بیگم کلثوم اور سوشل میڈیا

 کہتے ہیں موت اور نیند کا کوئی وقت نہیں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ کتنی سانسیں لے کر آیا ہے نہیں معلوم۔ بہرحال ان سانسوں کو پورا کرنا ہی پڑتا ہے چاہے انسان اپنی مرضی سے، ان سانسوں کو بولنے یا آنکھ کھولنے کے لیے بھی استعمال نا کر پائے۔ ایسا ہی کچھ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے ساتھ ہوا تین بار خاتون اول رہ چکی وہ خوبصورت اور نڈر خاتون جو اپنے خون میں گاما پہلوان کی بہادری اور حوصلہ لیکر پیدا ہوئیں کیونکہ انہی کی نواسی تھیں۔ اپنی موت و زندگی کا آخری دنگل وہ گیارہ ستمبر کو لندن کے ایک ہسپتال میں میلوں دور ناکردہ جرم کی سزا کاٹتے شوہر اور بیٹی کی غیر موجودگی میں ہار گئیں۔ ویسے ہی جیسے کلمہ شہادت کا ورد کرتی میری ماں نے اشارے سے دوا کی پرچی میرے ہاتھ میں دینے کو کہا تھا میں دوا لیکر دوبارہ وارڈ میں داخل ہوئی تو وہ جا چکیں تھیں۔ میری ماں کی موت کے بات سوشل میڈیا نے سہارا دیا۔لیکن اسی سوشل میڈیا پر میں نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور پھر موت پر میں نے کچھ بے حس لوگوں کو تماشہ بناتے استہزاء اڑاتے دیکھا۔ بے حسی انسانوں کے ان گھٹیا سوالوں کا جواب دینا چاہوں گی ۔۔ اتنا اضافہ ضرور کرنا چاہوں گی کہ کچھ پی ٹی آئی سپورٹرز واقعی بہت بڑا دل رکھتے ہیں اور یہ جواب ان کے لیے نہیں۔

زیادہ بحث نہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ ایک روپیہ پرچی فیس والے سرکاری ہسپتالوں میں وہ مشینری اور فری ادویات ہیں جو باہر موجود کسی میڈیکل سٹور یا پرائیویٹ ہسپتال میں نہیں۔ ایسے میں لیڈر کو مورد الزام ٹھہرانا آپ کی بے حسی ہے آپ اور ہم جیسے لوگ جن کے پاس چار پیسے ہوں وہ بھی پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں نا کہ سرکاری ہسپتال۔ آپ جیسے احساس سے عاری لوگ اس حقیقت کو کبھی نہیں سمجھ سکیں گے کہ موت و پیدائش کا جو اور جدھر وقت مقرر ہے وہ ادھر ہی آئیگا۔سہولیات کا رونا بند کر دیں۔ جا کر کبھی سرکاری ہسپتال کے عملے سے ملیں انتہائی تعاون کرنے والا ہے لیکن وہ جو مریضوں کے ساتھ لواحقین دوپہر کے کھانے کی لالچ میں آتے ہیں جو ہسپتال سے فری ملتا ہے ان سے بھی پوچھ لیجئے گا۔ کھانا معیاری ہے یہ جواب پا کر شرمندہ ضرور ہو گا۔ باقی ڈاکٹر بھی انسان ہیں سارا دن اس ہسپتال میں جراثیم میں رہتے ہیں جہاں آپ اور مجھ جیسے چند کو جا کر کوئی الرجی ہو جاتی ہے۔

دوسری بات جو درندہ صفت، کم ظرف لوگ لندن جیسے ملک میں وڈیو بنانے یا اکسانے سے باز نہیں آئے کیا یہاں پاکستان میں جہاں حاکم وقت ہی اس گندی تربیت کا زمہ دار ہے یہاں کیا ہو گا؟۔ آپ اپنے اوپر لیکر قرآن و حاضر و گواہ جان کر بتائیے اگر کوئی آپ پر کوئی بھی الزام لگا کر۔ آپ کی ہر جگہ وڈیو بنائے اور وہ الزام ہو سکتا ہے صحیح بھی ہو لیکن عدالت آپ کو اس الزام سے بری قرار دے لیکن لوگ آپ کے پیچھے موبائل لیکر وہی الزام لگائیں یا آپ کی فیملی کے پیچھے کیمرے لیکر پڑے ہو ں تو آپ کیا کریں گے؟جبکہ یہاں تو وہ فیملی اس جرم کی سزا کاٹ رہی ہے جو عدالت میں ثابت تک نہیں ہو پایا۔

