تحریر:صبغہ احمد، لیہ
ڈوبتے چڑھتے سورج کی کیفیات کو محسوسات میں لائے بغیر مزدور پیشہ افراد
اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ان کے لیے موسموں کا تغیر و تبدل کوئی معنی
نہیں رکھتا۔ وہ دلی احساسات کو رد کیے محوِ روزگار ہیں۔ یہی ایک دھن ہے جو
ان کے اعصاب کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی چلی جاتی ہے۔ ان کے لیے زندگی بس
اتنی سی ہی ہے۔ وہ دو وقت کی روٹی کو اپنا مقدر جانتے ہوئے بنا چوں چراں
کیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ غالباً انہوں نے زندگی میں خواہشات پالنا سیکھا
ہی نہیں، یا پھر وہ اس کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے۔ تاہم چند ایک ایسے بھی
ہیں جو خواہشات کو نگاہ کا مرکز بنائے چپکے چپکے ذہن کے پردے پر لاتے ہیں،
پھر یک دم اس خیال کو جھٹک دیتے ہیں۔
یقیناً اپنی کم مائیگی کا احساس ان کے دلوں میں کوند جاتا ہوگا پھر وہ اس
خیال کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ ان خواہشات کو حاصل نہیں
کر سکتے بلکہ اس لیے کہ ان گراں قدر خوابوں کا بوجھ اپنی پلکوں پر سجا کر
وہ اپنی راتیں تنگ نہیں کرنا چاہتے۔ سو وہ ٹوٹتے بکھرتے خوابوں کی کرچیاں
زمین بوس کر دیتے ہیں اور پھر ایک نئی صبح اپنی سفیدی بکھیرتی ہے۔ سورج
اپنی کرنوں کی دھاک بٹھائے ہر سو اجالے کا باعث بن جاتا ہے اور زمین پر
جیتے جاگتے انسان پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے پھر سے حاصل و لاحاصل کی ایک نئی
راہ پر چل نکلتے ہیں۔
|