نشے کی حالت میں رابعہ پر ہاتھ اٹھانا گالیاں دینا ایک کمزور سی لڑکی رابعہ کے لیے نہایت ہی تکلف کا باعث ثابت ہوئی۔

اس سے قبل پڑوس میں پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کی شادی غیر برادری میں ہوئی جس میں لڑکا اپنا زہن استعمال کرنے سے قاصر ہے ماں اور بہنوں کی حدود بندیوں نے لڑکی کی زندگی اجیرین کر رکھی ہے۔
سائمہ بھابھی آج کل پھر میکے بیٹھی ہوئی ہیں فون پہ مجھ سے رابطہ کر کے بتاتی ہیں کہ میں پورے طریقے سے اپنی فیملی کے رحم و کرم پہ چل رہی ہوں شادی کو سال سے کچھ عرصہ زیادہ ہوا یہ لوگوں سے ملنا ملانے بھی نہیں رکھتے مجھے پہ بھی سخت پابندیاں ہیں اپنے گھر جانا ہو تو یہ ذمہ داری بھی بھائی کی ہے کہ وہ لے کر آئے اور چھوڑ جائے وہ بھی باہر تک پھر ہر پندرہ سے بیس دن بعد امی کے گھر رہنے کے لیے مجبور ہوجاتی ہوں کیوں کہ کھانا اور فروٹ تک کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا جب تک دوپہر کے تین سے چار اور رات کے بارہ نہ بج جائیں ، یا میرے گھر والے انہیں میرے خیال کا یاد نہ دلائیں(وہ بھی جس دن بات ہوجائے اسکے بعد پھر بے خبر) پھر پوتے کی خواہش ہے جب کے اس صورتحال میں صحت بالکل خراب ہوگئی ہے پہلی بار جب کنسوی کیا تو خوشی کا اظہار نظر آیا مگر پھر دو ماہ بعد خیال نہ رکھنے اور زہنی اذیت کی وجہ سے ابورشن (اسقاط حمل ) کروانہ پڑا تب سے میاں جی ، نندوں اور امی کو دوسری شادی کی خواہش ہوگئی ہے جبکہ میں پھر امید سے ہوں اور ڈاکٹر صاحبہ نے بیٹے کی نوید دی ہے ، ایسے میں بھی خوش نہیں اور جب دوسری شادی کا جواز ختم ہوگیا تو اب طرح طرح کے الزام لگا کر گھر بیٹھنے کا حکم سادر کردیا کہ جب تک میری اور میری فیملی کی عزت کرنا نہ سیکھ لو مت آنا۔۔ مجھے تمھاری جیسی بیوی کی ضرورت نہیں یہ طعنہ سن نے کو ملتا ہے ۔

یہ نازک رشتہ پھر سب سے بڑی بات یہی لگتی ہے کہ نکاح کا بندھن تو بہت ہی احترام برداشت توجہ ہر معاملے میں مشاورت ہم آہنگی مانگتا ہے جبکہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مرد اور عورت کی Activities اور ترجیحات بدل سی گئی ہیں جس وجہ سے رشتے برقرار نہیں رہ پا رہے

سونے پر سہاگا ہمارے میڈیا پر نشر کیے جانے والے ڈرمے اکثر کا اور فل وقت جو ڈرامے جاری ہیں انکا موضوع طلاق اور حلالہ ہی ہیں۔۔

اس طرح ہمارا میڈیا بھی ان نازک باتوں کو موضوع بنا کر ایک غلط انداز سے پیش کر رہے ہیں ٹی وی پر نشر کیے جانے کی وجہ یہ بتا دی جاتی ہے کے یہ سب ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے اور دیکھنے والے یہ کہہ دیتے ہیں کے اب تو ٹی وی پر بھی یہ دیکھایا جارہا ہے۔۔

اﷲ کے احکامات کو اپنی زات کی انا اور فائدے کے لیے پامال نہ کریں اﷲ کی حدیں نہ توڑیں اور نکاح کے پاکیزہ رشتے کو تین لفظوں کے درمیان کا کھیل نہ بنائے طلاق اگر چہ جائز ہے مگر نا گوار ہے۔۔

ایک اور حدیث میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
"نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اﷲ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح ہر پھول کا مزا چکھتے پھریں

تو یہ تھیں کچھ وجوہات اس معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی۔

دعا اﷲ سبحانہ وتعالی اس معاشرے میں سے اس لفظ طلاق کو نکال دے اور لفظ نکاح کے ساتھ محبت و الفت کو کوٹ کوٹ کے بھر دے۔

Hamna Umar
About the Author: Hamna Umar Read More Articles by Hamna Umar: 17 Articles with 24863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.