ہمارے ہاں پردیس گئے لڑکے کی ماں باپ شادی نہیں کرتے کیونکہ اس ایک کے سر تمام بھائی بہنوں کی شادی، گھر پلاٹ سو زمہ داریاں ہوتی ہیں ہر بار اسے پھپھو کی کم عمر بیٹی دیکھائی جاتی ہے کہ تیری شادی اس سے کرنی ہے تو محنت کر۔ ویسے بھی میرے بھائی جس سی پیک کو شبانہ روز محنت کر کہ رکوایا گیا وہ بن جاتا تو واقعی مجبور پردیسیوں کا بھلا ہو جاتا۔ مگر ان کا کیا کہیں گے جو عیاشی یا اپنے خاندان کے اصرار پر پردیس رکتے ہیں اور اپنی مرضی سے وہیں شادی کر کہ سیٹل ہونے کی آپشن پر عمل کر کہ ایک شادی پاکستان میں بھی کرنا چاہتے ہیں۔

رہا سوال آپکے عدالتی نظام کا اس میں واقعی میاں صاحبان کی غلطی ہے،رلنے دیتے۔ دو ٹکے کی اوقات نہیں تھی جن کی۔ عدلیہ بحالی کی تحریک چلا کر ان کو بحال کروایا۔ اور انہوں نے پلٹ کر محسن کو ہی ڈنگ مار دیا۔ اور وہ لوگ بجائے انصاف کی سیاست کرنے لگے اور آپ جیسی عوام نے تالیاں بجابجا کر ان کو اور اونچا مسند دیا کہ آپ ڈیم بنائیں وہ جو کھربوں کیس عدالت میں ہیں وہ راحت فتح علی خان نمٹا دے گا۔

ہائے اب مجھے افسوس ہو گا جب میرا جواب پڑھ کر آپ مجھے گالیاں دیں گے۔ اور مزید دلائل گھڑیں گے۔ بجائے دکھ کی گھڑی میں ساتھ کھڑے ہونے کے آپ جیسی عوام جنازے پر پتھراؤ کرے گی۔ جب قائد کے ساتھ کوئی لگ کہ رونے کی کوشش کرے گا تو اسے جیل ڈال کہ مقدمہ چلایا جائے گا۔کیونکہ ان پر پھول برسانے والا تو آج بھی قیدہے، جب کلمہ شہادت کی بجائے چور کی صدا بلند ہو گی تو آپ جیسوں کے سینوں میں بھڑکتی آگ کو سکون ملے گا، مگر ہمارا دل پھٹ جائے گا کیونکہ ہم ابھی تک سینے میں دل رکھنے والے لوگ ہیں ہم نے رشتے کھوئے ہیں۔ ہم نے اپنوں کی موت دیکھی ہے۔ اور اب تو ہم اپنائیت کی موت بھی دیکھ رہے ہیں اور احساس کی موت بھی۔ اور غلط فہمی و اقتدار کی لالچ میں ایک خاندان کو قید و جلاوطنی کی سزا بھگتتے بھی دیکھا ہے۔

ہم آپ انصافین سے صرف اتنی سی گزارش کر سکتے ہیں کہ ماں بہنوں کے فوٹو شاپس اور بیماری کا یقین نا کرنے اور اسے ڈرامے قرار دینے والو یہ حقیقی میت ہے اس کے آنسو بھی اصلی ہیں اور اس کا غم بھی۔ میں مریم صاحبہ کا دکھ سمجھ سکتی ہوں کیونکہ جب میری ماں گئی تھی تو میری فلک شگاف چیخیں لوگوں کا سینہ شق کر رہی تھیں کوئی بھی پاس آکر چپ کروانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا اور میرا ہائی بی پی بھی ڈرامہ نہیں تھا اور نا ہی میرا آٹھ دن بعد نیند آنا یا طبیعت خراب ہونا کوئی ڈرامہ تھا۔ تو پلیز آپ کو نہیں رونا، مت روئیں مگر ان کے دکھ اور آنسوؤں کو ڈرامہ و سیاست مت کہنا۔ کیونکہ مرناتو سب نے ہی ہے۔ اور وقت ایک سا نہیں رہتا۔

Ammara Kanwal
About the Author: Ammara Kanwal Read More Articles by Ammara Kanwal: 2 Articles with 948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.