ڈوب کر پار اتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینا ہے۔ اسے محرم الحرام بھی کہتے ہیں۔ اسلام
سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے یہ
احترام جاری رکھا۔ اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے۔ اسی حرمت کی وجہ سے
اسے محرم کہتے ہیں۔ اس مہینے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔
قواقعات محرم
۱یا ۱۰محرم - جنگ ذات الرقاع
۱ محرم - واقعہ شعب ابی طالب
2 محرم : حضرت امام حسین علیہ السلام کی کربلا آمد
۳ محرم - عمر بن سعد کی کربلا آمد
۵ محرم - حصین بن نمیر کا لشکر کربلا پہنچا۶ محرم _ حبیب ابن مظاہر کی بنی
اسد سے تعاون کی درخواست
6 محرم : تقریباً 30 ہزار یزیدی فوج کربلا آئی۔
7 محرم : قافلہ حسینی پر پانی بند ہوا۔
11 محرم : روانگی اسیران کربلا بطرف
کوفہ17 محرم : اصحاب فیل پر نزول عذاب2ھ۔
18 محرم : تحویل قبلہ بجانب کعبہ7ھ – غزوہ خیبر8ھ – محمد صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم نےصفیہ بنت حیی بن اخطب سے نکاح کیا۔
شہادت و وفات اور ترميم
۱ محرم - رحلت جناب محمد ابن حنفیہ22ھ : یکم محرم کو خلیفہ دوم حضرت عمر
فاروق رضی اللہ تعالی شہید ہوئے۔
61ھ۔ 10 محرم کو جمعہ کے دن حسین ابن علی رضی اللہ تعالی اور ان کے رفقا کی
شہادت (بروز عاشورہ)95ھ –
25 محرم : امام زین العابدین علی ابن حسین رضی اللہ تعالی کی شہادت .
27 محرم : صحابی رسول حضرت میثم تمار کی شہادت
20 محرم : صحابی رسول حضرت بلال مؤذن کی وفات ہوئی.
محرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت والا مہینا ہے اوراس کی حرمت
کی تاکید کے لیے اسے محرم کانام دیا گياہے ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان :
”لہذا تم ان میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو“
اس کا معنی یہ ہے کہ:یعنی ان حرمت والے مہینوں میں ظلم نہ کرو کیونکہ ان
میں گناہ کرنا دوسرے مہینوں کی بنسبت زيادہ شدید ہے ۔اورابن عباس رضي اللہ
تعالٰی عنہ سے اس آيت “لہذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پرظلم وستم نہ کرو“
کے بارے میں مروی ہے :
”تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اورپھر ان مہینوں میں سے چارکو مخصوص
کرکےانہيں حرمت والے قراردیا اوران کی حرمت کوبھی بہت عظيم قراردیتے ہوئے
ان مہینوں میں گناہ کاارتکاب کرنا بھی عظیم گناہ کا باعث قرار دیا اوران
میں اعمال صالحہ کرنا بھی عظيم اجروثواب کاباعث بنایا. یقینا محرم الحرام
کا مہینا عظمت والا اوربابرکت مہینا ہے، اسی ماہ مبارک سے ہجری قمری سال کی
ابتدا ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
”یقینا اللہ تعالٰی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور (یہ تعداد) اسی دن
سے قائم ہے جب سے آسمان وزمین کو اللہ نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے
چارحرمت و ادب والے مہینے ہیں،یہی درست اورصحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں
اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ
تم سب سے لڑتے ہیں ، اور معلوم رہے کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے۔
اور ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم نے فرمایا:
”سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چارحرمت والے ہیں ، تین تومسلسل ہیں ،
ذوالقعدہ ، ذوالحجۃ ، اورمحرم ، اورجمادی اورشعبان کے مابین رجبکامہینا جسے
رجب مضرکہا جاتا ہے“
اسلامی سال یعنی قمری سال یا ہجری سال کا پہلا مہینا محرّم الحرام بابرکت
اور مقدس مہینا ہے محرم کو محرم اس لیے بھی کہا جا تا ہے جب سے اس نے آسمان
و زمین بنائے ہیں؟
ایک بار کسی نے آ قاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسو ل اللہ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے اور رمضان
کے فرض روزے کے بعد کس مہینے کے روزے افضل ہیں، حضورصلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم نے ا ر شاد فرمایا کہ
”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز نماز تہجد ہے اور رمضان کے بعد افضل روزے
محرّم الحرام کے ہیں۔
بالآخر جنگ جو ہونی تھی ہو کر رہی اور حضرت حسین ؓ اور ان کے قافلہ میں
شامل افراد نے جام شہادت نوش کیا ۔اس جنگ کے واقعہ میں بے بنیاد باتیں اتنی
زیادہ اضافہ کردی گئی ہیں کہ میدان جنگ کے واقعات میں سے صحیح اور غیر صحیح
کا امتیاز مشکل بن گیا ہے اور ان تمام واقعات کو ماننے میں یہ رکاوٹ پیش
آتی ہے کہ ایک واقعہ دوسرے واقعہ سے ٹکڑاتا ہوانظر آتا ہے ،اس لئے بس یہ
کہہ لیا جائے کہ ابتدائی مصالحتی کوششوں کی ناکامی نے جنگ کا ماحول پیدا
کردیا اور۱۰؍محرم ۶۱ھ ،جمعہ کو جنگ ہوئی اور قافلہ حسین ؓ کے مجاہدین حق
نے ایک ایک کرکے اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواسہ رسول اور ترجمان حق
کے دفاع کے لئے خود کو پیش کرکے جام شہادت نوش کیا اور بالآخر نواسہ رسولﷺ
پر بھی دشمنوں نے حملہ کرکے شہید کردیااور آپ کی گردن کو آپ کے تن مبارک سے
جدا کرکے یزید کے دربار میں پیش کیا اور اس قافلہ کی خواتین ِپردہ شعار
