معذوری کی مختلف قسمیں اور کیفیات ہیں کچھ ظاہر اور کچھ
غیر واضح سی ہیں۔معذوری پیدائشی طور پر بھی ہو سکتی ہے، حادثے کی صورت میں
بھی ۔کچھ وقت کے ساتھ ساتھ بھی پیداہو سکتی ہیں جو کہ جسمانی و دماغی اسباب
کی بنا پر معرض وجود میں آتی ہے۔ایسے افراد جو پیدایشی یا حادثاتی طورپرکسی
بھی جسمانی یا ذہنی عارضہ کمزوری میں مبتلا ہوں ان کے لئے ایک اصطلاح خاص
لوگ(Special Persons)استعمال بھی استعمال کی جاتی ہے۔چاہے والدین ہوں یا
کوئی ادارہ ہرلحاظ سے انکی بہترین تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ وہ
اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں اورعملی زندگی میں کسی کے محتاج نہ
ہوں۔ دوسروں کے مقابلے میں کسی طور اپنے آپ کوکم تر نہ سمجھیں۔اس سلسلے میں
مختلف تعلیمی ادارے جو اسی مقصد کیلئے قائم کئے جاتے ہیں ایسے افراد کوہنر
مند اور تعلیم یافتہ بناتے ہیں اور زندگی کی شاہراہ پر حوصلہ کے ساتھ جینا
سکھاتے ہیں۔ایسے افراد کسی عارضہ کی بناپر عام افراد سے کم اہمیت کے حامل
تو قرار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے کسی جسمانی کمزوری/معذوری
کے عوض انہیں کوئی اور بہترین صلاحیت عطا ء کر دی ہوتی ہے۔جس کی بنا ء پر
وہ عام صحت مند فرد کے برابر قدر ومنزلت کے حقدار ہوتے ہیں ۔اسی بناء پر یہ
کہا جا سکتا ہے کہ جسم تو کسی لحاظ سے معذور ہو سکتا ہے مگر کسی بھی فرد
میں موجود صلاحیتیں کبھی معذور نہیں ہوتی ہیں۔
ؓبدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے افرادجوجسمانی لحاظ سے کسی معذور ی کا شکار
ہوتے ہیں کو ــ’’خاص لوگ‘‘ تو قرار دیتے ہیں مگر ان سے ملنا جلنا اور قربت
کے خواہشمند نہیں ہوتے ہیں اورنہ ہی انکو پیار وخلوص دینے کے روا دارہوتے
ہیں ۔حالانکہ وہ بھی ہمارے طرح انسان ہی ہوتے ہیں اس کے باوجودبھی
انکوحقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مگر بعض اوقات ہمارے بیمار ذہن زدہ لوگ
انکو ’’خاص لوگ‘‘ یا ’’ معذورانسان‘‘کہہ کر اپنے قول و فعل سے احساس کمتری
کا شکارکرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اخلاقی طور پر درست طرز عمل نہیں کہا
جاسکتا ہے مگر پھر بھی ایسے بہت سے باشعور افراد ہیں جو کہ اس عمل کو جاری
رکھے ہوئے ہیں۔کیا معذورافراد کو دنیا میں جینے کا حق حاصل نہیں ہے حالانکہ
کسی بھی لحاظ سے معذور افراد نے بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں جن
کو ’’خاص لوگ‘‘ یا ’’ معذورانسان‘‘ کہا جاتاہے ۔ہمارے نابینا کرکٹ کے
کھلاڑیوں کی کرکٹ کے میدان میں جیت اس کی واضح مثال ہے جنہوں نے آنکھوں
والوں کے مقابلے میں اپنی صلاحیتوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی طور
آنکھوں والوں سے کم تر نہیں ہیں۔لہذا اس بات کو قطعی طور پریہ تسلیم نہیں
کیا جا سکتا ہے کہ معذوری کسی بھی شخص کو کامیاب زندگی گزارنے سے روکتی
ہے۔دوسری طرف یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ معذوری جیسی کوئی بھی شے کسی بھی
فرد کی صلاحیتوں کو منوانے سے نہیں روک سکتی ہے۔معذوری سے انسان میں موجود
