چھوٹا سا سرکاری پرائمری سکول تھا۔ فقط دو کمرے اور
ان کے آگے ایک برآمدہ۔ دونوں کمروں میں دو دو کلاسیں اور سب سے بڑی پانچویں
کلاس برآمدے میں۔ برآمدے میں ہی ایک میز اور ساتھ ایک الماری پڑی تھی۔یہ
ہیڈ مسٹرس کا دفتر تھا۔ میز کے سامنے کلاس بیٹھتی تھی اور دائیں طرف دو
کرسیاں تھیں کہ آنے والے والدین اور مہمانوں کو بٹھایا جا سکے اور بطور ہیڈ
مسٹرس ان سے بات چیت کی جائے۔کوئی آ جاتا تو کلاس کا وقتی طور پر وقفہ شروع
ہو جاتا۔ آنے والا جب رخصت ہو جاتا تو کلاس شروع ہو جاتی۔مجھے کسی سروے کے
لئے ہیڈ مسٹرس سے ملنا تھا۔ پورے ایک ماہ تک میں ہر دوسرے تیسرے روز ملاقات
کی خواہش لئے اس سکول میں پہنچ جاتا۔ مگر پتہ چلتا کہ آج انہوں نے نہیں آنا
،یا آئی تھیں اور کسی میٹنگ میں چلی گئی ہیں۔ میں جب بھی سکول پہنچتا ،
بچیاں مزے سے کھیل رہی ہوتیں۔ مجھے دیکھ کر نعرہ لگتا، جلدی سے کلاس میں
چلو۔منٹوں میں بچیاں بھاگ کر کلاس میں اپنی اپنی جگہ بیٹھی ہوتیں۔کلاس ورک
شروع ہو جاتا۔ ہر کلاس کے سامنے ایک ٹیچر نما لڑکی ،جو اصل میں کلاس
مانیٹرہوتی، براجماں ہو جاتی جو کلاس کو بخوبی کنڑول کر رہی ہوتی۔ میں دیر
تک کھڑا اس سارے ماحول سے لطف اندوز ہوتا رہتا۔
ہیڈ مسٹرس کی میز کے آگے جو ٹیچر نما لڑکی کرسی سجائے بیٹھی تھی، میں نے اس
سے تفصیلی بات چیت کی تو پتہ چلا کہ عملی طور پر اس وقت وہ اس سکول کی
ایکٹنگ ہیڈ مسٹرس ہے۔ویسے وہ پانچویں کلاس کی مانیٹر ہے۔ پچھلے دو ڈھائی
سال سے اس سکول میں صرف ایک ہی باقاعدہ ٹیچر ہے جو اس سکول کی سب کچھ ہے۔
بہت سے سرکاری کاموں اور سرکاری میٹنگز میں شرکت کے لئے ہفتے میں چار پانچ
دن اسے باہر گزارنے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہیڈ مسٹرس کی غیر موجودگی میں کسی
باہر سے آنے والے سے بات چیت کرنا اور اسے مطلوبہ معلومات فراہم کرنا اس
بچی کی ذمہ داری ہے۔ وہ باقی چاروں کلاسز کی مانیٹرز کو بھی کنٹرول کرتی
اور حسب ضرورت انہیں ہدایات بھی دیتی ہے۔ وہ محسوس کرتی کہ کسی کلاس کو اس
کی مانیٹر صحیح کنٹرول نہیں کر رہی تو اپنی کلاس کی کسی لڑکی کو وقتی طور
پرٹیچر بنا کربھیج دیتی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ چھوٹی سی بچی پورے سکول کو
بڑے احسن طریقے سے چلا رہی تھی جب کہ سرکاری طور پر تعینات اس سکول کی
اکلوتی ٹیچر روز کسی میٹنگ کی نذر ہو رہی تھی۔
آخر میری خوش قسمتی کہ ایک دن اصلی ہیڈ مسٹرس سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے
سکول کی صورتحال پر تفصیلی بات کی تو وہ رونے لگیں۔ کہنے لگیں کیا کروں ،
میں پرائمری سکول کی ٹیچر۔ معمولی تنخواہ ،اس پر روز میٹنگ۔ میرا گھر یہاں
سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ ہفتے میں تین چار دن صبح بھاگم بھاگ یہاں
آتی ہوں۔ بچیوں کو سمجھا کر میٹنگ پر چلی جاتی ہوں۔ میٹنگ جلدی ختم ہو تو
دوبارہ واپس آتی ہوں اور بس تھوڑی دیر سکول کی شکل دیکھ کر واپس چلی جاتی
ہوں۔ میری آدھی تنخواہ کرایوں میں خرچ ہو رہی ہے اور آدھی عمر سفر میں ۔
بڑی منتیں کی ہیں کہ کوئی ہیڈ مسٹرس بھیج دیں ۔ میری تو جان چھوٹے۔ کوئی
سنتا ہی نہیں۔بمشکل ایک یا دو دن ،میں سکول میں پڑھا سکتی ہوں۔ اس سکول میں
رہتے ہوئے تومجھ پر کوئی مصیبت بھی آ جائے تو بھی چھٹی نہیں لے سکتی۔
اس خوبصورت میٹنگ کلچر سے مجھے ایک دفعہ پالا پڑا۔اس دن مجھے اس کی اصلیت
سے پوری طرح واقفیت ہوئی۔کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے میں محکمہ تعلیم کے
