حمام غُسل خانے یعنی غُسل کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔یہ
اپنے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے آج جدید دور میں باتھ رُوم کہلاتا ہے اور
جس قسم کے اعلیٰ ترین باتھ رُوم آج کے جدید دور میں دیکھنے میں آرہے ہیں
وہاں ماضی ک حمام کے متعلق موجودہ نسل کیا تصور رکھتی ہوگی یہ بھی اُنکے
لیئے دلچسپی کا باعث ہو گا جو ماضی کے حمام کے بارے میں جاننے کی خواہش
رکھتے ہوں۔
غُسل انسان کی بنیادی ضرورت ہے جسکے لیئے کسی تاریخی حوالے کی ضرورت نہیں ۔لہذا
بہتر یہ ہو گا کہ حمام کی اولین تاریخ کا آغاز قیرونِ وسطی میں اسکے عام
رواج سے کیا جائے۔لیکن اس بات کو یقینی سمجھا جائے کہ اسکی لڑی قوموں کے
عروج وزوال کے ساتھ نتھی ہوتی رہی اور ہر دور میں ایک سطحی سوچ کے مطابق
کسی بھی صورت میں حمام کا استعمال ہوتا رہا۔ زمانہِ قدیم میں یونان اور روم
کا بھی اس سہولت میں ذکر اہم ہے۔
قیرونِ وسطی کے دور میں حمام نے تین طبقوں کی شکل اختیار کر لی۔پہلا طبقہ
قدرتی حرارت پر ہوتا تھا۔ اس کمرے میں ایک حوض اور فوارہ ہوتا۔جس میں پانی
قدرتی حرارت پر ہوتا تھا۔نہانے والے اس میں کپڑے اُتار کر مالش وغیرہ
کرواتے۔ اس کے بعد دوسرے کمرے میں جاتے جو قدرے گرم ہوتا تھا جہاں بدن کی
صفائی کی جاتی تھی۔کچھ ٹھرنے کے بعد تیسرے کمرے میں چلے جاتے جو سب سے گرم
ہو تا ۔حتیٰ کے تمام کمرے کی ہوا اور حوض کا پانی بھی بہت گرم ہوتا ۔یہاں
غُسل کرنے والے کو زور کا پسینہ آجاتا تھا۔اسکے بعد غُسل کرنے والا دوبارہ
پھر درمیانی طبقے میں آجاتا اور پسینہ وغیرہ دھوتا تھا۔جب اس کا بدن معتدل
حرارت پر آجاتا تو پھر پہلے کمرے میں آجاتااور وہاں پر کچھ دیر وقت گزارنے
کے بعد کپڑے پہن کر باہر نکل آتا۔
ان حماموں میں نہانے سے بدن پر وہی اثر ہوتا تھا جو اب علاجِ غُسل سے ہو تا
ہے۔ کسی زمانے میں بغداد اپنے حماموں کیلئے مشہور تھا۔اسکے بعد ایسے حمام
یورپ اور شہر لندن میں بھی قائم کیئے گئے۔جو ٹرکش باتھ کہلاتے تھے۔ ظاہری
بات ہے یورپ میں سردی کی انتہاکی وجہ سے غُسل کرنا ایک مشکل عمل تھا لہذا
وہاں ایک مدت بعد حماموں کی ترتیب نے اُنکے لیئے آسانی پیدا کی اور تاریخی
لحظ سے اس میں مسلمانوں کا کردار ظاہری طور پر اہم ہو گا۔بہرحال بعدازاں
یورپ والے اس شعبے میں جو جدت لیکر آئے وہ آج سب عیاں ہے ۔
ہندوستان میں حمام مُغل بادشاہوں کے زمانے میں بنائے گئے۔ یہاں تاریخی طور
پر یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جن منگولوں نے روس ، ہنگری اور جرمنی کو
فتح کیا ان میں ترک بھی شامل تھے جو تاتاری کہلائے ۔ تیمور لنگ اور
ہندوستان میں پہلا مُغل بادشاہ ظہیر الدین بابر تاتاری خاندان سے ہونے کے
دعویدار تھے۔لہذا حمام کا تصور یا ضرورت ہندوستان میں بھی ٹرکش باتھ کا
رواج کی صورت میں لایا گیا ۔ جہاں بادشاہ کے رہنے کا امکان یا قیام گاہ
ہوتی وہاں یہ ضرور بنائے جاتے۔
قلعہ آگرہ میں سنگِ مرمر کے کمروں کا جو سلسلہ ہے ان میں حمام کے مخصوص
کمرے بھی شامل ہیں۔انکو شیش محل کہتے ہیں ۔حمام کے دو مخصوص کمروں میں ہزار
با تختیاں ہیں جن پر سنہری اور روپہلی پھول لگائے گئے ہیں۔یہ کمرے نہیں
بلکہ بڑے بڑے دروازوں والے صندوق معلوم ہوتے ہیں۔چھتوں کی لپائی ابرق کی
ہے۔شیش محل کے علاوہ سنہری بُرج میں بھی ایک زنانہ کمرا ہے۔ اس کمرے کی
ترتیب کچھ ایسی رکھی گئی ہے کہ نہاتے ہوئے چھت سے بھی پانی کی پھوار پڑتی
ہے۔گویا موجودہ دور کے شاور کا نمونہ ہے۔آگرہ کے بعد قلعہ دہلی کے حمام بھی
بہت دلچسپ ہیں ۔زنانہ حمام کامل طور پر سنگِ مرمر کا ہے جس میں پچی کاری کا
خوبصورت کام ہے۔
بادشاہ اکبر کے زمانے میں سب سے عجیب حمام قلعہ اٹک میں اس جگہ واقع ہے
جہاں اب پمپنگ انجن لگا ہوا ہے۔اس حمام کے اندر سے دریا کا پانی بہتا ہوا
گزرتا ہے اور ہر وقت دریا کے تازہ پانی سے غُسل ہو سکتا ہے۔عورتوں اور
مردوں کے جُداجُدا کمرے ہیں۔
لاہور کے قلعے میں بھی حمام تھے جن میں سے ایک بہت بڑا حمام احاطہ جہانگیری
کے مشرق میں ہے اور دوسرا شیش محل کے ساتھ واقع ہے۔بیجا نگر کے ہندؤ راجاؤں
کے محلات میں بھی حماموں کے نشانات پائے گئے ہیں ۔ ان میں سے رانیوں کے
حماموں کے نشانات باقی عمارتوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔
آخر میں اگر دہلی دروازہ لاہور کے " شاہی حمام" کا ذکر نہ ہو تو حماموں کی
تاریخی اہمیت کا اور خصوصی طور ہندوستان میں بادشاہوں کے حماموں کی فنِ
تعمیرات کا ذکر ماند پڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
شاہی حمام سنہ1634ء شاہ جہاں بادشاہ کے گورنر وزیر خان نے مسافروں کیلئے
تعمیر کروایا۔جسکی کُھدائی میں ایک انتہائی سائنسی انداز میں بنا ہوا نظام
دریافت ہوااور ماہرین کے مطابق یہ مُغلوں کا واحد عوامی حمام ہے جو ابھی تک
موجود ہے۔تحقیق کے مطابق اس حمام میں نہانے دھونے کے علاوہ میل ملاپ اور
ذہنی آسودگی کیلئے بھی استعمال ہو تا تھا۔ |