وفا کا استعارہ

آنکھ والوں کو ایک منظر میں بے شمار منظر دکھائی دیتے ہیں۔منظر وہی ہوتا ہے لیکن اس کا کینوس بدل جاتا ہے ، اس کا زاویہ بدل جاتا ہے ، اس کا مقام بدل جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا رنگ ڈھنگ بدل جاتا ۔منظر ایک ہی ہوتا ہے لیکن ہر دیکھنے والی آنکھ کو وہ منظر مختلف دکھائی دیتا ہے، گویا کہ ہر انسان کو وہ منظر اس کے ظرف کے مطابق دکھایا جاتا ہے۔کسی کوجرات کا رنگ دکھائی دیتا ہے ،کوئی بزدلی کا روپ اغلب دیکھتا ہے،کوئی دانشمندی کی رمز تلاش کرتا ہے،کسی کو فہم و فراست کی گہرائی کافقدان نظر آتا ہے،کوئی جوانمردی کا جوہر ڈھونڈتا ہے ، کوئی وفا شعاری کی تشبیہ دیتا ہے اور کوئی مصلحت پسندی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے ۔میکاولی سیاست کے پجاریوں کیلئے مفادات کا نقطہ ان کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا لہذا وہ ہر منظر میں مفادات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اہلِ دل ہر منظر سے جرات و جوانمردی کے گوہر سمیٹٹے ہیں ۔میکاولی سیاست چاہے وقتی طور پر فاتح ہی قرار کیوں نہ پائے لیکن آخری منظر میں اس کا مقدر ہارہی ہوتی ہے۔اندھی طاقت فتح کا باب بزور رقم تو کر لیتی ہے لیکن تاریخ کی میزان میں بے وزن ٹھہرتی ہے ۔ سدا سے یہی ہوتا آیا ہے اور سدا ایسا ہی ہوتا رہیگا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جیت عیاری اور مکاری کی نہیں بلکہ سچائی کی ہوتی ہے لیکن سچ کو مادی دنیا میں فتح مند کرنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہو تا ہے۔اسی لئے اسے جوئے شیر لانے سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ اکثر لوگ دودھ کی نہر بہانے سے قبل ہی اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔یہ الگ بات کہ تاریخ میں ان کی جدوجہد استعارہ بن جاتی ہے جس کی صدیوں مثا لیں دی جاتی ہیں۔مثال اسی کام کی دی جاتی ہے جو کٹھن اور مشکل ہو،جو ناممکن اور بظاہر ناقابلِ حصول ہو ۔ہنی بال کی ذات شکست کے باوجو مثال کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ وہ پہلا جرنیل تھا جس نے کوہ الپس کو عبور کیا تھا ۔ وہ ہار گیا لیکن اس کے باوجود بھی وہ تاریخ میں فاتح قرار پایا کیونکہ اس نے ناممکن کو ممکن بنایا تھا ۔زندگی اور موت،فتح و شکست ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔انسانی سروں پر کبھی فتح کاتاج سجتا ہے اور کبھی انھیں شکست کی ہزیمت سہنی بڑتی ہے لیکن مقصد بڑا ہو تو فتح و شکست میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔نظریہ اضافیت کی رو سے کہیں فتح کا جشن برپا ہو تا ہے تو کہیں شکست کا سوگ منایا جاتا ہے۔ددر حقیقت یہ انسان کا آفاقی جذبہ ہوتا ہے جو اسے زند ہ و جاوید رکھتا ہے۔انسان خطا کا پتلا ہے اور اس نے خطائیں کرنی ہیں،اس نے کوتاہیاں کرنی ہیں،اس نے غلطیاں کرنی ہیں ،اس سے فروگزاشتیں سر زد ہو نی ہیں لیکن اتنی ڈھیر ساری خطاؤں کے باوجود اس کا کوئی ایک با جرات اقدام تاریخ میں اس کے ازلی مقام کا تعین کر دیتا ہے اور تاریخ اسے اپنے سینے میں محفوظ کر لیتی ہے۔یاد رہے کہ یہ ازلی مقام جان کو ہتھیلی پر رکھنے کے بعد ہی نصیبہ بنتا ہے ۔انسان سوچ کے گھوڑے دوڑائے تو ششدر رہ جاتا ہے کہ کیسے کیسے انسان کس طرح تاریخِ انسانی کی پیشانی کا جھومر بنے۔کبھی کسی نے جو کچھ نہ سوچا ہو وہ ہو جائے تو تاریخ بھی اپنا سینہ کشادہ کر دیتی ہے ۔ میرے کچھ دوست قدیم تاریخی حوالوں سے زود رنج ہو جاتے ہیں لہذاجدید تاریخ سے کچھ حوالے پیش کرونگا تا کہ دوستوں کی دل شکنی نہ ہو۔سات ارب سے زائد آبادی سے لیس اس کرہِ ارض پرہزاروں لوگ روز جنم لیتے اور ہزاروں لوگ لقمہِ اجل بنتے ہیں لیکن سات ارب سے زائد کی آبادی میں معدوے چند لوگ ہی ہوتے ہیں جو تاریخ کاحسن قرار پاتے ہیں اور دنیا صدیوں ان کی عظمت کے گیت گاتی ہے ۔ در اصل اپنے مقصد کی حقانیت پر یقین رکھنے والے اور موت کے خوف سے بے نیاز ہو جانے والے ہی تاریخ میں زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔جب تک موت کا خوف سر پر سوار رہتا ہے ،انسان مفادات کا اسیر بنا رہتا ہے لیکن جس لمحے وہ موت کے خوف سے خود کو آزاد کروا لیتا ہے وہ آفاقی سوچ کا حامل قرار پا تا ہے اور یوں اس کا آفاقی اندازِ فکر اسے ہر قسم کے ظلم وجور اور دباؤمیں ڈٹ جانے کا غیر متزلزل عزم عطا کر دیتا ہے۔یہ غیر معمولی کیفیت ہوتی ہے جو ہر خاص و عام کو عطا نہیں ہو تی ۔ کچھ لوگوں کو برسوں کی ریاضت کے بعد بھی یہ دولت نہیں ملتی اور بعض کو ایک ہی لمحے میں یہ دولت نصیب ہو جاتی ہے۔ مہاتما بدھ کو برگد کے پیڑ کے نیچے گیان مل گیا تھا حالانکہ اس سے قبل اس نے اس گیان کی خاطر سخت مشقتیں اور ریاضتیں کی تھیں لیکن اسے گیان پھر بھی نہیں ملا تھا۔،۔