صلاحیتیں معذور نہیں ہواکرتی ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ معذوری
صلاحیتوں کو مزید جلا بخش دیتی ہے۔
بقول علامہ محمد اقبال
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برُ انہیں قدرت کے کارخانے میں
کچھ ایسا ہی فارس مغل نے کر کے دکھا یاہے ، ایک اچھی خاصی عمدہ زندگی
گذارنے والے شخص کو مسلز ڈس آرڈر کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ی ہوئی ،تو
وہیل چیئر کا ہی ہو کر رہ گیا۔پاکستان جیسے ملک میں جب کسی کے ساتھ ایسا ہو
جائے تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنی بہت سی خواہشات کو پورا کرنے سے قاصر ہو
جائے گا ۔مگر فارس مغل نے ایسا نہیں ہونے دیا اور اس نے معذوری کے بعد جب
دو سال تک گھر میں عرصہ گذارا تو اس نے قلم کو تھام لیا ۔اس دوران اس نے
تین تخلیقات تصنیف کیں۔دو شاعری کی کتب ’’ہجر کا پہلا چاند‘‘ اوروفا ایسی
کہاں ‘‘ جبکہ ایک ناول ’’ہم جان‘‘کو منظر عام پر لائے۔یہاں یہ بات پھر سے
ثابت ہوتی ہے کہ ’’ معذوری جیسے کوئی بھی شے کسی بھی فرد کی صلاحیتوں کو
منوانے سے نہیں روک سکتی ہے نہ ہی وہ معذور ہو جاتی ہیں۔‘‘پاکستان جیسے
ترقی یافتہ ملک میں جہاں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور ایسے افراد جو
کسی بھی جسمانی معذوری کا شکار ہیں یا کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں ، وہ
اپنی دیگر صلاحیتوں کو آزمانے کی بجائے ’’گداگری‘‘ کی جانب راغب ہو جاتے
ہیں،اگرچہ ایسے معذور افراد کی شرح کم ہے مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو فارس
مغل جیسے ہونہار سپوت بھی ہیں جو کہ اس دھرتی کا نام روشن کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور مثال بھی پیش خدمت ہے جو کہ اس بات کو مزید تقویت بخش
دے گا کہ معذوری کبھی کسی انسان کی صلاحیت کو زنگ نہیں لگاتی ہے نہ ہی وہ
معذور ہو جاتی ہیں۔سیربرل پالسی نامی بیماری کا شکار’’ ویسلے ‘‘کا مرض جوں
جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا کی مصداق زیادہ ہوگیا۔اور نوبت یہاں تک آن پہنچی
کہ وہ اپنے جسم کے زیادہ حصوں پر قابو نہیں رکھ سکتا ،وہیل چیئر پر ہے۔لیکن
اس کے پاؤں پر اس کا مکمل اختیار تھا۔ لہذا اس نے پانچ سال تک ٹائپ کر کے
اپنی آب بیتی تحریر کرکے شائع کر ا دی ۔جس کا نام ’’ مسائل کے برخلاف ،خوشی
کی تلا ش ‘‘ ہے۔زندگی بھر مختلف طرح کی اذیتوں کا شکار’’ ویسلے‘‘ بُرے
حالات میں بھی ہمت نہیں ہارا،جس کو والدہ نے یہاں تک ایک کہہ دیاتھا کہ
’’مر ہی جاؤ توبہتر ہے‘‘ اس حدتک سننے والے شخص کی جانب سے اس نوعیت کا کام
معمولی نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ بات بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ جب کوئی
انسان کسی بھی کمزوری کا شکار ہوتا ہے اور وہ اپنے حوصلے کو بلند رکھتا ہے
تو پھر وہ دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر
سکتا ہے حالات یا معذوری اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے نہ ہی وہ معذور
ہو جاتی ہیں۔
دوسری طرف نامور کرکٹر شعیب اختر کو بھی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا کہ