کودربار خلافت میں پہونچادیا ۔
غور کیجئے کہ اگر حضر ت حسین ابن زیاد کی بات کو مان کر اس سے بیعت لے لیتے
تو یہ جنگ پیش ہی نہ آتی لیکن حضرت حسین ؓنے جنگ کو گوارہ کرکے اس کے ہاتھ
میںہاتھ نہ ڈالا،درحقیقت حضرت حسین ؓنے اس کے ذریعہ اپنے بعد والوں کوایک
سبق دیا کہ باطل کی تائید نہ کرنا ہی اسوۂ حسینی ہے ،ماتم کرکے اس اسوہ کو
زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے،بلکہ باطل کی مخالفت کرکے اسے زندہ کیا جاسکتا ہے
،اگر کسی کے مرنے پر ماتم کرنے سے ہی اس کا حق ادا ہوتا ہے تو پھر سال کا
کوئی دن ایسا نہیں بچے گا جس دن اس روئے زمین پر کسی بڑی قابل قدر شخصیت کی
وفات نہ ہوئی ہو،کیا محمدﷺ کی وفات قابل افسوس نہیں ؟کیا ازواج مطہرات
،صحابہ کرام ،عشرہ مبشرہ ،اور رسول اکرمﷺ کی چہیتی بیٹیوں نیز تمام پیکر
للہیت صحابیات کی وفات ہمارے لئے افسوس کا باعث نہیں؟بلاشبہ ان تما م کی
وفات ہمارے لئے باعث افسوس ہے، لیکن ہم ان تمام کی وفات پر اس لئے ماتم
نہیں کرتے کہ یہ دین محمدی دین ماتم نہیں بلکہ دین تعلیم وعمل ہے ،کسی کی
اچھی تعلیم کو اپنی زندگی میں نقوش راہ بنا ناہی درحقیقت اس کی تعظیم ہے
اور اسی سے اس کے بعداس کی یاد زندہ رہتی ہے
واقعہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا نادراور عجیب و
غریب واقعہ ہے ، دنیا میں یہی ایک واقعہ ایسا ہے، جس سے عالم کی تمام چیزیں
متاثر ہوئیں ۔ آسمان متاثر ہوا ، زمین متاثر ہوئی شمس و قمر متاثر ہوئے حتی
کہ خود خداوندعالم متاثر ہوا اس کا تاثر شفق کی سرخی ہے، جو واقعہ کربلا کے
بعد سے افق آسمانی پر ظاہر ہونے لگی ۔
یزید کی بھیجی گئی افواج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 72 ساتھی تھے، جن میں سے 18 اہل بیت
کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانَ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی
خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
یہ وہ غم انگیز اور الم آفرین واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے
آنسو رلایا ہے
کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا، اس واقعہ کی خبر
اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں
آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی
اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی
ہے، جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون
کی طرح سرخ ہو جائے گی۔
کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت
امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی
تھی۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا
جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت
قائم کی، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے
اصول پر رکھی گئی ۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔
اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر
خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا
تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی.امام
حسین رضی اللہ تعالی محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے
میدان عمل میں اترے ، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری
وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔نواسہ رسول صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل
کرکے ان کے جسم اورسر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام
میں اولین اور بدترین مثال ہے۔
امام حسین رضی اللہ تعالی کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا
درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک
اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ جو
اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی
گئی۔نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جس کی مذمت
بہرآئینہ ضروری ہے۔
دشمن جو ہو حسین علیہ السلام کا
آتشؔ نہ کم سمجھ اسے ابنِ زیاد سے
کربلا آسمانِ دہر پر چمکتا ہوا ایسا خورشیدِ درخشاں ہے کہ جو محبانِ محمد
و آلِ محمد کے لیے تابانیٔ ایمان اور دشمنوں کے لیے آتشِ جہنم برساتا رہے
گا۔ حق و باطل کے اس عظیم ترین معرکے میں نواسۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے قربانی کی لا زوال مثالیں پیش کرکے دینِ اسلام کو بقائے دوام
بخشی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی کو محسنِ انسانیت اور امامِ مظلوم کا وہ
مرتبہ حاصل ہے جو صرف ان کا ہی اختصاص ہے۔ جہل اور گمراہی کی زنجیروں میں
جکڑے ہوئے لوگوں کو انصاف اور صداقت سے مستفید کرنے اور شریعتِ محمدی صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کے اطلاق و احیا کے لیے امام نے قیام کیا۔ آج اگر
دنیا میں دینِ اسلام اپنے نظامِ فکر، فلسفۂ قرآن و حدیث اور اساسِ عدل کے
ساتھ موجود ہے تو اس کے لیے صرف امام حسین رضی اللہ تعالی کو محافظِ اسلام
کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے
|