جی میں آتا ہے کہ اک دن میں بھی رقص میں آؤں ۔،۔ دنیا جس کو یاد رکھے کچھ ایسا ہی کر جاؤں
اپنے نام کی عظمت تو مجھے بھی لگے ہے پیا ری ۔،۔ پر موت کا جس میں خوف نہ ہو وہ قلب کہاں سے لاؤں
پاکستانی سیاست آجکل عجیب مخصمے کا شکار ہے۔اس میں دو قسم کی سوچیں رو بعمل ہیں۔ایک وہ جو انسانی حقوق اور سچی جمہوریت کے دلدادہ ہیں اور اس کیلئے انھوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں جبکہ دوسرے وہ ہیں جو آمریت کے خوشہ چین ہیں۔ان کوجمہو ریت کی روح سے خدا واسطے کا بیر ہے۔وہ جمہوریت کو سیکو لرزم اور بے راہ روی کا شاخسانہ سمجھتے ہیں ۔ان کی نظر میں جمہوریت پا کستان میں مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے لہذا وہ آمریت کی سخت گیری سے ملکی مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن ایسے افراد کو عوامی حمائت حاصل نہیں ۔ویسے بھی طالع آزما ہمیشہ اس ملک کے مسائل میں اضافہ کا باعث ہی بنے ہیں۔اس وقت میاں محمد نواز شریف نیب عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں ا ڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں ۔ان کی جواں ہمت بیٹی مریم نواز بھی ان کے ساتھ پسِ زندان ہے ۔میاں محمد نواز شریف کے بقول وہ اپنے بیانیہ پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور حقیقی جمہوریت تک کسی قسم کی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہو ں گے ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دو کہ نعرے کو حقیقت کا جامہ پہنا کر دم لیں گے چاہے اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اگر ہم ان کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ان کے الفاظ ان کی ماضی کی زندگی سے تال میل نہیں کھاتے لیکن اگر ہم ان کے حالیہ عزم کو دیکھیں تو ان کی بات با وزن لگتی ہے۔وہ دل کے عارضہ کے مریض ہیں اور پھر ان کی عمر بھی جیل کی سختیاں سہنے کی متحمل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ۶ اگست کو لندن سے اپنی بیٹی کے ساتھ وطن واپسی کا فیصلہ ان کی باطنی سچائی کا آئینہ دار تھا ۔ انھیں علم تھا کہ ان کے سیاسی حریف اور غیر مرئی قوتیں ان کے ساتھ سخت گیر رویہ اختیار کر کے انھیں نشانِ عبرت بنائیں گے لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو ان کے اس فیصلہ نے ان کے قد کاٹھ میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ابھی تک وہ جیل کی سختیوں سے خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پائے تھے کہ ۱۱ ستمبر کو ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا جس نے ان کے مصائب میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے اور ان کی قوتِ مدافعت متاثر ہونے کا اندیشہ ہے ۔ان کیلئے اپنی اہلیہ کی جدائی کوبرداشت کرنا انتہائی کٹھن مرحلہ ہے۔ کیا وہ اپنی اہلیہ کی رحلت کے غم کو اپنی طاقت بناتے ہیں یا رحلت کا غم ان کی زندگی کو گن کی طرح کھاجاتا ہے وقت جلدیا بدیر اس کا فیصلہ کر دیگا ۔بیگم کلثوم نواز ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردارتھا جسے ان کے باجرات کردار کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔وہ گھریلو خاتون تھیں لیکن آمریت کے خلاف ان کی جدوجہد نے انھیں ہر جمہوریت پسندکے دل میں جگہ دے ڈالی ۔یہ جدو جہد سالوں پر محیط نہیں تھی بلکہ یہ ایک استعارہ تھی وفا کا،جمہوریت کی سربلندی کا اور آمریت کے خلاف نبرد آزمائی کا ۔جب مسلم لیگی قائدین مارشل لائی خوف سے چھپتے پھر رہے تھے تو بیگم کلثوم نواز نے طالع آزما جرنیل کی بے پناہ قوت کو للکارا ۔ ان کی یہی ادا اہلِ وطن کے دل کو بھا گئی لہذا میاں محمد نواز شریف کی طرزِ سیاست سے اختلاف کرنے والے لوگ بھی بیگم کلثوم نواز کی جراتوں کے دل سے قائل ہیں۔وہ ان کی رحلت پردل گرفتہ،افسردہ اورغمزدہ ہیں اور انھیں ان کی عظیم جمہوری جدوجہد پر ہدیہِ تبریک پیش کرتے ہیں۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 443414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.