انکے پاؤں اس قدر مضبوط نہیں ہے کہ وہ کرکٹ کے میدانوں میں اُتر کر اس کھیل
میں کامیاب ہو سکیں۔مگر شعیب اختر نے اپنی اس معذوری کو کمزوری نہیں بننے
دیا اور اپنی انتھک محنت و ولولے سے کئی برسوں تک کرکٹ کے میدانوں میں نہ
صرف اپنی قابلیت منوائی ہے بلکہ ایک وقت میں دنیا کے تیز رفتار بولر کا
اعزاز بھی اپنے نام کر والیا تھا۔اب ذرا سوچیں اگر وہ لوگوں کی باتوں میں
آکر اپنی معذوری کو کمزوری بنا لیتے تو پھر کسی طور وہ اپنی صلاحیتوں کو
منوانے کے قابل نہیں ہو سکتے تھے، دوسری طرف یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ
معذوری کبھی بھی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوتی ہے نہ ہی وہ معذور ہو
جاتی ہیں۔کامیابی کے حصول کے لئے محنت،جذبہ اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ،جن
کے پاس یہ موجود ہوں وہ کامیابی کو ضرور گلے لگا لیتے ہیں۔معذوری نہ ہی
صلاحیتوں کو محدود کرتی ہے یہ بات تو گذشتہ کچھ مثالوں سے بخوبی ظاہر ہو
چکی ہے،معذوری اگر صلاحیتوں کو محدود کرسکتی ہوتی تو آج بے شمار معذروں کے
خواب خواب ہی رہتے۔
کسی بھی طرح کے حالات و واقعات اور حادثاہ انسان کی صلاحیتوں کو منوانے سے
نہیں روک سکتا ہے، یہ انسان ہی ہے جو اپنی سوچ کے زاویے کو محدود رکھ کر
اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگا سکتا ہے۔پاکستان افواج کے کئی نوجوان ایسے ہیں جو
کہ بہت دفعہ وطن کے دفاع کرتے ہوئے اپنے جسم کے کسی ایک حصہ سے محروم ہوئے
مگر انہوں نے اس کو مشیت ایزی سمجھتے ہوئے اپنی ذات کو پھر بھی کسی نہ کسی
طرح سے آج بھی کوئی نہ کوئی سرگرمی سرانجام دینے میں مصروف رکھا ہوا ہے۔جو
اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ معذوری ایک حد تک محدود کر دینے والی شے ہے
مگر یہ صلاحیتوں کو مزید اُجاگر کرنے اور اپنے آپ کو منوانے کے لئے بھی
بسااوقات ترغیب دلواتی ہے جس کی بناپر کئی افراد کار ہائے نمایاں سرانجام
دیتے ہیں۔مصنوعی ہاتھوں اور ٹانگوں کے ذریعے بھی بے شمار افراد اپنے خوابوں
کی تعبیر حاصل کر رہے ہیں اور کچھ کر بھی چکے ہیں۔انہوں نے معذوری کے
باوجودیہ محسوس نہیں ہونے دیا ہے کہ انکی صلاحیتیں کم ہیں بلکہ وہ عام صحت
مند شخص کے مقابلے اُن جتنی ہی کار کردگی کا مظاہر ہ کر کے دکھا رہے ہیں۔
دنیا میں ایسے بہت سے سائنس دان، کھلاڑی اورادیب ہیں جنہوں نے اپنی
صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔انہوں نے زندگی کے سرد و گرم حالات دیکھے ،مگر
پھر بھی اپنی کوششوں کو جاری رکھا اور ایک دن اپنی منزل تک رسائی حاصل
کرلی۔اس میں اسٹیفن ہاکنگ کا نام سہر فہرست ہے جن کا انتقال اسی سال2018میں
ہوا ہے ، انہوں نے سائنس کی دنیا میں ایک نئی راہ کی جانب تحقیقات کی جو کہ
آئندہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ بنی رہیں گی۔پاکستان میں ہی ایک سول جج
سلیم یوسف نابینا ہیں ،جن کو پہلے محض بنا پر تقرری سے محروم بھی رکھا جا
رہا تھا مگر بعدازں انکی صلاحیتوں کے مطابق ان کو اس عہدے کے لئے منتخب کر