ایک افسر کے پاس پہنچا تو موصوف دفتر سے نکل رہے تھے۔ مجھے انہوں نے گاڑی
میں بیٹھا لیا کہ ساری بات راستے میں کر لیں گے۔ اصل میں سیکرٹری ایجوکیشن
نے گرلز ہائی سکولوں کی تمام ہیڈ مسٹرس کو صبح نو بجے میٹنگ پر بلایا تھا۔
مگر چیف منسٹر کا میٹنگ کا بلاوہ آنے پر وہ وہاں چلے گئے۔ ساڑھے گیارہ بجے
انہیں خیال آیا کہ کچھ کیڑے مکوڑے صبح نو بجے سے ان کے انتظار میں ہیں۔
انہوں نے موصوف کو ہدایت کی میری جگہ تم چلے جاؤ اور ان لوگوں کی مشکلات سن
کر ایک رپورٹ بنا کر مجھے بھیج دو۔میو ہسپتال کے ساتھ ایک سکول کے ہال میں
ہم پہنچے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔موصوف کو دیکھ کر لوگ خوش ہوئے کہ اب
جان جلدی چھوٹ جائے گی۔ مو صوف نے سٹیج پر پہنچتے ہی کہا کہ جلدی جلدی اپنے
مسائل بتائیں۔ ایک ہیڈ مسٹرس نے اپنا مسئلہ بیان کیا تو ناراض ہو گئے کہ تم
کو جہاں بھی لگاتے ہیں تم مسئلے بنانا شروع کر دیتی ہو۔ آئندہ ایسی فضول
باتیں کیں تو کسی دوسرے شہر بھیج دوں گا۔وہ بیچاری سہم کر بیٹھ گئی۔دوسری
ہیڈ مسٹرس شروع ہوئی تو اسے سن کر کہنے لگے کہ تم ہمیشہ سے پاگل ہو۔ تمہارے
مسائل کا حکومت کے پاس کوئی حل نہیں ۔ بس بیٹھ جاؤ۔ ایک تیسری خاتون اٹھی،
صورت حال دیکھ کر اس نے کچھ تعریفی کلمات کہے اور ایک آدھ مشکل بیان کی۔
مسکرا کر بولے خوبصورت سوال ہے۔ جواب دینے کی بجائے کھڑے ہو کر گویا ہوئے
کسی اور کو تو کچھ نہیں کہنا۔ کوئی بولتا تو کیسے۔ حکم ہوا آپ جا سکتے ہیں۔
ایک ماتحت کو کہا کہ رپورٹ بنا لو ، پہلی جو رپورٹس بھیجی ہیں وہ بھی دیکھ
لینا۔ دو تین دن میں سیکرٹری صاحب کو بھیج دیں گے۔میں سمجھ گیاکہ کوئی نئی
بات نہیں ہو گی ۔ بس پرانی رپورٹ لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ دوبارہ بھجوا
دی جائے گی۔میرے بس میں کچھ نہیں تھا ،ورنہ موصوف نے جس انداز میں خواتین
اساتذہ کی بھری بزم میں داد رسی کی تھی ،میں موصوف کو الٹا لٹکا دیتا۔
میاں شہباز شریف کے دور میں جس چیز کو بے پناہ فروغ حاصل ہوا وہ یہی اور
ایسا ہی میٹنگ کلچر ہے۔آپ کسی محکمے اور کسی دفتر میں چلے جائیں اور کسی
وقت چلے جائیں کوئی ذمہ دار کبھی نہیں ملتا تھا اور یہی پتہ چلتا تھا کہ وہ
میٹنگ میں ہے ۔خلق خدا پر کیا بیت رہی ہے کسی کو احساس ہی نہیں تھا۔جب کہ
کسی میٹنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ فقط کاغذی کاروائی تھی ، کاغذوں کے
پلندے بلند سے بلند تر ہوتے جاتے تھے اورجناب چیف منسٹر انہیں دیکھ کر اپنی
طرف سے ترقی کے خیالی سمندر میں غوطہ زن رہتے تھے۔ مہذب ملکوں میں عملی
اقدامات زیادہ ہوتے ہیں اور کاغذی کاروائی بہت کم۔ ان ملکوں میں ایسے لوگ
جن کا کام عام لوگوں سے ڈیل کرنا ہوتا ہے ، اپنی جگہ کسی صورت نہیں چھوڑ
سکتے۔ان کے سینئر ان کے مددگار ہوتے اور بار بار ان تک پہنچتے ہیں۔ لیکن ان
کا اپنی جگہ سے کہیں جانا گناہ کے مترادف ہوتا ہے۔مگر کیا کہا جائے ہمارے
حکمرانوں اور ان سے وابستہ سیاستدانوں کو اس بات کا احساس اور ادراک بالکل
نہیں تھا۔ میٹنگ کلچر نے ہماری کام کرنے کی استعداد تباہ کرکے رکھ دی ہے،
امید ہے نئے آنے والے اس کلچر کا خاتمہ اور خلق خدا کی بہتری کے موثر
اقدامات کریں گے۔ میرے خیال میں ہر جگہ اور ہر سطح پر احتساب کا کڑا نظام
اور خلق خدا کی فلاحکا احساس موجودہ صورت حال میں بہتری لاسکتا ورنہ ادارے
اپنی ذاتی نمود کے لئے جس طرح تباہ کئے گئے ہیں، انہیں سنورنے میں دہائیاں
لگیں گی۔ |