اگر آپ کو100لوگوں کی رہائش ، خوراک اوردیگر ضروریات کا
بندوبست کرنا ہو تو آپ یہ انتظام احسن طریقے سے کر پائیں گے کیونکہ آپ
جانتے ہیں کہ آپ کو 100لوگوں کیلئے انتظامات کرنے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس
یہ بنیادی معلومات نہ ہو کہ آپ کو کتنے لوگوں کیلئے بندوبست کرنا ہے تو پھر
آپ کیا کریں گے؟
پاکستان میں خودکشی سے ہونے والی اموات کا نہ کوئی ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور
نہ ہی اسکے اعدادوشمار اکھٹے کیئے جاتے ہیں ۔ فرض کریں حکومت ملک میں بڑھتے
ہوئے خود کشی کے رجحان کو روکنے کیلئے پالیسی بنانا چاہتی ہے تو وہ کیا
کرئے گی جبکہ اسکے پاس کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں کہ جس سے یہ پتہ چل سکے
کہ روزانہ، ماہانہ یا سالانہ کتنے لوگ خودکشی کر رہے ہیں ؟
حکومت معاشی اصطلاحات لانا چاہتی ہے لیکن کیا حکومت کے پاس معیشت سے متعلق
اپ ٹو ڈیٹ اعدادوشمار موجود ہیں ۔کیا حکومتی معاشی اصلاح کار اور پالیسی
سازیہ جانتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا حجم کتنا ہے؟پاکستان میں چھوٹی بڑی
کتنی صنعتیں کام کر رہی ہیں ، کتنے کارخانے چل رہے ہیں ؟
پچاس ہزار گھر بنانے کی بات ہو رہی ہے ۔لیکن کیا حکومت جانتی ہیں کہ
پاکستان کے کس علاقے میں کتنے لوگوں کے پاس گھر نہیں ہے؟
پاکستان میں سوائے چند ایک کے باقی کوئی بھی کاروبارشروع کر لیں ، نہ کسی
سے اجازت لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کہیں اس کاروبار کو رجسٹر کرانے کا
کوئی سوال اٹھتا ہے ۔ شہروں کے اندر ، گلی محلوں میں ، بازاروں میں ہزاروں
لاکھوں چھوٹے بڑے کارخانے، بڑی بڑی شاپس ہیں لیکن حکومت کے پاس ان سب کا
کوئی ریکارڈ اور اعدادو شمار موجود نہیں ۔اب اگر حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانا
چاہے ، تو کیسے بڑھائے گی جبکہ اسے ملک میں چلنے والے کاروبار کی تعداد کا
ہی علم نہیں ؟
ہر قسم کی پلاننگ اور پالیسی سازی میں اعدادوشمار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ،
اگر اعدادوشمار درست نہیں ہونگے تو اول تو پالیسی یا پلاننگ ہو نہیں سکتی
اور اگرکر بھی لی جائے تو وہ فرضی اعدادوشمار پر baseکرئے گی اور کبھی
مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گی۔
پہلی فرصت میں معیشت کی documentationکی طرف دھیان دیا جائے اور ملک میں
چلنے والے تمام قسم کے کاروبار سے متعلق ریکارڈ اور اعدادوشمار اکھٹے کیئے
جائیں ۔ موجودہ تمام کاروبار کو 6ماہ کے اندر اپنے آپ کو رجسٹر کرانے کا
حکم جاری کیا جائے اور آئیندہ کیلئے اگر ایک چھوٹی دکان بھی کھلتی ہے تو
اسکی رجسٹریشن بھی لازمی قرار دی جائے ۔ اس سے نہ صرف کاروبار سے متعلق
اعدادوشمار اکھٹے ہونگے ، بلکہ پاکستان کی معیشت کا حجم بھی پتہ چلے گااور
اسی سے حکومت ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانے میں کامیاب ہوگی کیونکہ پاکستان میں
ہزاروں لاکھوں ایسے کاروبار ہیں جن کا کہیں پر کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے ۔ان
کاروبار سے مالکان کروڑوں کما رہے ہیں اور ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتے ۔ شائد
جنرل مشرف کے دور میں documentationکی کوشش کی گئی تھی جو کہ زیادہ کامیاب
نہیں ہوئی تھی لیکن اب اس پر دوبارہ کام ہونا چاہیے کیونکہ اسکے بغیر ٹیکس
کے دائرہ کار کو بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
پاکستان ادارہ شماریات کو فعال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اعدادوشمار اکھٹا
کرنا اسکے بنیادی فرائض میں شامل ہے ۔ جو بھی حکومتی پالیسی یا پلاننگ
ہوگئی اسکی کامیابی کا انحصار صحیح اور بروقت مہیا کیئے گئے اعدادوشمار پر
ہی ہوگا۔ |