لیا گیا ۔سلیم یوسف پہلے ایک پنجاب گورنمنٹ کے ادارے میں بطور اسسٹنٹ
ڈائریکٹر لیگل کے طور پر بھی خدمت سرانجام دے رہے تھے۔وہ اُن 21افراد شامل
تھے جو تحریری امتحان میں پاس ہوئے تھے، ان سمیت لگ بھگ 300افراد نے وہ
امتحان دیا تھا۔مزید براں انکی بہن صائمہ سلیم وہ پہلی نابینا فرد ہیں
جنہوں نے سول سروس کے 2007 کے امتحان میں پاس ہوئی ۔یہ مثالیں بخوبی ظاہر
کر رہی ہیں کہ معذوری کسی بھی طور آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے اورنہ
ہی وہ صلاحیتوں کومعذوری کی جانب لے کر جاتی ہیں۔ آپ اپنے خوابوں کو بلند
حوصلے کی بدولت پورا کر سکتے ہیں۔ معذوری کے باوجود معذور افراد پورے دنیا
میں ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں، ایسے افراد جو بہت سی صلاحیتوں کے
مالک ہیں اور دیگر ہونہار افراد کی مانند قابل بھی ہیں ، کچھ مثالیں تو آپ
کے سامنے رکھی گئی ہیں کہ کیسے وہ اپنے اپنے میدان میں کامیابی حاصل کر
لیتے ہیں۔ہیلن کیلر کی مثال تو کچھ یو ں الگ تھلک سی ہے کہ وہ بہری اور
گونگی تھیں مگر اس نے بھی اپنی تحریروں سے دنیا بھر کے لوگوں سے داد وصول
کی تھی۔اس نے یہ بات بخوبی ثابت کر دی ہے کہ اگر آپ روشنی کی جانب بڑھنا
چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اندھیرے سے خوف زندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے،آپ کو
آگے سے آگے تاریکی میں بڑھنا چاہیے ،تب ہی آپ کسی دن روشنی کو حاصل کر سکتے
ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق خود کومنوایا جائے اورمعذوری
کو سر پر سوار نہ کیا جائے کہ اس کے ہونے کی وجہ سے ہم کسی قابل نہیں ہیں۔
’’ معذورانسان‘‘ کہلوانے والے کسی بھی طور حوصلے ہارنے والے نہیں ہوتے ہیں
،وہ اپنی زندگی میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ
’’معذوری جیسے کوئی بھی شے کسی بھی فرد کی صلاحیتوں کو منوانے سے نہیں روک
سکتی ہے اورنہ ہی معذوری صلاحیتوں میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ ‘‘میرے نزدیک
معذوری وہ ہے جب آپ اپنے خواب دیکھ لیں مگر اس کے حصول کے لئے کسی جہدوجہد
سے گریز کریں ،وقت کی کمی، نصیب اور قسمت پر ،حالات کو قصور وارٹھہرا دیں
کہ اس کی وجہ سے آپ کچھ نہیں کر پائے ہیں۔معذوری یہ نہیں ہے کہ آپ جسمانی
طور پر ہی معذور ہوں،اگر آپ کی سوچ مثبت نہیں ہے اور منفی قول و فعل کے
حامل ہیں تو پھرآپ معذور کہلانے کے قابل ہیں کیونکہ جو کسی بھی طور معذوری
کا شکار افراد ہیں وہ اگر مثبت طر ز فکر سے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے
کی خواہش رکھتے ہیں اور آپ صحت مند ہو کر بھی ایسا نہیں کر سکتے ہیں تو آپ
ازخود معذور ہیں۔آپ نے اگر بغور مشاہدہ کیا ہو تو جسمانی طور پر معذور شخص
اگر بھکاری ہے تو اُس میں اس قدر صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے کہ وہ عمدہ
اداکاری سے جسمانی طور پر صحت مند شخص کے دل کو رنجیدہ کر کے کچھ نہ کچھ
رقم اپنے گذر بسر کے لئے حاصل کر سکے،یہی بات ایک دفعہ پھر سے ثابت ہو جاتی
ہے کہ جسم معذور ہو سکتے ہیں مگر صلاحیتیں معذور نہیں ہو سکتی ہیں۔ |