ذکر کا بیان
امام سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ ایک خلیفہ نے اپنے قصیدہ گو
شاعر سے کیف و سرور کی کیفیت بیان کرنے کی فرمائش کی تو شاعر نے اس کیفیت
کو بیان کرنے سے بے بسی کا اظہار کیا تو خلیفہ نے اصرار کیا کہ کچھ تو کہو
تو شاعر نے کچھ شعر پڑہے کہ جن کی نثر یہ ہے کہ ایسی کیفیت میں ، میں اپنے
امیر کے امیر کو بھی اپنے جوتے کی نوک پررکھتاہوں۔کیف و سرور ایک کیفیت ہے
اور اطمینان ایک بلد تر کیفیت ہے۔
ذکرسے قلوب اطمینان پاتے ہیں، اطمینان کو کوئی الفاظ کا جامہ نہ پہنا سکا
اور اس کا سبب یہ ہے کہ کیفیت اور ذائقے کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی
نہیں ہوتا ۔ البتہ تاریخ انسانی بتاتی ہے کہ ذکر ایسا قلعہ ہے کہ اس میں
بادشاہ داخل ہوئے تو انھوں نے سلطنت کو خیرباد کہہ دیا،اور شہزادوں نے عسرت
اور بے سروسامانی کو گلے لگا لیا۔
مطمن شخص کے خیالات، جذبات اور اعمال میں ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس کو
ٹھہراو کہا جا سکتا ہے، ایک مسافر طویل سفر کے بعد جب منزل کو سامنے پاتا
ہے تو اس کے جذبات اور اعمال میں جو ٹھہراو پیدا ہوتا ہے وہ اطمینان کاایک
ادنیٰ درجہ ہوتا ہے،
اطمینان کی کیفیت کو پانے کے لیے ابن آدم ابتدائے افرینش سے تگ و دود میں
رہا مگر اس راز سے پردہ نبی الامی سیدنا و شفیعنا رحمت العالمین حضرت محمد
ﷺ کی زبان مبار ک نے اٹھایا اور اللہ سبحان تعالیٰ کا حکم ایمان والوں کو
سنایا کہ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے۔ |